نظامِ ہاضمہ اور آپ کی غذا

ڈاکٹر شاہد محمود

اس بات میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ صحیح، مناسب و متوازن غذا ہی انسانی صحت کی ضامن ہے۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ مناسب، موزوں اور معتدل غذا کھانے سے کئی قسم کے سرطانوں سے بچا جاسکتا ہے۔ حالانکہ یہ بات ابھی واضح طور پر ثابت نہیں ہوسکی ہے کہ سرطان اور تغذیہ میں کوئی خاص ربط ہے۔ کچھ محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ سرطانِ رودہ و مقعد قولون، اور غذا کے درمیان کوئی ربط نہیں ہے۔ جبکہ بعض سائنس دانوں کا کہنا ہے کچھ خاص قسم کی غذائیں کچھ سرطانوں میں مبتلا ہونے کے امکانات کو بڑھا یا گھٹا سکتی ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ کون سی تحقیقات صحیح ہیں، اپنی روز مرہ کی غذا میں مثبت تبدیلیاں آپ کے نظامِ ہاضمہ پر خوشگوار اثرات ڈالنے میں کامیاب ہوں گی، اور اگر سرطانِ رودہ و مقعد میں مبتلا ہونے کے امکان میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے تو چہ بہتر! نیویارک، برسبیٹرین اسپتال وویل میڈیکل کالج آف کورنل یونیورسٹی کے جے، ناہن مرکز صحتِ نظام ہاضمہ میں تعینات مشیر تغذیہ لن گولڈ اسٹین نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ بعض مخصوص قسم کی غذائیں نظامِ ہاضمہ کی صحت پر مثبت اثرات ڈالتی ہیں۔
کیا سرطان (کینسر) سے اپنے آپ کو بچانے میں غذا کا کوئی کردار ہے؟
پہلے ایسا سوچا بھی نہ گیا تھا کہ غذا اور سرطان میں کوئی خاص ربط ہے، لیکن اب یہ حقیقت آشکارا ہوچکی ہے کہ نظامِ ہاضمہ سے وابستہ اعضاء کے سرطانوں کے آغاز میں غذا ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ۱۹۹۷ء میں امریکن انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ریسرچ نے دنیا بھر سے چنے گئے چار ہزار پانچ سو افراد پر تحقیق انجام دینے کے بعد ثابت کیا کہ نظامِ ہاضمہ کے اعضاء میں شروع ہونے والے سرطانوں سے ایک مناسب تغذیہ سے بچا جاسکتا ہے۔
احتیاطی یا پرہیزی غذا کیا ہے؟
کچھ خاص قسم کے غذائی اجزاء آنتوں کے سرطان میں مبتلا ہونے کے امکانات میں بہت کمی کرتے ہیں۔ اسی کو ڈاکٹری اصطلاح میں احتیاطی یا پرہیزی غذا کہا جاتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ’’ہم تو سرطان زا اشیاء کے وسیع سمند ر میں سانس لے رہے ہیں، پھر بھلا ہم اپنے آپ کو کیسے اس موذی بیماری سے بچا سکتے ہیں؟‘‘
بات بالکل ٹھیک ہے، شاید عمر رسیدگی کو روکا نہیں جاسکتا یا موروثیت کو بدلا نہیں جاسکتا۔ اپنے ماحول اور اس کی آلودگیوں سے بھی ہم نبرد آزما نہیں ہوسکتے۔ مگر ہم اپنے منہ میں ڈالنے والی اشیائے خوردنی پر تو قابو پاسکتے ہیں۔ جب ہم اپنے ہاتھ اور منہ پر قابو پانے میں کامیاب ہوں گے تو ہماری جسمانی اور ذہنی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور ہمارے جسم میں موجود قوتِ نظامِ مدافعت فعال ہوکر ہماری مجموعی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرنے میں کامیاب ہوسکے گا۔
