موجودہ دور کا ترقی یافتہ انسان معلوم تاریخ انسانی میں ترقی کی معراج کو پہنچ گیا ہے۔ مشینی ارتقاء نے اس کی پوری زندگی کو اپنی گرفت میں لے کر افکار تک پر اپنی پکڑ بنالی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے پوری دنیا کو ایک گاؤں بنادیا ہے۔ ایٹمی توانائی کی ایجاد نے قوت و طاقت کے نئے سرچشمے اس کے لیے مہیا کردیے ہیں اور فضاؤں میں گھوم کر، سمندروں کی تہوں میں اتر کر اور صحراؤں میں چکر لگاکر وہ مزید توانائی کے ذرائع تلاش کرنے میں لگاہے۔ آزادی، مساوات اور جمہوریت کے نعروں نے تمام انسانوں کو آزادی کا احساس اور شعور بھی دیا ہے۔
حالیہ دنوں میں دنیا میں رونما ہونے والے واقعات و حوادث نے دنیا کو ایک نئی صورت حال سے دو چار کردیا۔ امن، مساوات، آزادی اور وقار کے اس دور میں بھی دنیا کو ایک نئی سامراجی طاقت کے ظلم و جبر کا سامنا ہے۔ یہ کتنی بدنصیبی کی بات ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی انسان قوم، رنگ و نسل، مذہب اور نظریے کی جنگ میں الجھا ہوا ہے اور اس چیز نے انسان کی زندگی کا امن و سکون غارت کردیا ہے، شخصی و سیاسی آزادی کو معمہ اور مذہبی و قومی آزادی کو ایک خیال بنادیا ہے۔ امریکہ کے سامراجی عزائم نے پوری دنیا کی آزادی اور قومی اقتدار اعلی کو چیلنج کر رکھا ہے اور پوری دنیا ایک خوف اور بییقینی کی کیفیت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ سامراجی طاقتیں آج بھی افراد اور اقوام کو غلام بنانے اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ عراق، افغانستان، فلسطین اور کو سووو وہ حقائق ہیں جو آزادی و مساوات کے نام نہاد دعوے داروں کا منہ چڑا رہے ہیں۔
اس تمام صورت حال کا اصل سبب بڑی طاقتوں کی نظریاتی کمزوری اور کسی بڑی نظریاتی قوت کے خوف کا ادراک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام تر پالیسیاں خوف کے سائے میں تیار ہورہی ہیں اور اس کی زد میں ہر وہ ریاست اور ہر وہ خطہ ہے جہاں توحید کے مانے والے رہتے ہوں۔ کون نہیں جانتا کہ دنیا میں درجنوں ممالک ایٹمی طاقت رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے ان میں بہت سے تیز رفتاری کے ساتھ اس کی طرف بڑھ رہے ہیں اور مہلک ترین ہتھیار تیار کرنے کی ایک دوڑ ہے جس میں ترقی پذیر ممالک بھی شامل ہیں۔ مگر نظریاتی قوت کے خوف کا کیا کیا جائے کہ شمالی کوریا، چین اور اسرائیل اپنی راہ پر بے خطر چلے جارہے ہیں اور کوئی ان کے راستہ میں آنے کی جرأت نہیں کرتا۔ جبکہ دوسری طرف ایران ہے جسیشکار بنانے کی تیاری ہے اور اسے گھیر کر تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔
اس پوری صورت حال میں امت مسلمہ کے افراد اور مسلم ریاستیں کوئی رول ادا کرنے اور اس کیفیت سے نکلنے میں خو د کو بے بس اور مجبور محسوس کرتی ہیں اور یہ بات کسی حد تک بجا ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مجبوری، بے بسی اور مایوسی کی اس صورت حال میں ہم نہ تو خود کو کسی تعمیری رول کے لیے تیار کرسکتے ہیں اور نہ بہت دور تک جاسکتے ہیں۔ بے بسی اور مایوسی کی کیفیت اس لیے بھی ہے کہ ہمارے سامنے حالات کا صرف ایک رخ ہے جو مجبوری و محرومی کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر ہم حالات کے دوسرے رخ کو دیکھیں جس میں امکانات اور مواقع پوشیدہ ہیں تو مایوسیوں کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور ہمارے اندر قوت و طاقت کا ایک سرچشمہ ابلتا نظر آتا ہے۔ حالات کا دوسرا رخ ہے اسلام اور مسلمانوں کے پاس موجود زبردست نظریاتی قوت۔ یہ نظریاتی قوت ہی ہے جس کے سبب اقوام عالم اور سامراجی طاقتیں ہم سے دست و گریباں ہونے پر تلی ہیں۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہماری اس نظریاتی قوت کو اس کے دشمنوں نے تو سمجھ لیا ہے مگر ہم اس کے ادراک سے قاصر ہیں۔
