دور جدید ایک ترقی یافتہ دور ہے۔روز مرہ کے کاموں میں سہولتیں اور مختلف معاملات کو انجام دینے کے لئے آسانیاں اسی کے باعث میسر آرہی ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اس دور کے کئی ایک قابل توجہ اور قابل اصلاح پہلو ہیں۔ خدا اور مذہب بے زاری‘ انسانی حقوق کی پامالی‘ عریانیت اور بے راہ روی ‘ غربت‘ امیر و غریب کے درمیان بتدریج بڑھتے فاصلے‘ دہشت گردی کے ذریعہ مسائل کا حل‘غریب ممالک کا استحصال آج کے سنگین مسائل ہیں۔ دور حاضر کا جائزہ بتاتا ہے کہ ان مسائل کے پیچھے معاشرتی‘ معاشی ‘ سیاسی اور مذہبی امور سے متعلق بعض تصورات و نظریات کارفرما ہیں۔جن کی پشت پناہی انسان کی ملحدانہ سوچ اور خود انسانوں سے متعلق غیر معتدل طرز فکر کررہی ہے ۔انکا بے لاگ اور معروضی جائزہ ‘ انشاء اللہ صحیح طرز پر زندگی گذارنے ‘ انسانیت پر ہو رہے ظلم و جبر کو روکنے اور معا شرہ پر پڑرہے فاسد اثرات کے ازالہ میں معاون بن سکتا ہے۔اسی کے پیش نظر ذیل میں چندنظریات کا اختصار کے ساتھ ذکرکیا جارہا ہے:
گلوبلا ئزیشن
گلوبلائزیشن کا ایک غالب پہلوعالمی سطح پرکی جارہی تجارت سے تعلق رکھتا ہے۔ صنعتی انقلاب ‘ سرمایہ دارانہ نظام کے بعد اب آزاد تجارت(Free Trade)کی نئی نئی صورتیںسامنے آرہی ہیں‘ جن میں مادہ پرستانہ ذہنیت کا خاصا دخل ہے۔اس کے پیچھے دراصل طاقتور ممالک کی یہ سوچ ہے کہ تجارتی کمپنیوں کا مفاد عالمی سطح پرکی جا نے والی تجارت میں مضمر ہے۔گلوبلائزیشن کی مختلف شکلیں ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر گلوبلائزیشن (Globalisation as Internationalisation)سے مراد دو ممالک کے درمیان تجارت
آزادنہ گلوبلائزیشن (Globalisation as Liberalisation)سے مراد ایسا طریقہء تجارت اختیار کرنا جس کے ذریعہ حکومت کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں ختم ہوں او ردو ملکوں کے درمیان بغیر کسی روک ٹوک کے تجارت ہو۔
جدیدیت(Globalisation as Modernisation) اس کے تحت مقامی تہذیب کے برعکس جدید معاشرتی ڈھانچے (مغربی تہذیب )کو دنیا بھر میں پھیلانا
اس مادی فکر کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وضع کئے گئے اصول و ضوابط سے‘ بطور خاص ‘درج ذیل باتیںواضح ہوتی ہیں :
٭ کسی بھی ملک کو اس کی اپنی اشیاء بیچنے سے روکا نہیں جائے گا البتہ اپنی اشیاء کی قیمتیںاس قدر گھٹائیں گے کہ کو ئی ملک ان کی برابری نہ کرسکے۔
٭ تعلیم ‘ صحت اور ماحولیات سے متعلق امور بین الاقوامی کمپنیوں کے سپرد کئے جائیں۔ وغیرہ
اس نظریہ کے مطابق پیش قدمی ہمارے ملک میں ابتدائی مراحل پارکرنے ہی کو ہے ۔افراد اور معاشرہ پر مرتب ہورہے اس کے مضر اثرات کا پتا ابھی سے لگانا آسان نہیں۔البتہ ان کے منفی اثرات کا مشاہدہ خود امریکہ میں کیا جاسکتا ہے۔اس مادی تصور کی وجہ سے امریکہ کو سخت نقصانات کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔تقریباً۲۰ ہزار کاروبار ختم ہوچکے ہیں۔ ساڑھے تین کروڑ لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔ ایک کروڑ تیس لاکھ لوگوں کی کمائی روزانہ ایک ڈالر سے کم ہے۔ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں نے زراعت کی نج کاری کے سبب ہجرت کی ہے۔تقریباً 33%دنیا کی آبادی ‘ جو کام کرنا چاہتی ہے‘ بے روز گار ہے یا برائے نام روزگار ملا ہے۔