آنتوں کی ’’دوست غذا‘‘ کیا ہے؟ اور اس میں کیا شامل ہے؟ دنیا بھر کے محققین اور معالجوں کی متفقہ رائے ہے کہ نظامِ ہاضمہ کے لیے بہترین غذا تازہ سبزیاں اور پھل ہیں۔ ان میں وہ تمام قسم کے وٹامن اور لازمی نمکیات موجود ہوتے ہیں جو ہمارے جسم کی کارکردگی کے لیے لازمی ہیں۔ سبزیوں اور میوہ جات میں موجود غذائی اجزاء ہمارے جسم کے نظام قوتِ مدافعت کو زندہ، مضبوط، توانا اور فعال بنائے رکھتے ہیں، جس سے ہمارے نظام ہاضمہ کے سبھی اعضاء تندرست و توانا رہتے ہیں اور جسم کے دیگر نظاموں پر بھی بڑے گہرے اور دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان غذاؤں میں کافی مقدار میں ریشہ موجود ہوتا ہے جو ہماری آنتوں کے لیے بے حد مفید ہے۔ میوہ جات اس لیے بھی نفع بخش اور ضد سرطان ہیں کیونکہ ان میں مانع تکسیدی اجزاء (یعنی وہ کیمیائی اجزاء جو ان قدرتی پھلوں کو سبز، لال، زرد، نارنجی رنگ بخشتے ہیں) وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ یہ کیمیائی اجزاء نظام قوتِ مدافعت کو مختلف بیماریوں اور سرطانوں سے لڑنے کے لیے ایک مضبوط اور دیرپا سہارا فراہم کرتے ہیں۔ سالم اناج اس لیے مفید ہیں کہ ان میں جسم کے خلیات کی نشوونما کے لیے لازم غذائی اجزاء موجود ہوتے ہیں۔ اناج میں ریشہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ (جس کے بہت سارے فوائد ہیں)، اس سے آنتوں کی اور بیماریوں کے علاوہ ام الامراض قبض سے بھی نجات ملتی ہے۔ آنتوں کی کارکردگی پر بھی مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ ریشہ دار غذائیں دیر تک آنتوں میں موجود رہنے سے بھوک کا احساس کم ہوجاتا ہے اور اس طرح یہ موٹاپے سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ دودھ سے بنی کم چربی والی اشیاء میں بھی لازمی غذائی اجزاء وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ ان میں کیلشیم موجود ہوتا ہے جو ہڈیوں اور دانتوں کی صحت کے لیے نفع بخش ہونے کے علاوہ سرطانِ قولون میں مبتلا ہونے کے امکانات میں نمایاں کمی کرتا ہے۔ ان میں وٹامن ڈی بھی پایا جاتا ہے جو آنتوں کے سرطان سے بچانے میں ایک انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دودھ سے بنی اشیاء میں پروبایوٹکس (Pro Biotics) یعنی آنتوں کے دوست جراثیم بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ بڑی آنتوں میں سرگرم دشمن جراثیم کا قلع قمع کرکے ہمیں بیماریوں سے نجات دلاتے ہیں۔ پروبایوٹکس کی وافر مقدار دہی میں پائی جاتی ہے اس لیے دشمن جراثیم کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر روز دہی کا استعمال لازمی ہے۔ دنیا کے ہر ملک میںدہی کو زندگی کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ایرانیوں کا کہنا ہے ’’ماست حیات است، بدون ماست زندگی غیر ممکن است‘‘ (دہی زندگی ہے، اس کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن ہے)۔
ریشہ نظامِ ہاضمہ کی صحت کے لیے کیوں ضروری ہے؟
مختلف غذائوں (سبزیوں، پھلوں، دالوں، سالم اناج) میں موجود ریشہ کے کچھ ایسے فوائد ہیں جو نہ صرف ہماری عمومی صحت کے لیے ضروری ہیں بلکہ نظامِ ہاضمہ کی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔
