نفسیاتی کیفیت کا شکار نوجوان

سمیہ رمضان ترجمہ: محمد ظہیرالدین بھٹّی

مسجد کے درسِ قرآن میں شرکت کرنے والی بہنوں میں سے کچھ بہت سرگرم تھیں۔ ایک بہن تو بہت ہنس مکھ تھیں۔ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتیں اور مسکرا مسکرا کر باتیں کرتیں۔ باتیں اتنی شیریں و دلچسپ جیسے منہ سے پھول چھڑ رہے ہوں۔ ایک روز دیکھا تو مسکراہٹ غائب، افسردہ و پژمردہ۔ نہ باتوں میں مٹھاس، نہ ملنے ملانے میں تپاک۔ اگلے درس میں آئیں تو کئی جسمانی عوارض کی شکایت کرنے لگیں۔ میں چاہتی تھی کہ تخلیے میں ان سے ملوں کہ شاید ان کے کسی کام آؤں اور کوئی مدد کرسکوں۔ مجھے تخلیے کے لیے زیادہ زحمت نہ کرنا پڑی۔ جلد ہی اس کا موقع مل گیا۔ وہ بھی گویا ملاقات کی منتظر اور اس کے لیے تیار تھیں میرے پوچھنے پر بولیں:

’’واللہ، میں بہت دکھی ہوں، پریشان ہوں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے تند و تیز آندھی مجھے اٹھا کر گھما رہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کہاں ہوں۔ میری زندگی سلیقے و قرینے سے چل رہی تھی۔ میں، الحمدللہ اپنے بچوں کی تربیت میں مصروف تھی۔ کتاب و سنت کی راہ نمائی میں، بچوں کی تربیت ہورہی تھی۔ میں نے خاوند کا انتخاب اپنی مرضی سے کیا تھا۔ وہ ایک صالح، باعمل، صاحب علم شخص ہیں۔ وہ علم و حکمت اور خوف خدا کے سلسلے میں میرے معاون ہیں۔ میں جیسے خاوند کی متمنی تھی، وہ ایسے ہی نکلے، بلکہ اس سے بھی بہتر۔

’’میرے بچے مجھ سے زیادہ دیندار نکلے، بچے بھی اور بچیاں بھی۔ میرا ایک بیٹا مسجد میں جاکر باجماعت نمازپڑھتا تھا۔ عمدہ اخلاق کا مالک تھا۔ شریف و متین، کم گو، مگر اچانک نہ جانے اسے کیا ہوا، کہ اس کی خاموشی ختم ہوگئی۔ اب وہ بجلی کی طرح کڑکتا ہے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ چلاَّ چلاَّ کر کرخت لہجے میں بات کرتا ہے۔ حتی کہ وہ اپنے والد کے ساتھ بھی بدتمیزی کرلیتا ہے۔ نمازیں پڑھتا ہے مگر فرض کی حد تک۔ سنت اور نفل ترک کردیے۔ پہلے وہ گھر بھر میں ہر دل عزیز تھا۔ اب سب اس سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ بات چیت کرنے سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔

’’وہ اب ہر وقت اپنے کمرے میں بیٹھا رہتا ہے۔ کہیں ادھر ادھر نہیں جاتا۔ اگر میں اصرار کرکے اسے کمرے سے نکلنے پر مجبور کروں یا بہن بھائیوں کے ساتھ آکر بیٹھنے پر زور دوں تو اس کا رویہ ایسا وحشت انگیز اور تکلیف دہ ہوتا ہے کہ مجھے ندامت ہونے لگتی ہے۔ سوچتی ہوں: کاش میں نے اسے کمرے کی تنہائی سے باہر نکلنے پر مجبورنہ کیا ہوتا۔ وہ نفسیاتی مسئلہ بن چکا ہے۔ اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا ہے۔ اپنے ارد گرد کے تمام افراد کو ظالم سمجھتا ہے۔ حال یہ ہے کہ میں جب بھی اللہ کی رضا کی خاطر کوئی کام کرنے لگتی ہوں تو یہ میرے راستے میں حائل ہوجاتا ہے۔ آج کل میرا ذہن ہر وقت اسی کے بارے میں سوچتا ہے۔ میں اس کے بارے میں سوچ سوچ کر تھک چکی ہوں۔ وہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ میں نے اس کی پرورش، نگہداشت و پرداخت میں اپنی بہترین صلاحیتیں استعمال کی ہیں۔ میں نے اس کی خاطر کتنی راتیں جاگ کر گزاری تھیں۔ مگر میری ساری محنت اور تگ و دو رائیگاں گئی مختصر یہ کہ اس کے بہن بھائی ناراض ہیں۔ کوئی اس کے ساتھ بات چیت کرنے کا بھی روادار نہیں۔ آپ میری حالت کا خود اندازہ کیجیے، میں جو لوگوں میں صلح کراتی رہتی تھی، دوسرے لوگوں کے معاملات کی درستی کے لیے کوشاں رہا کرتی تھی، اب اپنے گھر کی سدھار سے قاصر ہوں۔ میرا لخت جگر میری بات نہیں مانتا۔‘‘

