رحمتوں کا مخزن ہے آج بھی مدینے میں
عاصیوں کا مأمن ہے آج بھی مدینے میں
جو برستا ہے ہر دم چاہے کوئی موسم ہو
نور کا وہ ساون ہے آج بھی مدینے میں
جس سے رات دن پیہم نور سا جھلکتا ہے
وہ حسین چلمن ہے آج بھی مدینے میں
ماند جس کے آگے ہے مہر و مہ کی تابانی
نور کا وہ مسکن ہے آج بھی مدینے میں
جس پہ ہوتی رہتی ہے روز نور کی بارش
وہ نبیؐ کا مدفن ہے، آج بھی مدینے میں
کفر و شرک کی ظلمت جس سے چھنٹ گئی یکسر
وہ چراغ روشن ہے آج بھی مدینے میں
ڈھک لے اپنے سائے میں جو گناہ گاروں کو
کملی کا وہ دامن ہے آج بھی مدینے میں
کیوں ہے بے قرار آخر طائرِ دل مضطر
جب ترا نشیمن ہے آج بھی مدینے میں
جس کی عطر بیزی پر خلد بھی ہے شیدائی
وہ حسین گلشن ہے آج بھی مدینے میں
ہم خدا کے جلوؤں کو جس میں دیکھ سکتے ہیں
وہ حسین درپن ہے آج بھی مدینے میں
جس نے باندھ رکھا ہے اپنی ساری امت کو
پیار کا وہ بندھن ہے آج بھی مدینے میں
جبرئیل بھی جس جا پر سمیٹے آتے ہیں
ہاں وہ در وہ آنگن ہے آج بھی مدینے میں
ہند کے گلستاں میں قید ہوں قمرؔ لیکن
پرفشاں مرا من ہے آج بھی مدینے میں