دورجدید میں علمی ترقی، انفارمیشن ٹکنالوجی اور شہری ترقی میں گذشتہ پندرہ بیس سال کے اندر دنیا میں بڑی سرعت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔آج دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی ان کے اندر اور ان کے اثرات و نتائج کے اندر ڈوبی ہوئی ہے۔ڈیجیٹل دنیا ہو یا بڑھتے پھیلتے شہر یاپھر مادی دنیا کی طرف دوڑ دھوپ، ان پر بہت زیادہ دلائل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جو کچھ ہورہا ہے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔خاص بات یہ ہے کہ ہماری نئی نسل ان سے سب سے زیادہ متاثر ہے اور اسی کے بارے میں ہمیں فکر کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ1995-1990 کے بعد جو نسل پیدا ہوئی جسے i-generation کہا جاتا ہے، اس سے تیس چالیس سال پہلے پیدا ہونے والی نسل کے مقابلے میں موجودہ نسل کی نفسیاتی صحت کا معاملہ تشویش ناک ہے۔
نئی نسل کی نفسیاتی صورتحال
جیسے جیسےیہ دنیاڈیجیٹلائزیشن، گلوبلائزیشن اور انفارمیشن کی طرف آگے بڑھتی جارہی ہے ویسے ویسے دنیا سے نفسیاتی صحت ختم ہوتی جارہی ہے۔ لوگ ڈپریشن کے شکار ہونے لگے ہیں اور نوجوانوں کے اندر مایوسی کی کیفیت در آئی ہے۔ والدین اکثر کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ بہت اچھا تھا، لیکن اچانک پتہ نہیں اسے کیا ہو گیا کہ وہ خاموش اور تنہائی پسند ہو گیا ہے، اچانک رونے لگتا ہے، اس پر مایوسی اور گھبراہٹ طاری ہوجاتی ہے۔یہ کیفیات 15 تا 20 برس کے بچوں کی ہے۔ یہ کیفیتیں بڑوں میں بھی پائی جاتی ہیں، لیکن چھوٹو ں میں یہ کیفیت زیادہ دیکھنے کو مل رہی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی مدد سے ورلڈ ہیپنیس رپورٹ World Happiness Report شائع ہوتی رہی ہے۔ اس کا مقصد دنیا میں خوشیوں کی صورت حال کا جائزہ لیناہے۔ اس کی حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ 2012 سے خوش باشی اور نفسیاتی صحت کے معیار میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔ 2016 اور2017 کے بعد نوجوانوں کے درمیان سروے بھی یہ بتاتا ہے کہ بارہویں جماعت تک کے طلبہ جن کی عمریں سترہ اٹھارہ برس ہوتی ہیں، بہت بڑی تعداد میں اس وقت نفسیاتی دباؤ،بے چینی اور افسردگی، تنہائی پسندی اوراکتاہٹ جیسے امراض کے شکار ہیں۔
ایسا کیوں؟
ماہرین اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اوسطاً یہ نوجوان 24 گھنٹوں میں بارہ چودہ گھنٹے جاگتے ہیں۔جس میں چھ گھنٹے انٹرنیٹ، سوشل میڈیا پر اور موبائل چیٹنگ میں گزارتے ہیں۔یعنی دن کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ وہ اس میں غرق رہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نفسیاتی صحت کے بگڑنے کی ایک بڑی وجہ گیجٹس کے اندر بے انتہا اور بلا ضرورت استغراق ہے۔
پہلے زمانے میں قوموں کی صورت حال کا جائزہ GDP سے لیا جاتا تھا، آج بھی لیا جاتا ہے لیکن اب ایک اورمعیارہے جس سے قوموں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔اسے Gross national happiness index (GNHI)کہا جاتا ہے۔ ایک ملک یا ایک قوم مجموعی طور پر کتنی خوش ہے ، اس کے افراد اور ان کی زندگی میں خوشی کاحصہ کتنا ہے اس کی بنیاد پراس کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ حال میں یہ رپورٹ 22 مارچ 2019 کو جاری ہوئی ہے جس میں 153 ممالک میں ہندوستان کا 140واں مقام ہے۔اس انڈیکس میں دنیا میں خوش رہنے والے لوگوں کی عادات و اطوار کا تفصیلی بیان ہے اور ان معیارات کا بھی پتہ چلتا ہے جن کی بنیاد پر یہ انڈیکس بنایا جاتا ہے۔ ان میں سب سے پہلامعیار افراد کا نفسیاتی طور پر خوش رہنا ہے۔ جب نفسیاتی صحت متاثر ہوتی ہے تو زندگی کے دیگر پہلو بھی شدید طور پر متاثر ہونے لگتے ہیں، جن کا ایک سرسری جائزہ اس مضمون میں لیا جا رہا ہے۔ نفسیاتی صحت کا معاملہ صحت کے دیگر اجزاء سے جڑا ہوا ہے۔