امریکہ اور یوروپ کی اسلام دشمنی اور اس کے نقصانات اپنی جگہ، مگر اس نے امکانات کے زبردست مواقع بھی پیدا کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسلام دنیا بھر میں موضوع بحث بنا ہوا ہے اور لوگ جوق در جوق اس کی طرف آرہے ہیں یہ دیکھنے کے لیے کہ آخر کون سے اسباب ہیں جو تمام طاقتوں کو اس کی مخالفت میں متحد ہونے پر مجبور کررہے ہیں۔ اور اب امریکہ و یوروپ میں اسلام تیزی سے پھیلنے والا مذہب بنتا جارہا ہے۔
گزشتہ صدی میں سرمایہ داری اور اشتراکیت کا گھمسان ہوا جس میں سرمایہ داری کو فتح حاصل ہوگئی۔ اس طرح دو سپر طاقتوں میں سے ایک ختم ہوگئی اور دنیا یک قطبی رہ گئی۔ اب اگر اس واحد طاقت کا کوئی مقابل ہوسکتا ہے تو یہی نظریاتی قوت ہے جسے اسلام کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اب دنیا میں دو طاقتوں کے درمیان جنگ ختم ہوکر دو نظریات کے درمیان جنگ میں تبدیل ہوگئی۔ اس نظریاتی جنگ میں ایک طرف اسلام ہے دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظریہ۔ اب صورت حال یہ ہے اسلام کی ناقابل تسخیر نظریاتی قوت سامراجیت کے سب سے بڑے قلعہ میں نہ صرف داخل ہوچکی ہے بلکہ قیامت کی رفتار سے بڑھتی جارہی ہے۔ اور جس طرح ہم سرمایہ دارانہ سامراجی طاقت سے عالمی سطح پر مسلم ممالک کو بچانے میں بے بس معلوم ہوتے ہیں اسی طرح وہ بھی اپنے آپ کو اسلام سے ’’بچانے میں‘‘ مجبور و بے بس ہے۔
یہ بات کہ اسلام کی نظریاتی طاقت ہی غالب اور فاتح ثابت ہوگی اسی طرح مبنی برحقیقت ہے جس طرح دن کی روشنی میں سورج کا وجود۔ مگر اس کو حقیقت میں بدلنے اور اس فتح کو قریب تر کرنے کے لیے اسلام اپنے ماننے والوں سے کچھ مطالبات رکھتا ہے۔
اس کا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اس نظریاتی سپر طاقت کی پشت پر عمل کی زبردست طاقت کھڑی کریں۔ اور اسلام کی نظریاتی قوت کی عملی تعبیر دنیا کے سامنے پیش کریں۔ عملی تعبیر پیش کرنے کا یہ مرحلہ دشوار اور سخت مرحلہ ہے کیونکہ اس کے لیے ہمیں خود کو تبدیل کرنا ہوگا، اپنے گھر، معاشرے اور سماج کو اسلام کے نظریاتی اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ اپنی سوچ و فکر کو اسلام کے سانچے میں ڈھال کر دنیا کے سامنے ایک ماڈل پیش کرنا ہوگا۔ اس ماڈل کو پیش کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسلام کے ماڈل عہد اور ماڈل شخصیات کی طرف رجوع کیا جائے۔ اگر ہم اس کی تیاری میں اس عہد اور اس کی مثالی شخصیات کی طرف رجوع نہیں کرتے تو کچھ بھی ہو مگر وہ اسلام کی عملی تعبیر نہیں ہوسکتا۔
اس معرکہ میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی نہایت اہم اور بنیادی رول ادا کرنا ہے۔ امریکی و یوروپی ممالک میں اسلام قبول کرنے والوں کی بڑی غالب تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔ مغرب اور اسلام کے درمیان نظریاتی اختلاف کا ایک بڑا محاذ خواتین اور ان سے متعلق مسائل ہیں۔ اور یہی محاذ مغرب کی نظریاتی تسخیر کا سب سے مؤثر محاذ بنتا جارہا ہے۔
ان احوال کے پس منظر میں مستقبل کی نظریاتی کشمکش میں خواتین اسلام کو مقدمۃ الجیش کا رول ادا کرنا ہے۔ دعوتِ دین، معاشرتی اصلاح، تعلیم و امپاورمنٹ اور نظریاتی مباحث و مجادلات، ان سب محاذوں پر خواتین کی اعلی معیار کی سرگرمی کے بغیر احیائِ اسلام کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ کی سیرت اور آپ کے اصحاب کی زندگیوں کو دیکھنے اور ان سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ آج حالات کتنے بھی سنگین کیوں نہ ہوں مگر نبی کریم ﷺکی زندگی سے زیادہ سخت اور تکلیف سے پُر بہرحال نہیں ہیں مگر آپ کی انقلابی جد و جہد، صحابہ کرام کی بے مثال قربانیاں جن میں مردوخواتین سب شامل ہیں، اس بات کا ذریعہ بنے کہ پوری دنیا نور ہدایت سے منور ہوسکی اورآج بھی تمام مخالفتوں کے باوجود ہر طرف امکانات کے دروازے کھلے ہیں۔
گہرا ہوا ہے رنگ اندھیروں کا جب حفیظؔ
امکان روشنی کے بھی روشن بہت ملے