ریشہ دار غذاؤں میں چربی کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔ اس طرح یہ موٹاپے سے نجات دلانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ یاد رہے موٹاپا ۲۵ سے زائد سرطانوں کا آغاز کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ریشہ دار غذاؤں میں کولیسٹرول کی مقدار کم ہوتی ہے اور حرارے بھی بہت کم ہوتے ہیں۔ تغذیہ کے ماہر معالجوں نے ایک دن میں پچیس سے پینتیس گرام ریشہ استعمال کرنے کی ہدایت دی ہے۔
بڑی آنتوں میں جو فضلہ (مدفوع) موجود ہوتا ہے، وہ دشمن جراثیم اور سرطان زا اجزاء سے بھرپور ہوتا ہے۔جب کوئی فرد قبض جیسے ’’مرض‘‘میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ سرطان زا اجزاء اور دشمن جراثیم ہماری بڑی آنتوں میں مقررہ مدت سے زیادہ دیر تک موجود رہتے ہیں۔ اس دوران یہ آنتوںکی اندرونی تہوں میں سرگرم عمل خلیوں کو زبردست نقصان پہنچاتے ہیں۔ ریشہ دار غذائیں کھانے سے قبض کی شکایت دور ہوجاتی ہے اور مدفوع (فضلہ)مقررہ وقت میں بڑی آنتوں سے خارج ہوتا ہے۔ اس طرح دشمن جراثیم اور سرطان زا اجزاء ہماری آنتوں کو ضرر نہیں پہنچاسکتے۔
ریشہ کیا اور کیسا ہوتا ہے؟
ریشہ دو قسم کا ہوتا ہے: (۱) جوپانی میں حل ہوتا ہے اور (۲) جو پانی میں حل نہیں ہوتا۔
دونوں کا کردارگرچہ الگ الگ ہے مگر دونوں سود مند ہیں۔ حل ہونے والا ریشہ پانی میں حل ہوتا ہے، اس لیے یہ درحقیقت آنتوں میں سفر کے دوران پانی جمع کرتا ہے اور فضلہ کی مقدار بڑھاتا ہے۔ اس قسم کے ریشہ سے جسم میں کولیسٹرول کی سطح قابو میں رہتی ہے اور آنتوں کے سرطان میں مبتلا ہونے کے امکانات گھٹ جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ صفراوی تیزاب (جو سرطان زا ہے) کی سطح کم کرکے آنتوں کو سرطان سے بچاتا ہے۔ جو ریشہ پانی میں حل نہیں ہوتا وہ آنتوں میں موجود فضلہ یا مدفوع کو تیزی سے آگے دھکیلنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس طرح یہ فضلہ میں موجود سرطان زا اجزاء اور مضر جراثیم کو آنتوں سے خارج کرتا ہے۔
کیا پانی نظام ہاضمہ کی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے؟
اکثر لوگ زندگی میں بہت ساری چیزوں اور باتوں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں مگر پانی کے بارے میں وہ کبھی بھی نہیں سوچتے۔ لیکن اگر آپ ریشہ کے بارے میں سوچنے لگے تو پانی کے بارے میں بھی سوچنا پڑے گا۔ یعنی اگر آپ اپنی غذا میں ریشہ کی مناسب مقدار شامل کرنے لگے تو اس کے ساتھ ساتھ پانی کی مقدار بھی بڑھانی پڑے گی، ورنہ ریشہ کا اثر الٹا ہوسکتا ہے۔ یعنی یہ آپ کو قبض سے نجات دلانے کے بجائے اس میں اضافہ کرسکتا ہے۔ اکثر لوگ ’’پیاس‘‘ کا انتظار کرتے ہیں لیکن طبی نقطۂ نگاہ سے پیاس کا انتظار کیے بغیر دن میں کم از کم دو لیٹر پانی استعمال کرنا جسم کے ہر نظام کے اعضاء کے لیے بے حد ضروری ہے، ورنہ جسم کے اعضاء کم آبی کے شکار ہوکر اپنی کارکردگی احسن طریقے سے انجام نہیں دے سکتے۔
کون سی غذائیں نظامِ ہاضمہ کی صحت کے لیے مضر ہیں؟