اس بہن کی یہ دردناک داستان سن کر میں نے کہا: ’’میری عزیزہ! یہ صرف تنہا آپ کا مسئلہ نہیں ہے۔ بہت سے دیندار گھرانے اسی نوعیت کے مسائل اور نفسیاتی خلفشار سے گزررہے ہیں۔ ہر پابندِ شریعت گھرانے میں کوئی ایسا لڑکا یا لڑکی بگڑ کر گھر والوں کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے۔ اس نوجوان یا اس دوشیزہ کے خیالات، اقوال اور اعمال سب سے مختلف ہوتے ہیں۔ زیادہ تر ایسا عمر کے اس حصے میں ہوتا ہے جسے اوائل بلوغت کا دور کہا جاتا ہے یعنی جب لڑکپن اور نوجوانی کا سنگم ہوتا ہے۔ عمر کے اس نازک حصے میں نوجوان بے پناہ صلاحیتوںسے بھرا ہوتا ہے۔ اس عمر میں اس کے وجود میں قوت دماکا خیز ہوجاتی ہے۔ وہ کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ رہا ہوتا ہے۔ نوجوان اپنے اندر آزادی اور قوت کا ادراک کرتا ہے۔ عنفوانِ شباب کے اس دور میں ’’نہیں‘‘ کا لفظ اس کی خصوصیت بن جاتا ہے۔

’’قرآنِ کریم نے بہت سے نوجوانوں کے واقعات و حالات قیامت تک کے انسانوں کی راہنمائی کے لیے محفوظ کردیے جائیں۔ ان نوجوانوں کی قوتیں باطل کے انکار میں نقطہ عروج پر تھیں۔ حضرت ابراہیم، حضرت یوسف، اصحاب کہف اور کھائیوں والے (اصحاب الاخدود) سب نوجوان ہی تھی۔ انھوں نے باطل نظام کے خلاف حریت کا قلم بلند کیا۔ انھوں نے ’’نہیں‘‘ استعمال کیا لیکن باطل کے خلاف۔ ان افراد نے اپنے اقوال و اعمال سے باطل کی نفی کی اور حق کا اثبات کیا۔ اس کے برعکس حضرت نوحؑ کے بیٹے نے حق سے سرتابی کی، گویا حق کے خلاف ’’نہیں‘‘ کہا اور سرِ تسلیم خم کرنے سے انکار کردیا۔

’’بات صرف سمجھنے کی ہے۔ بہت سے والدین گھبراجاتے ہیں۔ وہ عمر کے اس دور کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ حیران ہوتے ہیں کہ بچوں نے سرتابی، سرکشی، مخالفت اور مزاحمت کا رویہ اپنا کیوں اپنالیا ہے؟ وہ اپنی اولاد کی ’’نہیں‘‘ سے بے تاب ہوجاتے ہیں۔ والدین اپنی اولاد کو نرمی یا سختی سے سمجھاتے ہیں۔ بچے بے رخی اور عدم التفات سے پیش آتے ہیں۔ زیادہ تر والدین کی کوششیں مفید ہونے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔‘‘

پریشان بہن بول پڑیں ’’واللہ، ہمارے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ آپ کے بیان سے تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ گویا آپ ہمارے ساتھ ساتھ تھیں۔‘‘

میں نے کہا: ’’آپ کے بچے کا کیس اتنا بگڑ چکا ہے کہ اب اس کی اصلاح کرنا ہمارے بس میں نہیں رہا۔ اب تو اس کا ایک ہی حل ہے کہ اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ اس کا بتایا ہوا حل استعمال کیا جائے۔ اللہ نے ہماری راہ نمائی کردی ہے، ہمارا فرض ہے کہ ہم اس راہ نما کا ہاتھ تھامیں اور اپنے تمام مسائل حل کرلیں۔‘‘

بہن: ’’میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ میں راہ نما کا ہاتھ کبھی نہ چھوڑوں گی۔ آپ مجھے صرف وہ آیت بتادیجیے جن پر مجھے عمل کرنا ہے، جس کے مطابق مجھے چلنا ہے۔‘‘

میں: ’’ارشادِ الٰہی ہے:

ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا۔ (الطلاق ۶۵:۲)

جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا۔ جیسا کہ آپ دیکھ رہی ہیں اللہ کے راستے کے سوا، سب راستے بند ہوچکے ہیں۔ آپ کے سامنے صرف اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کا راستہ کھلا ہے۔ معاف کرنا، میرا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ آپ اللہ سے ڈرتی نہیں، بلکہ مطلب یہ ہے ……‘‘

