نفسیاتی صحت سے مرادانسان کی جذباتی صورتحال متوازن ہو اور اپنے جذبات کا اسے ادراک بھی ہو اور اس پر قابو بھی۔ نفسیاتی صحت نفسیاتی خوشحالی کا نام ہے۔ اچھی ذہنی صحت رکھنے سے انسان نسبتاً خوشحال اور صحتمند زندگی گزار سکتا ہے۔ یہ اسے خود انحصاری کے ساتھ زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے میں مدد کرتی ہے۔ کئی حکمت عملیاں ایسی ہیں جو اچھی ذہنی صحت قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرسکتی ہیں جیسے کہ
مثبت رویہ اپنائے رکھنا
جسمانی طور پر متحرک رہنا
دوسرے لوگوں کی مدد کرنا
مناسب نیند لینا
صحت بخش غذا ئیں کھانا
اس کے علاوہ ان لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جن کے ساتھ آپ وقت گزارنے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اپنی پریشانیوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کی مہارتیں تشکیل دے کر ان کا استعمال کریں۔
اس کے برعکس نفسیاتی بیماری کیا ہے اور اس کی تعریف کیا ہے ؟
یہ ایک وسیع اصطلاح ہے اور انسانی رویوں میں مختلف سطح کے خلل واقعہ ہونے کو نفسیاتی بیماری کہا جاتا ہے جس سے انسان کی روزمرہ زندگی متاثر ہوتی ہے۔نفسیاتی بیماریاں پیدا ہونے کے مختلف عوامل ہیں۔ جیسے جینیاتی وجوہات، دباؤ کی کیفیت، غیر متوازن عادتیں، نشہ اور منشیات کا استعمال، دماغ کی بائیو کیمسٹری میں خلل، معاشی پریشانیاں وغیرہ۔
نفسیاتی بیماریوں کی تین سطحیں ہیں:
lبرتاؤ میں ہنگامہ خیزی،
جذباتی مسائل جیسے غصہ اضطراب ڈپریشن وغیرہ
اعصابی بیماریاں جیسے: OCD،Bipolar ، Schizophrenia وغیرہ۔
نفسیاتی مسئلہ اگر برتاؤ کی سطح پر ہو تو نصیحت اور تربیت سے وہ مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔ نفسیاتی مسئلہ اگر جذباتی سطح پر پہنچتا ہے اس کے نتیجے میں انسان جسمانی طور پر بھی بیمار ہونے لگتا ہے۔ اس کے روزمرہ کی زندگی متاثر ہونے لگتی ہے اور اس کے اطراف کا ماحول بھی وہ متاثر ہونے لگتا ہے۔ اس مرحلے میں ماہر نفسیات سے کونسلنگ مفید ہوتی ہے۔ جب نفسیاتی بیماری تیسری سطح پر پہنچ جاتی ہے تو وہ انتہائی پیچیدگی اختیار کر لیتی ہے۔ ماہر نفسیات کی کونسلنگ کے بجائے سائیکیٹرسٹ سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور دواؤں کے ذریعہ علاج کی کوشش ہوتی ہے جس کے لیے ایک طویل مدت بہت در کار ہوتی ہے۔
نفسیاتی صحت کا اسلامی تصور (نفسیاتی صحت-1)
نفسیاتی صحت کے سلسلے میں مغربی دنیا میں کوششیں بہت دیر سے شروع ہوئیں جبکہ اسلامی دنیا میں اس پر کام ابتدائی دور ہی میں شروع ہوچکا تھا۔ ایک مصنف لکھتا ہے:’’اسلامی دنیا نے، اپنے ابتدائی سالوں میں، ذہنی صحت اور نفسیات سے متعلق نقطہ نظر میں سرخیل کا رول ادا کیا۔‘‘
معلوم ہونا چاہیے کہ سب سے پہلے نفسیاتی ہسپتال عرب ممالک میں بغداد میں 705ءخلیفہ الولید بن عبدالملک کے دور میں، اور قاہرہ میں 800 عیسوی قائم کیے گئے تھے ۔جبکہ پہلا پاگل خانہ،دمشق میں 1270 میں قائم ہوا تھا۔ اس کے بالمقابل مغربی یورپ میں لندن میں بیتلیم میں پہلا دماغی ہسپتال، تیرہویں صدی میں قائم کیا گیا تھا ۔ عربی طب کی اہم شخصیات امامرازی (860-932) ابن سینا رہے ہیں۔ ان کے Avicennas (980-1037) اور مستند کام مثال کے طور پر کتاب الحاوی اور ان کی القانون فی الطب، طب کی وہ نامور کتابیں ہیں جو کئی جلدوں میں پائی جاتی ہیں۔ ایک زمانے تک لوگ دماغی بیماریوں کو جادو اور جن بھوت پریت کے اثرات سمجھا کرتے تھے اور آج بھی ایسا ہوتا ہےمگر اسلامی دنیا کے نامور ماہرین طب اور ماہرین نفسیات نے توہم پرستی کا مقابلہ کیا، جو پہلے سے ہی موجود تھی۔
