کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا
جو جمالِ روئے حیات تھا، جو دلیلِ راہِ نجات تھا
اُسی راہبر کے نقوشِ پا کو مسافروں نے مٹا دیا
ترے حسنِ خلق کی اک زَمق مری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا
میں ترے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
ترے دشمنوں نے ترے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
یہ مری عقیدتِ بے بصر یہ مری ارادتِ بے ثمر
مجھے میرے دعویِ عشق نے نہ صنم دیا نہ خدا دیا
مرے رہنما! ترا شکریہ کروں کس زباں سے بھلا ادا
مری زندگی کی اندھیری شب میں چراغِ فکر جلا دیا
کبھی اے عنایتِ کم نظر ترے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسم رخِ زیست تھا اُسے تیرے غم نے رُلا دیا