اس نے میری بات کاٹ دی اور بولی: ’’میں خوب سمجھتی ہوں جو کچھ آپ کہنا چاہتی ہیں۔ منیںہر حالت میں تقویٰ کا دامن پکڑے رہوں گی۔ کسی بھی حال میں تقویٰ ترک نہیں کروں گی۔ تقویٰ، میرے احوال، میرے افعال، میرے اقوال بلکہ میری فکر میں ہمیشہ رہے گا۔‘‘

اپنے بیٹے کے بارے میں پریشان خاتون نے تقویٰ اختیار کرنے کا عہد و پیمان کرنے کے بعد اجازت طلب کی۔ خدا حافظ کہنے کے لیے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا۔ اس وقت اس کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے۔ ’’ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا۔ میرے رب نے سچ فرمایا ہے۔ اللہ کے وعدہ کے سچا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اب مجھے اللہ کے وعدے کی صداقت کا اپنے اوپرتجربہ کرنا ہے۔‘‘

میں نے اس پریشان حال بہن کو اللہ حافظ کہا، اس کے لیے دعا کی۔ صدق دل سے اس کی کامیابی و کامرانی کی دعا۔ اب جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ ضرور اس آیت کو دہراتی، مجھ سے دعا کی درخواست کرتی، بلکہ ہر ملنے والی سے یہ کہتی ہے کہ وہ اس کی ثابت قدمی کے لیے دعا کرے۔ پہلے تو اس کی سوچ کا محور اس کا لڑکا تھا۔ اپنے بیٹے کے اقوال و اعمال۔ وہ لوگوں سے کہتی ہے کہ اس کے بیٹے کے لیے دعا کریں کہ اللہ اسے ہدایت دے۔ مگر اب اس کی فکر کا مرکز یہ ہوتا کہ وہ کیسے تقویٰ اختیار کرے۔ بالآخر وہ تقویٰ اختیار کرکے اپنے بیٹے کو راہِ راست پر لانے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کی داستان اسی بہن سے سنیے۔ مسجد میں حلقہ درسِ قرآن میں اس نے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا:

’’میری عزیز بہنو! میں نے اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اپنے تمام امور و معاملات کو تقویٰ کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے بہت کچھ کیا۔ میں اپنے بیٹے کو شیطان کی گرفت سے بچانا چاہتی تھی۔ اس لیے فیصلہ کیا کہ نمازِ فجر سے پہلے تہجد کیوں نہ پڑھ لیا کروں۔ ابتدا میں فجر سے پہلے دو رکعت نماز تہجد پڑھ لیتی۔ پھر بتدریج آٹھ رکعت تک پڑھنے لگی۔ نماز تہجد ادا کرنے سے ایسا سکون ملا جیسے مجھے دنیا کی جنت اور اس کے خزانے مل گئے ہوں۔ میں نے فجر کی نماز میں طویل قرأت کرنے کا تہیہ کیا تو مجھے اس کے لیے قرآن کریم کی مزید سورتیں حفظ کرنا پڑیں۔ حفظ کرنے سے مجھے بے پناہ سکون واطمینان ملا۔ اس کا اندازہ صرف اسی کو ہوسکتا ہے جو قرآن کریم کی آیات حفظ کرتا ہو۔ اس کے ساتھ ہی یہ جذبہ پیدا ہوا کہ لوگوں کے ساتھ میرے معاملات صاف ہوں۔ خاص طور پر اپنی اولاد کے ساتھ میرا رویہ درست اور پرسکون ہو۔

میری یہ بھی کوشش رہی کہ اپنے پروردگار کو خوش کرنے کے لیے اپنے خاوند کو خوش کروں۔ میں خاوند کی خدمت و اطاعت کرتے وقت یہ احساس کرتی کہ میرا مقصد رب کی رضا حاصل کرنا ہے۔ مجھے بہت اطمینان حاصل ہوتا۔ یقین تھا کہ میرا پروردگار مجھے اس کا اجر عطا فرمائے گا۔ میں جو کام بھی کرتی، خلوصِ نیت سے کرتی۔ اس کے ساتھ ساتھ میں کثرت سے اپنے بیٹے کے بدل جانے کی دعا کرتی رہتی تھی۔

اس خلوص سے عبادت، معاملات اور دعائیں کرنے کے نتیجے میں میرا روحانی مورال بہت بلند ہوگیا۔ کبھی تو مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے میں فضا کی پہنائیوں میں محو پرواز ہوں، بلندیوں میں اڑ رہی ہوں۔ میں نے پڑوسنوں اور سہیلیوں کے ساتھ اپنے تعلقات پر بھی نظر ثانی کی۔ اسی طرح میں نے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بھی تعلقات بحال کیے۔ کیونکہ مجھے یہ حدیث یاد آگئی:

