میں چلی یوں تمہارے وطن سے نبی
جیسے نکلے کوئی روح تن سے نبی
میری پلکیں بھی اب تو جھپکتی نہیں
دل نے کیا کہہ دیا ہے نین سے نبی
آرزو ہے اٹھے جب جنازہ مرا
آئے خوشبو تمہاری، کفن سے نبی
صبحِ طیبہ نے کس کی ادا سیکھ لی
اب ہوا بھی چلے بانکپن سے نبی
شمع یہ بعدِ مدت سمجھ پائی ہے
ارض طیبہ کا رشتہ بدن سے نبی