عیسائی دنیا پر توہم پرستی کا غلبہ تھا مسلم ماہر نفسیات نے ان بیماریوں کے لئے نفسیاتی تھراپی اور طور طریقوں کو ایجاد کیا۔
شخصیت اور طرز عمل شاید صحت کے سب سے اہم اجزاء ہیں۔ قرآن نے شخصیت کے کئی منفی اقسام اور رویے بیان کیے ہیں جن کا تعلق ذہنی یا جسمانی خرابی صحت سے ہے۔ انسانوں کو فخور،ظلوم، عجول، قطور، خصیم، هَلُوعًا جَزُوعًا اور کنود کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جو چیز نفسیاتی بیماری کے طور پر شروع ہوتی ہے وہ جلد ہی جسمانی بیماری میں بدل جاتی ہے مثال کے طور پر حسد قتل کا باعث بن سکتا ہے۔ مندرجہ ذیل آیات کا مطالعہ کیجئے اور دیکھیے کہ ان میں سے ہر آیت میں انسان کی کوئی نہ کوئی نفسیاتی کمزوری کا ذکر آیا ہے:
ترجمہ:’’اور اگر اس مصیبت کے بعد جو اس پر آئی تھی، ہم اسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں تو وہ کہتا ہے میرے سارے دلدر دور ہوگئے ، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔‘‘
ترجمہ:’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں ، اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے ، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا ، بیشک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔‘‘
ترجمہ:’’جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بےانصاف اور ناشکرا ہے ۔‘‘
ترجمہ:’’اور انسان شر اس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی چاہیے۔ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔‘‘
ترجمہ:’’اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہو، اگر کہیں میرے رب کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضے میں ہوتے تو تم خرچ ہوجانے اندیشے سے ضرور ان کو روک رکھتے۔ واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے۔ ‘‘
ترجمہ:’’کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ صریح جھگڑالوبن کر کھڑا ہوگیا؟‘‘
ترجمہ:’’انسان تھڑدلاپیدا کیا گیا ہے ، جب اس پر مصیبت آتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے ۔‘‘
یہ بات یاد رہے کہ قرآن نے جہاں انسانوں کی کمزوریوں کا تذکرہ کیا وہیں یہ بھی بتایا کہ انسان اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں مگر پھر وہ اپنی غلطی پر تائب ہوکر صحیح راستے کی طرف لوٹ سکتاہے۔ اپنی غلطیوں سے اسے نا امید ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مایوسی کے نتیجے میں انسان کی عزت نفس متاثر ہوتی ہے۔ اس پر قرآن قنوطیت سے بچا کر انسان کو امید کی راہ پر ڈالتا ہے۔ ایمانیات انسان کو ذمہ دار قرار دیتی ہیں اور اسے روئے زمین پر اس کا رول بتاتی ہیں۔
سماجی صحت
کہا جاتا ہے کہ انسان ایک سماجی جانور ہے۔ سماج کے بغیر انسان کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کی شخصیت سازی میں سماج کا اہم ترین کردار ہوتا ہے۔
ہر بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو اس کا پہلا سماج اس کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ ماں باپ کا بچوں کے ساتھ طرز عمل بچوں کی سماجی صحت کو بناتا ہے ۔ جس طرح جسمانی صحت کے حوالے سے خوراک اور کھانے پینے کے بارے میں اسلام تعلیم دیتا ہے اور جسمانی صحت کے بارے حساس بناتا ہے، اسی طرح سماجی صحت کے سلسلے میں بھی تفصیلی ہدایات فراہم کرتا ہے۔ اسلام کے نزدیک بیوی بچوں سے مثبت اور فیضان کا تعلق، والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی خدمت اور معاشرے سے برائیوں کے خاتمے کی فکر اور خیرپروان چڑھانے کی سرگرمیوں اور اس کے اہتمام کا نام سماجی صحت ہے۔ سماجی صحت کسی ایک عنصر کا نام نہیں بلکہ زندگی کے مختلف میدانوں سے متعلق رویوں کی صحت مندی سے سماجی صحت بنتی ہے۔ سماجی زندگی کا ایک اہم ترین ادارہ شادی اور خانہ آبادی ہے۔ کوئی فرد شادی سے کتنا مطمئن ہے اور ازدواجی زندگی کی خوشگواری میسر ہے یا نہیں ہے، طلاق خلع اور جدائی اور سماج میں اس کی کثرت یا قلت سے سماجی صحت کو ناپا جا سکتا ہے۔ اگر غور سے دیکھیں گے تو شادی سے متعلق خوشگواری یا چپقلش بھی انسان کی نفسیاتی صحت سے وابستہ ہے۔ فرد جتنا اپنی عزت نفس کا خیال رکھے گا اور اپنے بارے میں مثبت رائے رکھے گا دوسروں کے ساتھ اس کا رویہ بھی ہمیشہ مثبت ہی ہوگا۔ خاندانوں کی خوشگواری میں افراد خاندان کی ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی توازن اور عدم توازن اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
مسلمانوں کی سماجی صحت
جس سماج میں ایک دوسرے کا خیال رکھا جاتا ہو ، پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک ہوتا ہو ، غریبوں کی امداد کی جاتی ہو، بیوہ منحوس نہیں سمجھی جاتی ہو، یتیموں کی دستگیری ہوتی ہو، اور سماجی تعاون کی مختلف شکلیں زندہ ہوں اور ان کے لیے ادارے قائم ہوں تو وہ مضبوط سماج ہے اور اس میں پلنے والا ہر فرد سماجی صحت اور نفسیاتی صحت سے مالامال ہوتا ہے۔ اسلامی سماج اس کا آئینہ دار ہے۔ کسی زمانے میں اسلامی سماج سماجی صحت کے اعلی ترین مرتبے پر فائز تھا۔ آج بھی اپنے پڑوسی اقوام کے مقابلے میں مسلم سماج سماجی صحت کے اعتبار سے بہتر مقام رکھتا ہے۔ بھوپال یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی ایک اسٹڈی بتاتی ہے کہ مسلم سماج میں دیگر سماج کے مقابلے میں گھریلو تشدد نسبتاً کم ہے۔
مغربی سماج میں اکیلا پن
جس سماج میں انسان اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرتا ہو اس سماج کی سماجی صحت ابتر ہوتی ہے۔
آج کا مغربی سماج اس کا آئینہ دار ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ آسٹریلیا میں انسانوں کی اوسط عمر سو سال سے زیادہ ہے۔ بڑی عمر کےلوگ شہروں سے دور گاؤں قریوں اور جنگلوں میں چھوٹے چھوٹے گھر بناکر زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کی تمنا ہوتی ہے کہ کوئی ان سے بات چیت کرے۔ وہاں کی حکومت نے اس کا ایک مصنوعی انتظام کیا ہے۔ نوجوان مرد اور عورتوں کی خدمت باعوض معاوضہ لی جاتی ہے اور ان کی نوکری ہی اس کام کے لیے ہوتی ہے کہ وہ روزانہ مختلف علاقوں میں سفر کریں اور بزرگوں سے بات چیت کریں اور کچھ خوشگواری انہیں فراہم کریں۔
ٹائم بینک کیا ہے ؟
مغربی ممالک میں’’ٹائم بینک‘‘ کا ایک تصور پایا جاتا ہے۔ عموماً بینک کا لفظ سننے سے ہمارا ذہن معاشی لین دین کی طرف چلا جاتا ہے۔ معیشت میں ایک کرنسی ہوتی ہے جس کا لین دین بینکوں میں ہوا کرتا ہے۔اب آپ ایک ایسے بینک کا تصور کیجیے جس میں کوئی فرد اپنی زائد رقم نہیں بلکہ اپنا زائد وقت محفوظ کرتا ہے۔ ٹائم بینکنگ ایک دوسرے کے لیے مختلف خدمات کو بارٹر کرنے کا ایک نظام ہے جس میں لیبر ٹائم کو اکاؤنٹ کی اکائی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ لیبر ٹائم یونٹس ، ٹائم بینک میں کسی شخص کے اکاؤنٹ میں جمع کیے جاسکتے ہیں اور ٹائم بینک کے دیگر اراکین سے خدمات کے لیے چھڑا سکتے ہیں۔ ٹائم بینکنگ کو کمیونٹی کرنسی کی ایک شکل سمجھا جاسکتا ہے۔ تاہم، چونکہ اکاؤنٹ کی’’لیبر ٹائم یونٹس‘‘کو عام طور پر ٹائم بینک کی رکنیت سے باہر قبول نہیں کیا جاتا ہے، اور نہ ہی مخصوص لیبر سروسز کے علاوہ مارکیٹ میں تجارت کی جانے والی عام اشیا کے لیے، یہ رقم کی کوئی شکل نہیں بنتی ۔