انی خلقت الرحم واشتققت لہ اسما من اسمی فمن وصلہ وصلتہ ومن قطعہ قطعتہ (حدیث قدسی)

’’میں نے رحم پیدا کیا اور اپنے نام سے اس کا نام اخذ کرکے رکھا۔ جس نے صلہ رحمی کی میں اسے ملوں گا اور جس نے صلہ رحمی کو قطع کیا میں بھی اسے قطع کردوں گا۔‘‘

مجھے یہ حدیث یاد آئی تو میں نے فوراً کپڑے تبدیل کیے، اپنے ایک چچا کے گھر چل پڑی۔ ان کے فلیٹ پر پہنچ کر میں نے خلاف معمول لفٹ استعمال نہ کی، بلکہ سیڑھیوں کے ذریعے اوپر چڑھنے لگی۔ ہر سیڑھی پر پاؤں رکھتے ہوئے یہ دعا کرتی تھی کہ یا اللہ، میں تیرے حکم کی تعمیل میں قریبی رشتہ داروں سے تعلقات جوڑ رہی ہوں، تو بھی مجھے اپنے ساتھ جوڑ، میں سیڑھیوں سے اتروں تو تعلقات بحال ہوں۔ دعائیں کرتے کرتے میں اپنے چچا کے گھر کے دروازے پر جاپہنچی۔ جب دروازہ کھلا تو مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے اللہ تعالیٰ نے میرے لیے رحمت کا دروزاہ کھول دیا ہے۔ میں ہنستی مسکراتی سلام کرتی ان کے پاس پہنچی۔ واپس آئی تو گھر آتے ہوئے مجھے مکمل سکون و اطمینان حاصل تھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے سینے سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہے۔

’’جب بھی میں اللہ کی رضا کی خاطر کوئی نیک کام کرتی ہوں تو اپنے رب کا قرب محسوس کرتی ہوں اور مجھے اتنا سکون ملتا ہے جیسے میں نے ایک ہزار رکعت نوافل ادا کیے ہوں۔‘‘

’’مجھے اس تجربے نے اس قابل کردیا ہے کہ میں تقلیدی وراثتی ایمان اور حقیقی یقین و ایمان کے مابین فرق محسوس کرتی ہوں۔ مجھے اس آیت کریمہ: ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً۔ پر عمل کرنے کا خوب خوب موقع ملا ہے۔ جلد ہی میرے حالات بدل گئے، میرا دکھ ختم ہوگیا۔ غم خوشی میں بدل گیا۔

میں نے اپنے بیٹے کے ساتھ طرزِ عمل میں صبر و برداشت سے کاملیا۔ میں نے اپنے بیٹے کے لیے بہت دعائیں کیں۔ میں سجدے میں اس کے لیے بہت دعائیں کرتی تھی۔ جب بھی نماز پڑھتی، تلاوت کرتی، ذکر کرتی تو اپنے بیٹے کے لیے دعائیں کرتی رہی۔اس میں کئی سال بیت گئے۔ حتی کہ اللہ اللہ الکریم نے میرا بیٹا، مجھے واپس کردیا۔ اس نے اپنی تنہائی ختم کردی۔ گوشہ نشینی ترک کردی۔ بدتمیزی چھوڑ دی۔ اس نے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ جب اپنا گستاخانہ رویہ ترک کردیا تو گھر واوں نے بھی اسے از سرنوقبول کرلیا۔‘‘

جب یہ بہن اپنے گستاخ بیٹے کی بے راہ روی ترک کرنے اور دوبارہ محبت و اطاعت کا رویہ اپنا لینے کی ایمان افروز داستان سنا رہی تھی تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ مجلسِ درسِ قرآن کی تمام شرکا کی آنکھیں بھی اشک بار تھیں۔ تمام حاضرین نے اسے مبارک دی۔

دیکھیے ایک آیت کریمہ پر صبر و استقلال سے عمل کرنے کا نتیجہ کیا خوش گوار نکلا۔ اگر ہم اپنی مشکلات کا حل قرآن کریم کے ذریعے کریں تو ہماری تمام مشکلات، ہمارے تمام مسائل حل ہوجائیں۔ قرآن کریم کے بابرکت ہونے کا یہی مطلب ہے کہ اگر اس کی آیات کے احکام و نواہی پر، آیات کی حکمت و دانش پر عمل کیا جائے، اس کے بیان کردہ قصص سے عبرت حاصل کی جائے تو اس سے انفرادی و اجتماعی دونوں سطح پر برکات و سعادات ملتی ہیں۔ مسلم معاشرہ اپنی منزل جنت کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں