گزشتہ کچھ سالوں سے ہندوستان کے سماجی، معاشرتی اور تہذیبی تانے بانے کو شدید قسم کے اندیشوں کا سامنا ہے۔ معاملہ ہم جنسی کے جواز کا ہو یا ’لیوانِ ریلیشن شپ‘‘ کی قانونی حیثیت کا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہندوستانی سماج کی اقدار اور اس کی اخلاقی روایات کی جڑوں کو اکھاڑنے کی جانی یا انجانی کوشش ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور کوشش حال ہی میں سامنے آئی ہے جس میں مہاراشٹر حکومت نے ایسا قانون وضع کیا ہے، جس کے تحت طلاق کے بعد عورت کو شوہر کی جملہ ملکیت سے پچاس فیصد حصے ملے گا۔ اگرچہ یہ بل بعض وجوہات سے فی الحال سرد خانے میں پڑا ہوا ہے، لیکن اس بات کا پورا امکان ہے کہ اسے کسی اور مناسب وقت قانونی شکل دی جاسکتی ہے۔ اس بل میں اس بات کی بھی وضاحت ہے کہ یہ ریاست میں بسنے والے تمام لوگوں پر نافذ ہوگا اور اس میں مذہب کی کوئی تفریق نہ ہوگی۔
اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مرکزی کابینہ نے بھی مارچ کے آخری ہفتے میں ایک بل کو منظوری دی ہے، جس کی رو سے طلاق کی صورت میں مطلقہ بیوی شوہر کی جائیداد میں سے نصف کی مالک قرار دی جائے گی اور اسے اس کا پچاس فیصد حصہ حاصل ہوگا۔ یہ بل اگر پارلیمنٹ سے منظور ہوکر قانون بن گیا تو ملک کے تمام شہریوں پر نافذ ہوگا۔ ابھی یہ بات مرکزی کابینہ کے بل سے واضح نہیں ہے کہ یہ قانون پرسنل لاء رکھنے والی اقلیتوں پر بھی نافذ ہوگا یا نہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ کسی نہ کسی صورت میں یہ مسلمانوں کے پرسنل لاء پر ضرور حملہ کرے گا اور اسے نقصان پہنچائے گا۔
مہاراشٹر حکومت کا بل بھی یقینا ایک نہ ایک دن قانونی شکل اختیا رکرے گا اور مرکزی کابینہ کے ذریعہ پاس کیا جانے والا بل بھی اگر حکومت چاہے گی تو پارلیمنٹ میں پاس ہوکر قانون بن ہی جائے گا۔ مگر اس قانون کے اثرات اور نتائج ہندوستانی سماج پر کیا مرتب ہوںگے اس پر یا تو کابینہ نے غور نہیں کیا یا پھر اس کے اثرات کو معلوم یا نامعلوم وجوہات کی بنا پر یکسر نظر انداز کردیا ہے۔
یہ بات ظاہر ہے کہ اس طرح کے قانون بنانے کا واحد مقصد عورت کو مضبوط و مستحکم کرنا ہے اور ہندوستانی سماج میں جہاں عورت قدم قدم پر مظلوم ہے، اسے انصاف دلانا ہے۔ مگر انصاف دلانے کے جذبے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خود حق و عدل اور انصاف کی حدود پر قائم رہے۔ اگر انصاف دلانے کا جذبہ یا خود ’’انصاف‘‘ اپنی حدود کو پار کرجائے تو وہ انصاف باقی نہیں رہتا ہے، بلکہ اسے دنیا ’’ظلم‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ ایک اصولی بات ہے جو ان تمام لوگوں کو یاد رکھنی چاہیے جو انصاف کے خواہشمند ہیں اور بعض صورتوں میں انصاف کے دعوے دار۔ اب ذرا ان دونوں بلوں کے اثرات و نتائج کا ہندوستانی سماج کے تناظر میں جائزہ لینا چاہیے۔