اسلامی نقطہ نظر
گلوبلائزیشن کے مثبت پہلوئوں کواسلام قدرکی نگاہ سے دیکھتا ہے۔دنیا بھر میں تجارت کی غرض سے آمد و رفت اور لین دین نامناسب نہیں۔اسلام کے نزدیک دنیا ایک اکائی ہے ۔
اس میں مصنوعی سرحدوں کی اجازت صرف اسی حد تک ہے کہ شناخت اور تہذیب و تمدن کو محفوظ رکھا جاسکے ۔اسلام سرحد پار تجارت اور سرمایہ کاری کی ہمت افزائی کرتا ہے۔ ہمارے اسلاف کی تاریخ بتاتی ہے کہ شروع ہی سے نہ صرف بین الاقوامی تجارت رائج رہی ‘ بلکہ اسلامی اقتصادیات ہی کا اصل ذریعہ کاروبار تھا۔ جو ابتدائے اسلام سے لے کر ۸۰۰ سالوں تک دنیا کے کونے کونے میں کیا گیا۔ مشرق و مغرب کے بیچ تجارت کے لئے Silk Roadکی تعمیر مسلمانوں نے کی۔اس طرز کی تجارت کا حامل یہ نظریہ بھی ہے۔لہذا اس پہلو سے اس پر کوئی تنقید نہیں۔البتہ گلوبلائزیشن کا قابل اصلاح پہلو سرمایہ کاری کے طریقہ(Financial Flows) سے متعلق ہے۔گلوبلائزیشن کے توسط سے ضروری اور غیر ضروری ‘ دونوں طرح کی اشیا کی فروخت کی جاتی ہے۔ جبکہ اسلام کی توجہ کا مرکز ضرورت پر ہے۔ تجارت و سرمایہ کاری ضروری میدانوں میں ہو۔غیر ضروری میدانوںمیں تجارت تو دور کی بات‘کسی فرد کو فضول خرچی تک کی اجازت نہیں۔پھر یہ بھی کہ اگر مالیہ تجارت یا طویل المعیاد سرمایہ کاری کے لئے نہ ہو تو اس کو منع کیا گیا ہے۔ اسلام میں روپیہ تبادلہ کا ایک ذریعہ ہے۔ اسی سے قیمت کا تعین ہوتا ہے۔ یہ ہرگز اشیا میں شمار نہیں ہوگا کہ جس کی تجارت کی جاسکے۔ مگر آج کی اقتصادی دنیا میں اسکی بھی تجارت ہو رہی ہے۔
نج کاری (Privatization)
یہ گلوبلائزیشن کا ایک اہم جز ہے۔نج کاری سے مرادکسی بھی شئے کو حکومتی قبضے سے باہر کرنا(Denationalisation)۔ اور کسی بھی اہم کام کی تکمیل کے لئے کسی بیرون ملک کمپنی یا افراد کو ذمہ داری دینا(Out Sourcing)۔اس میں حکومتی کاروبار اور اشیاء‘ بیانک‘ اہم صنعتیں‘ ریل روڈ‘ شاہراہیں‘ الیکڑی سٹی‘ اسکول‘ دواخانے وغیرہ شامل ہیں۔اس کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ حکومتی ادارے موثر اور کارگر نہیں ہوتے۔
نج کاری کے لئے کئی ایک مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اول تو یہ کہ ان اشیا کو قبضہ میں کرنا‘ کثیر رقم صرف کئے بغیر ممکن نہیں۔دوم یہ کہ اگر اتنی کثیر رقم کے ذریعہ کوئی چیز بیچ دی جائے توبیچنے والوں کااس کو دوبارہ حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ تیسرے یہ کہ نج کاری کو نافذ کرنے والی بیرون ملک کمپنی جس علاقے میں کام کرے گی وہاں کی عوام کے جذبات اور تہذیب کا پاس و لحاظ رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے جو اس کے لئے ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں۔پھر یہ بھی کہ پرائیویٹ پارٹیوں کے ہاتھوں قیمتی کاروبار یا اشیاء کی فروخت نازک معاملہ ہوتا ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے دھوکہ‘ حاصل کردہ اشیا کی دوبارہ فروخت یا کسی دوسرے کو Leaseپر دیے جانے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ہمارے ملک میں عملاً ایسا ہوا بھی ہے۔