اسلام کی حساسیت
اسلام اور اس کی تعلیمات صحت کے بارے میں کتنی حساس ہیں، اللہ کے رسول ﷺ کی تعلیمات اس پر گواہ بھی ہیں اور رہنما بھی۔ ایک موقع پر رسولِ پاکؐ نے لوگوں سے فرمایا: ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو… پھر ان میں سے ایک تھی صحت کو بیماری سے پہلے۔‘‘ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا : ’’طاقتور مومن اللہ کو ضعیف اور کمزور کے مقابلے زیادہ محبوب ہے، حالانکہ دونوں میں خیر ہے۔‘‘
اسلام جہاں جسمانی صحت کی طرف متوجہ کرتا ہے وہیں روحانی صحت کا بھی خیال کرتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے جس طرح جسمانی بیماریوں اور ان کے علاج کے بارے میں ہدایات دیں وہیں روحانی امراض سے بھی باخبر کیا اور ان کا علاج بھی بتایا۔
اسلام صحت کو ایک جامع معنوں میں دیکھتا ہے۔ اگر جسم کا کوئی حصہ بیمار ہو تو پورا جسم بیمار ہوتا ہے، اگر خاندان کا کوئی فرد بیمار ہوتا ہے تو خاندان کے باقی افراد جذباتی اور نفسیاتی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ سماج میں کوئی بھی بیماری جلد یا بدیر تمام اراکین پر منفی اثرات ضرور مرتب کرتی ہے، جیسا کہ فی زمانہ کووڈ وباء سے متعلق ہمارا مشاہدہ ہے۔ مجموعی نقطہ نظر کا مطلب یہ بھی ہے کہ جسمانی، جذباتی، نفسیاتی اور روحانی صحت کو ایک ساتھ دیکھا جانا چاہیے۔ جو شخص روحانی طور پر بیمار ہے وہ دیر یا سویر جسمانی طور پر بھی بیمار ہو جائے گا۔ اس کے برعکس بھی صحیح ہے جب تک کہ ایمان بہت مضبوط نہ ہو۔
اسلام فرد اور معاشرے کی صحت درج ذیل چار زمروں میں رکھ کر دیکھتا ہے:
(1)جسمانی صحت (Physical Health)
(2)روحانی صحت (Spritual Health)
(3)نفسیاتی صحت (Psychological Health)
(4) سماجی صحت(Social Health)
اب ہم صحت کے ان چار پہلو پر مختصر گفتگو کریں گے۔
جسمانی صحت
انسان پر اللہ تعالی کے بے شمار انعامات و احسانات ہیں جسے کبھی انسان شمار نہیں کر سکتا۔جسم بھی اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے اور ایک امانت بھی۔ ہم اس سے صبح شام اتنا کام لیتے ہیں جتنا کسی غلام سے بھی نہیں لیتے۔ جسمانی صحت گرانقدر نعمت ہے۔ ایمان و ہدایت کے بعد صحت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔اس لیے اس نعمت کی حفاظت ہر انسان کا فرض ہے۔ اکثروبیشتر انسان اپنی بے احتیاطی اور لاپرواہی کی وجہ سے جسم کو بیمار کر دیتے ہیں اور جب وہ بیمار ہو جاتا ہے تب تندرستی اور صحت کی قدر کرتے ہیں۔
’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت۔‘
بہت سی بیماریاں انسان کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہوتی ہیں۔ خواہ مخواہ وہ خدا کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے۔ غذاؤں میں بد پرهیزی ، سونے جاگنے کا بے ہنگم نظام، بیڑی سگریٹ اور تمباکو کی مسرفانہ اور غیر صحت مند عادتیں اور نشہ کرنے کا خمیازہ جسم بھگتا ہے۔ بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کی حق تلفی نہ کی جائے۔
اسلام میں صحت مند زندگی بسر کرنے کی اور پاکی صفائی کا اہتمام کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔بسیار خوری کی مذمت کی گئی ہے اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی صحت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ خوراک پیٹ کے ایک تہائی مقدار میں کھائی جائے اور پیٹ بھرنا امراض کی جڑ ہے۔ضرورت کے مطابق کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر حد سے تجاوز کرنا اسلام پسند نہیں کرتا اس لئے قرآن میں کہا گیا:
ترجمہ:’’اے بنی آدم! ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو ‘ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الاعراف:31)
