محبت کی طرح نفرت بھی ایک فطری جذبہ ہے جو لاشعوری طور پر خود بہ خود پیدا ہوجاتا ہے لیکن اسے قابو کرنا اور سہی رُخ دینا اللہ نے ہمارے اختیار میں دیا ہے
نفرت انسان کو اخلاقی اقدار کیخلاف کام کرنے پر مجبور کردیتی ہے، انسان کے اعلیٰ اوصاف کو دیمک کی طرح چاٹتی ہے اور انسان کو اخلاقی و روحانی حتیٰ کے جسمانی لحاظ سے بھی کمزور کرکے چھوڑتی ہے، شخصیت کو مسخ کردیتی ہے. اسی لیے عقل مند انسان کبھی بھی نفرت کا الاؤ نہیں جلاتا کیونکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ وہی سب اس میں سے پہلے جلے گا۔
جب ہم کسی سے نفرت کرتے ہیں تو اس کی خلاف باتیں کرنا شروع کردیتے ہیں اسی طرح چغلی کھانے لگ جاتے ہیں۔ جھوٹ، بناوٹ اور مکاری سے کام لینا شروع کردیتے ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ اس سے ہم کسی اور کو نہیں بلکہ خود کو تباہ کررہے ہوتے ہیں۔ اپنی صلاحیتیوں کو زنگ لگا رہے ہوتے ہیں اور دوسرا اپنی زندگی سے فائدہ اٹھا رہا ہوتا ہے۔ ہم اپنے حواس پر دوسروں کی نفرت اتنی لاد دیتے ہیں کہ ہمارا جسمانی نظام تک ڈسٹرب ہوجاتا ہے۔ اپنے اچھے کردار اور کام سے محروم ہوکر بالآخر ہم خود کو دوسروں کی نظروں میں بھی گرا دیتے ہیں۔
نفرت سے بچنے کیلئے نسخہ ہے کہ کسی کو بھی اتنا نہ چاہیں یا کسی سے بھی اتنی امید نہ لگائیں کہ اگر وہ آپ کی امیدوں یا محبت کے برخلاف کچھ کردے یا کہہ دے تو آپ کی نفرت بھی انتہا کو پہنچ جائے۔ اگر کسی سے شکایت ہوجائے تو رشتے بالکل ہی ختم نہ کردیں بلکہ وقتی طور پر کچھ فاصلہ پیدا کرلیں۔ اس سے واپس جڑنے کی امید اور امکان باقی رہتا ہے۔
دوسری بات کہ بچوں میں کبھی بھی نفرت کا بیج نہ بوئیں۔ بچے کے سامنے کبھی بھی اپنے ناپسندیدہ شخص کی برائیاں نہ لے کر بیٹھیں۔ بچہ صرف آپ کی سن کر اُس شخص سے نفرت کرنے لگے گا اور ہوسکتا ہے آپ سے بڑھ چڑھ کر نفرت کرے۔ اس طرح بچے کا مستقبل جہاں آپ کو سنوارنا تھا اور بہترین مقصد زندگی دینا تھا، وہاں آپ اس کے ذہن کی تخریب کاری کا باعث بنیں گے اور اُسے بھی نفرت جیسے گھناؤنے جذبات سے آشنا کردیں گے۔
نفرت اصل میں ایک منفی رویہ اور منفی سوچ کی مظہر ہے۔ جس طرح نفرت خود ہمیں کو نقصان پہنچاتی ہے اسی طرح منفی سوچ بھی انسان کے اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاتی ہے۔ اور ہمارا دین ہمیں نفرت اور منفی سوچ سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ یہ بات حضور پاک ﷺ کی حدیثوں سے بھی واضح ہوتی ہے اور آپؐ کے طرزِ عمل سے بھی۔
آپ غور کیجیے کہ ایک بڑھیا روزانہ آپؐ کے اوپر کوڑا پھینکتی ہے مگر آپؐ اس بات کو برداشت کرتے ہیں اور اسے نکیر نہیں کرتے۔ پھر مثبت سوچ کی انتہا دیکھئے کہ ایک روز جب وہ کوڑا نہیں پھینکتی تو آپ اس کی وجہ دریافت کرنے اس کے گھر چلے جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ بیمار ہے۔
محبت یا مثبت سوچ اعلیٰ اخلاق کا تقاضہ بھی ہے اور مظہر بھی جبکہ منفی سوچ ، نفرت اور بدگمانی اخلاقی خرابی بھی ہے اور اس کا مظہر بھی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم ہمیں بدگمانی سے بچنے کی تلقین کرتا ہے اور کچھ بدگمانیوں کو گناہ قرار دیتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
ترجمہ :’’اے ایمان والو! بہت زیادہ بدگمانی سے بچو، بے شک بعض برے گمان گناہ ہوتے ہیں۔‘‘
بدگمانی نفرت کا بنیادی سبب ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو انسان نفرت نہ کرے۔ اگر انسان اچھا گمان رکھے تو خیر حاصل ہوگا، انسانوں کو بھی اور خود انسان کو بھی۔ خوش گمانی محبت کا ذریعہ اور مظہر ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی زندگی میں خوش گمان رہنے کی تلقین کی ہے۔ اس کا کہنا ہے: ’’میں اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی ہوں جیسا وہ گمان کرتا ہے۔‘‘(حدیث)
اگر ہم زندگی میں خوش گمانی اختیار کریں تو نفرت بھی ختم ہوجائے گی اور بدگمانی بھی۔