نج کاری پر تنقید اس پہلو سے بھی ہو کہ عوام کی فلاح و بہبود ‘ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اشیا کو دوسروں کے حوالے کرکے وہ اپنی ذمہ داری سے دست بردار نہیں ہوسکتی۔ عوام اپنے لیڈروں کے حق میں ووٹ اس لئے دیتے ہیں کہ ان کے واجبی مسائل کا حل ہو۔نج کاری کی صورت میں ان لیڈروں کے لئے کرنے کوکیاباقی رہ جاتا ہے؟۔ لہذا ایسی کوئی اقتصادی پالیسی بنانی نہیں چاہئے جس کی وجہ سے عوام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہوجائیں۔یا جو عوام کے نمائندوں کو جمود و تعطل کا شکار بنادے۔
اسلامی نقطہ نظر
اسلام میں معیشت کا ایک اہم مقام ہے۔ اس کے لئے اقتصاد کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی ایسی حالت جس میں توازن و مساوات ہے۔ اس کے لئے کی جانے والی کوششیں دراصل اللہ کی محبت اور اس کے بندوں سے خیر خواہی کو ظاہر کرتی ہیں۔اسلام اور مغرب کے ان معاشی تصوارت میں بنیادی فرق ہے۔
اسلام کے پیش نظر دنیا و آخرت کی فلاح کے لئے فرد کے اخلاق و کردار کی بڑی اہمیت ہے جبکہ مغرب کے نزدیک مادیت ہی سب کچھ ہے۔ اسلام نے انسان کے لئے یہ بات پسند کی ہے کہ اس کے لئے خدائی قانون نہایت موزوں ہے جب کہ مغرب نے واضح کیا کہ انسان کیلئے ‘انسان کے بنائے ہوئے قوانین چلنے چاہئیں۔اسلام نے دولت پر انسان کو نگران کار بتایا تو مغرب نے اس کو جمع کرنے پر ترجیح دی۔یہی وہ بنیادی فرق ہے جس کے سبب مغرب کے غیر انسانی و غیر اخلاقی نظریات سامنے آتے ہیں۔
اسلامزم (Islamism)
اسلامزم – دین اسلام کے تعلق سے گمراہ کن خیالات پر مبنی ہے۔جس کے ذریعہ واضح کیا جاتا ہے کہ یہ دین سیاسی نظریوں پر مشتمل یہ ایک نظام ہے جو مسلم بنیاد پرستوں کے خیالات و افکار کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک سیاسی نظام ہے جو معاشرتی معاملات کی نگہبانی کرتا ہے۔
اس بے بنیاد اور گمراہ کن پروپیگنڈے کے علاوہ اسلام کے خلاف اہل باطل کی چالیں مختلف میدانوں پر محیط ہیں۔ذہین اور بااثر طبقے سے تعلق رکھنے والے سیکولر بنیاد پرست (Secular Fundamentalists)مختلف ذرائعوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔جن کا نشانہ اسلام اور مسلمانوں کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ اس کے لئے حسب ذیل طریقے اختیار کئے جاتے ہیں۔
٭ دہشت گرد حملے‘ فسادات ‘ بیماریاں‘ یکطرفہ اعداد و شمار‘ تاریخی حقائق کے خلاف ماحول سازی ‘ کسی دوسرے سیارے سے تعلق رکھنے والی مخلوق کی زمین پردراندازی جیسے تصور کے ذریعہ معاشرے میں غیر محفوظ ماحول کو فروغ دینا۔جس کے لئے ٹی وی‘ انٹرنیٹ اورسینما جیسے ذرائع ابلاغ کثرت سے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔
٭ تعلیمی‘ تکنیکی اور فنی لحاظ سے مسلمانوں کو پسماندہ رکھنا۔خصوصاً مسلم ممالک میں ان سے متعلق اداروں کے قیام پر روک لگانایا رکاوٹیں پیدا کرنا۔
٭ سیاست کا اسلام سے کمزور تعلق واضح کرنا۔ جو اس تصور کی حامل مسلم تنظیمیں ہیں انہیں فروغ دینا اور ان کا سہارا لیتے ہوئے اس تصور کو عام کرنا۔