غسل اور وضو کی تعلیم اس لیے دی گئی ہے تاکہ جسم پاک صاف رہے ہے اور بار بار بار پاکی صفائی کا اہتمام کیا جاتا رہے۔
اسی طرح اسلام میں حلال و حرام کی تمیز سکھائی گئی ہے اس لیے بہت سی حرام چیزیں ایسی ہیں جن کے کھانے سے انسان کی صحت اور نفسیات پر برا اثر پڑتا ہے، جیسے مردار جانور، بہتا ہوا خون، شراب اور منشیات وغیرہ ۔ آج صحت مند ڈائٹ تجویز کرنا ایک فیشن ہے مگر قرآن نے مسلمانوں کو ڈائٹ کے سلسلے میں ہدایت کی ہے۔ قرآن کہتا ہے:
ترجمہ:’’کھائو ہمارا دیا ہوا پاک رزق اور اسے کھا کر سرکشی نہ کرو ، ورنہ تم پر میرا غضب ٹوٹ پڑے گا۔ اور جس پر میرا غضب ٹوٹا وہ پھر گر کر ہی رہا۔ ‘‘ (طٰہٰ:81)
جسمانی صحت کے یہ پہلو تو عام طور پر سمجھ میں آتے ہیں، مگر یہ بات بہت سوں کو اچھنبے میں ڈال دیتی ہے کہ انسان کے سوچنے کا اور اس کی نفسیات کا بھی اثر جسم پر پڑتا ہے اور وہ امراض کا شکار ہو جاتا ہے ۔ منفی سوچ لامحالہ جسم کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ماہرین نفسیات نے دنیا کو اس سے واقف کرایا ہے۔ سوچ انسان کا ایک ذہنی عمل ہے جس میں دماغ کے لاکھوں لاکھ خلیے اپنا کنکشن جوڑتے ہیں،اس کے ساتھ ساتھ بجلی کے شرارے پیدا ہوتے ہیں اور اسی مناسبت سے جسم کے اندر مضر کیمیکلز کا بہاؤ ہونے لگتا ہے۔ اچھی اور مثبت سوچ کے نتیجے میں جسم کے اندر خوشگوار کیمیکلز نکلتے ہیں جس سے طبیعت کے اندر خوشگواری پیدا ہوتی ہے۔ منفی سوچ مثلا غصہ، مایوسی، چڑچڑاہٹ، اضطراب،بے چینی، نفرت، تعصب، انتقام کے جذبات، احساس جرم اور اس طرح کی بہت سی منفی کیفیات کا دماغ کے اندر یہ اثر ہوتا ہے کہ منفی کیمیکلز جسم میں ریلیز ہوتے ہیں جو انسان کو دیر یا سویر بیمار کر دیتے ہیں۔ اس لیےضروری ہے کہ جسمانی صحت کے لئے انسان اپنے ذہن کو قابو میں رکھے۔ ایمان، توکل، صبر، محبت الٰہی اور انسانوں سے محبت کے نتیجے میں ذہن صحیح رخ پر کام کرنے لگتا ہے اور جسم کو خوش اور صحت مند رکھتا ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ انسان اپنے جسم کے بارے میں اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ وہ اس معاملے میں آزاد نہیں ہے کہ جسم کے ساتھ جو چاہے کرے، اسے نقصان پہنچائے مگر اللہ کے پاس بازپرس نہ ہو ۔ اس لیے اسلامی تعلیمات میں علاج سے زیادہ صحت و تندرستی کو بنائے رکھنے پر توجہ دی گئی ہے۔
روحانی صحت
ورلڈ ہیلتھ اسمبلی نے 1994 میں، جب سن 2000 تک کے لیے عالمی سطح کی اسٹریٹجی طے کر رہی تھی کہ سارے انسان صحت مند رہیں، اس میں انہوں نے روحانی صحت کی اہمیت کو تسلیم کیا تھا۔ انہوں نے روحانی صحت کی تعریف یوں کی:
’’ایک ایسا واقعہ جو فطرت میں مادی نہیں ہے لیکن اس کا تعلق خیالات، عقائد، اقدار اور اخلاقیات کے دائرے سے ہے جو انسانوں کے ذہنوں اور ضمیر میں پیدا ہوئے ہیں۔‘‘
مزید یہ بھی کہا گیا کہ’’(صحت کے سلسلے میں روحانیت کے رول کے ) پرکشش خیالات نے نہ صرف صحت کے لیے عالمی سطح پر صحت کے اداروں کی کارروائی کی حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ صحت کو بھی روحانیت نے مالا مال کیا ہے، جیسا کہ ڈبلیو ایچ او کے آئین میں بیان کیا گیا ہے اور روحانی جہت کے اضافے کو تسلیم کیا ہے۔‘‘
ماہر نفسیات کارل یونگ نے اپنی کتاب’’جدید انسان روح کی تلاش میں‘‘ میں نفسیاتی صحت اور دماغی خوش حالی و بہبودی سے لطف اندوز ہونے کے لئے مذہب کی اہمیت پر زور دیا ہے ۔ اس نے بیان کیا کہ زمین کے تمام مہذب ممالک کے لوگوں نے اس سے مشورہ کیا تھا اور زندگی کے دوسرے نصف میں ان کے تمام مریضوں میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس کی زندگی میں مذہبی نقطہ نظر تلاش کرنے کا مسئلہ نہ ہو۔ اس نے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مذہبی رہنماؤں اور سائیکو تھراپسٹ کے لیے اس درجہ کے روحانی کام کو پورا کرنے کے لیے ایک ٹیم میں شامل ہونے کا وقت آگیا ہے۔
