تمام برے خیالوں کی جڑ نفسانیت ہے۔ یاد رکھو کہ حفظ ذات ایک فطری داعیہ ہے اور وہ جب تک دوسروں کے عائد شدہ حقوق اور اجتماعی ذمہ داریوں کا احترام قائم رکھ کر کام کرتا ہے اس وقت تک آدمی اپنی زندگی، اپنے جسم، اپنی ضروریات اور اپنی فلاح و بہبود کے لیے جو کچھ بھی کرتا ہے وہ کار خیر ہوتا ہے اور اس سلسلے کا ہر خیال بھی تعمیری خیال ہوتا ہے۔ لیکن جب سب کچھ اپنا ہی آپ رہ جائے، فرائض کو غارت کرکے آدمی مفاد حاصل کرے، دوسروں کے حقوق کو پامال کرکے اپنی اغراض پوری کرے، دوسروں کو نقصان پہنچا کر اپنا آرام حاصل کرے، اس کے سامنے اپنی ادنیٰ ترین خواہشوں اور ذلیل جذبوں کے علاوہ کوئی اور شے قابل احترام نہ رہے تو یہاں پہنچ کر حفظ ذات کا داعیہ نفسانیت کی خطرناک شکل اختیار کرلیتا ہے۔
نفسانیت ایک ایسا زہر ہے جو روح میں سرایت کرکے اسے سڑا دیتا ہے اور پھر اس کے اندر سے جو خیال بھی اٹھتا ہے وہ سڑا ہوا اور گھناؤنا ہوتا ہے۔ ایسا ہر خیال کردار کو غارت کرتا، شخصیت کو ناپاک بناتا اور ازدواج اور دوسرے اعلیٰ رابطوں کا ستیاناس کردیتا ہے۔ تمام نفسیاتی اور اخلاقی بگاڑ اسی سے شروع ہوتے ہیں، جن پر جرائم کے برگ و بار آتے ہیں۔
داناؤں کا ایک قول ہے کہ صالح ذہن وہ ہے، جس میں آنے والے خیالات کو بلا تکلف دوسروں کے سامنے رکھا جاسکتا ہے۔ گویا اچھا تعمیری، نورانی اور نفسانیت سے پاک خیال وہ ہے جسے ہم شخص متعلق کے سامنے بیان کرکے اپنے آپ کو اخلاقاً پست محسوس نہ کریں۔ اور ہماری عزت نفس ہمارے ضمیر کی نگاہ میں برقرار رہے۔
اسی سلسلے میں منفی خیال کی ایک دوسری نوعیت بھی جان لو۔ ہمارے وہ داخلی تاثرات جو ہمیں مایوسی، حزن، بیزاری اور اوہام کی طرف لے جائیں وہ بھی روح اور شخصیت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ جو خیال بھی عمل میں مانع ہوتا ہے اور زندگی کی تگ و دو سے ہمیں باز رکھتا ہے وہ بھی تخریبی قسم کا ہے۔ غیر عملی خیالات کو بھی خطرناک سمجھو۔ (نعیم صدیقی)