ٹائم بینکنگ ماحول میں، لوگ لیبر ٹائم کریڈٹ حاصل کرتے ہیں جب وہ ٹائم بینک کے کسی دوسرے ممبر کو سروس فراہم کرتے ہیں۔ یعنی کسی فرد نے سماج کے کسی دوسرے کی ضرورت پوری کی اور اس کی مدد میں ایک گھنٹہ لگا دیا تو اس کے اکاؤنٹ میں ایک گھنٹے کا سرمایہ جمع ہو جاتا ہے۔ بطور مثال مان لیں کہ کسی فرد نے روزانہ ایک گھنٹہ انسانوں کی خدمت میں لگایا اور یہ بھی مان لیں کے سال میں اس نے دو سو پچاس دن ایسے کام کیے تو سال کے اختتام پر اس کے ٹائم بینک اکاؤنٹ میں 250 گھنٹوں کا سرمایہ جمع ہو جاتا ہے۔ بطور مثال یہ بھی سمجھ لیں کہ اس نے دس سال ایسا کیا تو اس کے اکاؤنٹ میں 2500 خدمات کے گھنٹے جمع ہوگئے۔ اس دوران اور بڑھاپے میں جب وہ دوسروں سے خدمات لے گا تو اس کے اکاؤنٹ سے ٹائم یونٹ ڈیبیٹ ہو جائے گی۔ وقت کے ہر گھنٹے کو عام طور پر یکساں اہمیت دی جاتی ہے، قطع نظر اس کے کہ کس قسم کی سروس فراہم کی گئی ہو۔ اصولی طورپر، کسی بھی قسم کی خدمت کو دوسرے کے لیے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، تجارت کی جانے والی خدمات اکثر سادہ، کم مارکیٹ ویلیو کاموں کے گرد گھومتی ہیں، جیسے بزرگوں کی دیکھ بھال، سماجی کام، اور گھر کی مرمت وغیرہ۔ اس کو ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں ۔ زید اور سارا ایک ٹائم بینک کے دو ممبرس ہیں۔ زید کو اس بات کی ضرورت ہے کہ کوئی اس کے گھر آئے اور اس کے گارڈن کی تراش خراش کر دے جس میں دو چار گھنٹے لگیں گے۔ سارا اس کے گھر گئی اور اس کے گارڈن کو مینٹین کر دیا تو زید کے ٹائم اکاؤنٹ سے سے چار گھنٹے کم ہو جائیں گے۔ سارا بغیر معاوضہ لیے چلی جائے گی اور اس کے اکاؤنٹ میں میں چار گھنٹے کریڈٹ ہو جائیں گے۔ کسی دن سارا کا کمپیوٹر خراب ہو گیا اور اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیسے اس کی سروس کی جائے تو اسی ٹائم بینک کا ایک فرد بکر اس کا یہ کام کر دے گا اور سارا کے اکاؤنٹ سے وہ تین چار گھنٹے کم ہو جائیں گے۔ اس طرح سماج میں ایک دوسرے کی چھوٹی موٹی ضروریات کے لئے لوگ خدمات انجام دیں گے اور اس کے بدلے میں انہیں جب ضرورت پڑے گی تو کوئی اور ان کی خدمت کردے گا۔یہ مغرب کے لادینی سماج میں سماجی صحت کو برقرار رکھنے کی ایک مصنوعی کوشش ہے اور آج بھی یہ تصور مغرب کے مختلف ممالک میں زندہ ہے۔
انسانی خدمت کا اسلامی تصور
اس کے برعکس اسلام اس کے ماننے والوں کو یہ سکھاتا ہے کہ وہ سماج کے لئے مفید بنیں اور یہ ان کے ایمان کا تقاضہ ہے۔
ترجمہ:’’مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی ، اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا ، یا فاقے کے دن کسی کو کھانا کھلانا۔ کسی قریبی یتیم ، یا خاک نشین مسکین کو پھر (اس کے ساتھ یہ کہ) آدمی ان لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور (خلق خدا پر) رحم کی تلقین کی۔ یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے ۔ ‘‘(90:11-18)
وہ اس نیک کام کا نہ بدلہ چاہتے ہیں نہ کسی سے شکریہ کی توقع رکھتےہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انہیں یقین دلایا ہے انسانوں کی خدمت خدا کی خوشنودی کے لئے انجام دی جانی چاہئے اور اس کا عوض انہیں جنت اور اس کی نعمتوں کی شکل میں ملیں گی۔
ترجمہ:’’اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں ، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ ، ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا۔ پس اللہ تعالیٰ انہیں اس دن کے شر سے بچا لے گا اور انہیں تازگی اور سرور بخشے گا ۔ اور ان کے صبر کے بدلے میں انہیں جنت اور ریشمی لباس عطا کرے گا۔ اس جنت میں ان کی مستقل رہائش ہوگی اور ریشمی لباس ہوگا جسے وہ پہنیں گے۔ ‘‘ (الانسان:8-12)