ٹی اے باشر اپنے پیپر’’اسلام اور دماغی صحت‘‘ میں لکھتےہیں کہ’’کہا جاتا ہے کہ دنیا کی 10 فیصد آبادی اعصابی بگاڑ اور دماغی بیماریوں میں اس حد تک مبتلا ہے کہ وہ شراب اور منشیات کے عادی ہوچکی ہے۔ اسی طرح نہ جانے کتنے ایسے ہیں جنہوں نے زندگی میں غلط عادتیں پیدا کر لی ہیں، وہ بھی نفسیاتی امراض کا شکار ہیں، ان کی بھی بڑی تعداد ہے۔‘‘ ان بیماریوں کے علاج میں نفسیاتی تدابیر کے علاوہ مذہبی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت پر آج دنیا غور کر رہی ہے ۔
روحانی صحت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانے اور اس سے اپنا تعلق مضبوط بنائے۔ انسان کا اپنے رب سے جس درجے کا تعلق ہوگا اسی درجے کی روحانی صحت اسے دستیاب ہوگی۔ اللہ کی طرف رجوع کرتے رہنے سے ایمان کی کیفیت تندرست ہوتی ہے۔ جو شخص روحانی طور پر صحت مند ہوتا ہے وہ خدا سے راز و نیاز کرتا رہتا ہے اور وہ اس کے لئے روحانی غذا کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں تکالیف، مصیبتیں اور پریشانیاں آتی رہتی ہیں اور یہ بندے کو خدا کی طرف رجوع کرنے میں مدد دیتی ہیں، بلکہ اسی غرض سے انسان آزمائشوں میں مبتلا ہوتا ہے۔ ایک سچے مومن کی علامت یہ ہے کہ وہ دنیا کی ناکامیوں پر مایوس نہیں ہوتا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اسی کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ انسان اپنی سی کوشش کرنے کے بعد نتائج اسی پر چھوڑ دیتا ہے۔ حالات پر انسان کا کنٹرول نہیں ہے اس کا طریقہ یہ ہو کہ دباؤ میں آنے کے بجائے وہ خدا کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کر دے۔ اس کا یہ رویہ روحانی طور پر اسے خدا سے قریب اور اس پر کامل اعتماد کرنے والا بنا دیتا ہے ۔ انسان جب یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ خدا سے وابستہ ہو چکا ہے، وہ خدا جس کے پاس ساری کائنات کا اقتدار ہے اور بے انتہا قدرت رکھنے والا ہے اور وہ اپنے بندوں پر انتہائی رحیم بھی ہے، تو یہ احساس اور شعور اس کے اندر امید پیدا کر دیتا ہے۔ انسان اپنے اطراف میں ظلم اور ناانصافی کو دیکھتا ہے تو کبھی مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے، مگر ایمان اسے یہ باور کراتا ہے خدا عدل و انصاف کرنے والا ہے۔ اگر یہاں ناانصافی نظر آتی ہے تو ایک دن ضرور آئے گا جہاں سب کو انصاف ملے گا۔ جو چیزیں یہاں ناخوشگوار نظر آتی ہیں وہ بھی خدا کی مشیت کے مطابق ہیں اور اس کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی حکمت کارفرما ہوتی ہے۔جس کا ادراک اسے دیر یا سویر آخر کار ہو ہی جاتا ہے۔ انسان صرف اپنی حد تک کوشش کا مکلف ہے۔ جو خدا کی راہ میں ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو خدا اس کی طرف دس قدم آگے بڑھاتا ہے۔ بندہ جب خدا کی طرف چل کر آتا ہے تو خدا اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے اور جو خدا سے وابستہ ہوجاتا ہے وہ خدا کی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے اور خدا کے ہاتھ سے کام کرنے لگتا ہے۔ غرض انسان اس کی راہ میں جو کوشش بھی کرتا ہے خدا اس کے لیے راستے پیدا کرتا ہے۔
وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا۰ۭ وَاِنَّ اللہَ لَمَعَ الْمُحْسِـنِيْنَ۶۹ۧ (العنکبوت:69)
ترجمہ: اور جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں، ہم ان کو اپنی راہیں دکھاتے ہیں اور یقینا اللہ تعالیٰ بہترین طریقے سے کام کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔‘‘ (جاری)
یہ بھی پڑھیں!
https://hijabislami.in/12311/
https://hijabislami.in/6864/
https://hijabislami.in/1217/