جن غذاؤں کے استعمال سے بڑی آنتوں کے سرطان میں مبتلا ہونے کے امکانات روشن ہوتے ہیں ان میں مٹھائیاں، چربی اور سرخ گوشت کا حد سے زیادہ استعمال ہے، اور جن غذاؤں کے استعمال سے بڑی آنتوں کے سرطان میں مبتلا ہونے کے امکانات واضح طور پر کم ہوجاتے ہیں ان میں تازہ سبزیاں اور پھل شامل ہیں۔ ایک ماہر امراض نظامِ ہاضمہ کا کہنا ہے کہ ’’سب سے زیادہ ضرر رساں سرخ گوشت ہے، مجھے تو اس میں ایک بھی فائدہ نظر نہیں آتا۔ اس میں چربی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اور تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہے کہ سرخ گوشت کثرت سے استعمال کرنے سے فرد سرطانِ رودہ و مقعد (Colorectal Cancer) کو دعوت دیتا ہے۔ جب سرخ گوشت دہکتے انگاروں پر بھونا جاتا ہے تو گوشت کے ٹکڑوں کی خارجی تہہ پر کچھ ایسے مضر کیمیائی اجزاء پیدا ہوتے ہیں جو ہماری آنتوں کی اندرونی تہہ میں جمع ہوکر سرطان کا باعث بنتے ہیں۔ ماہرض امراض نظام ہاضمہ اور ماہر امراض تغذیہ عام لوگوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی غذا کا خاص خیال رکھیں اور وہی غذا استعمال کریں جو ان کے نظامِ ہاضمہ کے اعضاء کے لیے مفید ہو۔ لوگوں کو عجیب و غریب غذائیں کھانے کی عادت ہوتی ہے اور وہ کچھ مضر قسم کی غذاؤں کے عادی ہوتے ہیں، اس لیے وہ پلک جھکتے ہی اپنے آپ کو بدل نہیں سکتے۔ لیکن آج سے کوشش کریں اور دھیرے دھیرے اپنا طرزِ زندگی بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنی غذا کی طرف بھی خاص دھیان دیں۔
٭ اس امر کو یقینی بنائیں کہ آج سے آپ تازہ سبزیوں اور پھلوں کا وافر مقدار میں استعمال کریں گے۔
٭ ہر غذا کے ساتھ کوئی نہ کوئی میوہ ضرور کھائیں گے۔
٭ صبح کے وقت ناشتہ میں ریشہ دار اناج کھانا شروع کریں۔ گندم، جو، مکئی کی روٹی کے ساتھ دالوں اور سبزیوں کا استعمال اپنی عادت بنالیں۔ اس کے علاوہ مٹر بیج اور خشک میوے کھانا بھی شروع کریں۔
اگر آپ کی غذا میں یہ سب کچھ شامل ہے تو یقینا آپ کو طبعی مقدار میں ریشہ میسر ہوگا، اس کے علاوہ پانی (آبِ حیات) کو نہ بھولیں۔ گھر سے نکلتے وقت صاف اور ابلے پانی کی ایک بوتل اپنے ساتھ رکھیں اور دن بھر استعمال کرنے کی کوشش کریں۔
اب یہ آپ کی مرضی، آپ کا اپنا فیصلہ ہے کہ آپ اپنے ہی دستِ مبارک سے اپنے منہ میں کس قسم کی غذا ڈالتے ہیں۔ آپ کو خود کو کسی ہوٹل، ریسٹورینٹ یا ڈھابہ میں داخل ہونے سے روکنے میں تھوڑی سی دقت اور پریشانی ضرور ہوگی ، لیکن ایسا کرکے آپ بازاری غذاؤں سے پرہیز کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ آج کل بازاروں میں جو ’’فاسٹ فوڈ‘‘ تیار ہوتے ہیں (اور اکثر لوگ ان غذاؤں کے عادی ہوچکے ہیں) وہ نظام ہاضمہ کی بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ ان غذاؤں کے بجائے گھروں میں تیار کردہ صاف ستھری اور قدرتی غذائیں استعمال کرکے اپنے نظام ہاضمہ کو اپنا دوست بنائے رکھیںاور زندگی کی نعمتوں اور لطافتوں سے لطف حاصل کرتے رہیں۔ اگر آپ نظام ہاضمہ کے لیے ’’دوستانہ غذا‘‘ کا انتخاب کرتے ہیں تو ذیابیطس، موٹاپا، بلند فشار خون اور عارضۂ قلب جیسی بیماریوں سے بھی نجات پاسکتے ہیں۔ یاد رکھئے صرف ایک مناسب، موزوں، متوازن غذا ہی آپ کے جسم اور اس کے ہر عضو کو صحت مند رکھ سکتی ہے۔ اس لیے مصنوعی غذاؤں کے بجائے قدرتی غذاؤں سے دل لگائیں۔ یہ بات بھولیے گا نہیں کہ آپ وہی ہیں جو آپ کھاتے ہیں اور آپ کے روز مرہ تغذیہ کا آئینہ آپ کا چہرہ ہے۔ اسے آج آئینے میں دیکھئے کیسا ہے آپ کا چہرہ…؟؟؟ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146