٭ معا شی میدان میں اسلام کی ناکامی واضح کرنا۔ جو ادارے اسلامی نظام معیشت کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں‘ انہیں ناکام بنانا۔
٭ مسلمانوں کی معاشرتی زندگی میں قرآن و سنت کی تعلیمات کے بغیر تبدیلی لانے کی کوشش کرنا۔اور انہیں فروعیات اور جزئیات میںالجھائے رکھنا ۔
٭ مسلمانوں کو دعوت اور نہی عن المنکر کے فریضہ سے دور رکھنا۔ مسلمانوں میں علاقائیت اور قومیت کے جذبات کو فروغ دینا۔
٭ مسلم خواتین کے حقوق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا۔جن معاملات پر مسلمان اتفاق رکھتے ہیں‘ انہیں عمداً زیر بحث لاتے ہوئے بے چینی کی فضا پیدا کرنا جیسے طلاق‘ خلع‘ نان نفقہ‘
طریقہ نکاح اور میراث کی تقسیم وغیرہ
عالمی سطح پر رائج ان تصورات و نظریات کا یوں تو خواتین سے براہ راست تعلق ظاہر نہیں کیا جاتا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان نظریات کے برے اثرات ساری انسانیت پر پڑ رہے ہیں۔اور یہ بھی حقیقت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ مغربی مفادات کے حصول کے لئے نسوانی شخصیت کو آلہ کار بنایاجارہا ہے۔پھر یہ بھی کہ ان غلط افکار کے اثرات کا دائرہ خواتین
کے فطری میدانوں تک داخل ہوتا جارہاہے۔جس کے سبب آج عورت کی عزت و عظمت‘ اسکی عفت و پاکدامنی ‘بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لئے درکار توجہ اور یکسوئی سے وہ محروم ہوتی جارہی ہے۔اس پس منظر میں مسلم خواتین کی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں۔جن کی اخلاص و للہیت کے ساتھ ادائیگی انشاء اللہ حقیقی فلاح و کامرانی کا ذریعہ بنے گی۔
مسلم خواتین کی ذ مہ داریاں
٭ دور حاضر کے ان تصورات و نظریات کا تنقیدی اورتجزیاتی مطالعہ کرنا‘تاکہ انسانیت کو ان کے مضر اثرات سے محفوظ رکھتے ہوئے‘ اسلام کی حیات بخش تعلیمات کو عام کیا جاسکے۔
٭ بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینا۔ا نہیں ان تمام غیر ضروری مشاغل سے دور ر کھنا جن کا ان کی صحت اور فکر پر برا اثر پڑتا ہو۔
٭ نوجوان لڑکیوں کی اصلاح و تربیت اس طرح کرنا کہ ان کی پسند و ناپسند کا معیار ‘ اللہ اور اس کے سولﷺ کی پسند ہوجائے۔
٭ سماجیات‘ سیاسیات‘ معاشیات اور نفسیات جیسے میدانوں میں ماہر خواتین کی تیاری پر توجہ دینا۔ طالبات اور دلچسپی رکھنے والی خواتین کو ان سے متعلق تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دلانا ۔
٭ صلاحیتوں کو نشوونما دینا۔انٹرنیٹ اور دیگر جدید ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے حالات سے واقفیت حاصل کرنا۔
٭ مختلف پروگراموں اور اخبارات و رسائل میں مضامین کی اشاعت کے ذریعہ خواتین اور طالبات میں بیداری لانے کی کوشش کرنا۔
٭ بااثر اور تعلیم یافتہ خواتین سے ان تصورات و نظریات کے پیش نظر تبادلہ خیال کرنا۔
٭ دور جدید کے نظریات کی افہام و تفہیم کے لئے تنظیموںاور اداروںسے وابستہ خواتین کے خصوصی پروگرام منعقد کرنا۔
٭ ان جدید نظریات کے مطالعہ کے لئے متعلقہ کتب ‘ رسائل اور اخبارات کا پابندی سے مطالعہ کرنا۔