ہندوستان وہ ملک ہے، جہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے اور ہندوستانی سماج میں سماجی اعتبار سے بھی اور ہندو دھرم کے اعتبار سے بھی عورت صدیوں سے مظلوم و مقہور رہی ہے۔ یہاں دوسری چیزوں کی طرح اسے بھی ایک ملکیت کی طرح دیکھا اور سمجھا جاتا رہا ہے۔ اور بہ حیثیت انسان اسے کوئی حق حاصل نہ تھا۔ اسے دان کے قابل ایک چیز سمجھا جاتا تھا۔ اور شادی کے وقت کنیا دان کی اصطلاح آج بھی رائج ہے۔ ایسے میں وہ تمام اصول اور قوانین لازماً قابلِ استقبال ہونے چاہئیں جو اسے انسانی عزت و کرامت فراہم کرنے والے اور اس کے شخصی وقار کو بلند کرنے والے ہوں۔ ستی کا خاتمہ، پسند کی شادی کا حق، جہیز کے خلاف قانون، عورت پر ظلم و تشدد کے خلاف قانون اور دوسری شادی کا حق جیسے قانون اگر بنتے ہیں تو یہ ان کے حق و احترام کے لیے ضروری بھی ہیں اور مناسب بھی۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں جہاں پچاس ساٹھ سال پہلے ہندو عورت کو طلاق کا حق حاصل نہ تھا، وہ گھٹ گھٹ کر مرنے کے لیے چھوڑ دی جاتی تھی اور اس زندگی سے تنگ آجانے کی صورت میں یا تو سسرال والے اسے قتل کردیتے تھے یا وہ خود کشی کرلیتی تھی۔ یہ سلسلہ آج تک ختم نہیںہوسکا ہے، حالانکہ مذکورہ قوانین موجود ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ طلاق کے نظام کو اس قدر مشکل اور پیچیدہ بناکر رکھا گیا ہے کہ اس میں قانون کا راستہ تلاش کرنے والوں کے لیے انصاف کے بجائے اکثر مایوسی ہاتھ آتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی عورتوں کے جلائے جانے کے واقعات اور ازدواجی زندگی سے تنگ آجانے کی صورت میں خود کشی عام چیز ہے۔ اور جہاں عورت کو طلاق دینے کی صورت میں مرد کو اپنی نصف جائداد سے ہاتھ دھونا پڑے وہاں پر ہندوستانی سماج ’’حکومت کے قائم کردہ انصاف‘‘ کے مقابلے انصاف کے طلب گار کا خاتمہ کردینے ہی کو ترجیح دے گا۔ کیونکہ جہیز وغیرہ کی صورت میں اس قسم کے واقعات عام ہیں۔ اس لیے اس بات کا یقین ہے کہ طلاق کی اس صورت میں عورت کو انصاف سے زیادہ موت ملے گی جو ایک وحشت ناک اور دردناک بات ہوگی۔
اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جائداد کی تقسیم کیونکہ ایک مالی اور منفعتی عمل ہے اور اس عمل میں انسان حق سے زیادہ تو کیا حق تک دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور اس کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیتا ہے، اس لیے اس بات کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ ہندوستانی سماج کے مرد اپنی تمام آل اولاد اور اہل خانہ کو چھوڑ کر صرف طلاق حاصل کرنے والی عورت کو اپنی ساری جائداد کا نصف دے دیں۔ ہندوستانی سماج کی روایات اور ہندو دھرم کی تعلیمات میں تو لڑکی کو باپ کی وراثت تک میں حصہ نہیں دیا گیا ہے، جو ایک جائز پیدائشی اور فطری حق ہے۔
یہ باتیں عام ہندوستانی سماج کے تناظر میں ہیں، جس میں ملک کی تمام مذہبی اکائیاں شامل ہیں اور تقریباً سبھی کا طرزِ فکر وعمل یکساں ہے۔ اس میں ایک خاص بات مسلمانوں سے بھی متعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ ہندوستان کے قانون میں مسلمانوں کا ایک پرنسل لاء بھی موجود ہے، جو مسلمانوں کے عائلی معاملات ان کی شریعت کے مطابق طے کرتا ہے۔ مسلمانوں کے پاس اللہ تعالیٰ کا وضع کردہ تقسیمِ وراثت کا ایک ایسا آئیڈیل اور انصاف پر مبنی نظام ہے، جس کا متبادل دنیا میں موجود نہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کے ذہن میں یہ فطری اندیشہ ہے کہ اس طرح کے قانون کے ذریعہ مسلمانوں کے پرسنل لاء کو ختم کرنے یا اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر ہم حکومت کی نیت پر شک و شبہ نہ بھی کریں تب بھی اس بات پر تو حیرت ہوتی ہے کہ اس طرح کے بل تیار کرنے والے وزرائے قانون اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس ملک میں مسلمانوں کا پرسنل لاء ہے اور اس لاء میں کیا کچھ شامل ہے، وہ بھی انھیں معلوم ہے پھر بھی وہ اس طرح کے قانون وضع کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں، جن کی براہِ راست زد مسلمانوں کے پرسنل لاء پر پڑتی ہے۔ مہاراشٹر حکومت کے بل میں تو اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ یہ ریاست میں بسنے والے تمام لوگوں پر بلا تفریق مذہب نافذ ہوگا۔
دراصل اس دنیا میں مغربی کلچر اور امریکہ نواز پالیسیاں نافذ کرنا دنیا بھر کی کمزور مملکتوں کا فیشن ہے اور یہ پالیسیاں صرف معاشی و تجارتی پالیسیاں ہی نہیں، بلکہ تہذیبی اور معاشرتی پالیسیاں بھی ہیں۔ مغربی طاقتیں اس وقت پوری دنیا کو اپنے تہذیبی رنگ میں رنگ دینے کی کوششوں میں ہیں اور ہم جنسی جیسی لعنت کو قانون جواز فراہم کرناہمارے ملک کے حکمرانوں کی اسی طرح کی کوششوں کاحصہ ہے۔ زیرِ نظر قانون بھی مغربی طاقتوں کی اسی پالیسی کا حصہ ہے، جس کے تحت وہ خاندانی نظام کا خاتمہ کرکے اور طلاق کو مشکل بناکر شادی کے مقدس بندھن کوناپسندیدہ بناکر ختم کردینا چاہتے ہیں۔ امریکہ میں یہی تو ہے کہ محض طلاق کے ڈر سے لوگ بیس بیس سال یا ز ندگی بھر شادی نہیں کرتے اور یوں ہی زندگی گزاردیتے ہیں، حالانکہ اس دوران ان کے بچہ بھی جوان ہوجاتے ہیں۔
طلاق کے سلسلے میں اس طرح کے قوانین بناکر ہندوستانی سماج میں بھی لیوان ریلیشن شپ کو فروغ اور شادی کو حقیر اور ناپسندیدہ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اورہندوستانی سماج کو اس راہ پر لانے کی جدوجہد ہورہی ہے، جہاں ایک مردوعورت ایک ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ گھر بناتے ہیں، بچے پیدا کرتے ہیں، مگر قانونی طور پر شادی نہیں کرتے اور ایسا صرف اس ڈر سے نہیں کرتے کہ اگر انھیں بعد میں طلاق کی ضرورت پیش آجائے گی تو وہ اس کی قانونی مشکلات کو برداشت نہیں کرپائیں گے۔ ہندوستانی سماج کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے اوراس طرح کی کوشش کو ہندوستانی سماج میں کسی بھی طرح کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے۔
یہ مسئلہ جہاں مسلمانوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے، وہیں ملک کے تمام شہریوں کے لیے اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے لیے بھی زندگی اور موت کا سا معاملہ ہے اس لیے مسلم قیادت کو اسے صرف مسلم پرسنل لاء پر زک کی صورت میں نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ پورے ہندوستانی سماج کے تناظر میں دیکھنا چاہیے اور تمام باشندگانِ ملک کو اس کے خطرات اور اندیشوں سے آگاہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
شمشاد حسین فلاحی