نقاب یا برقع

علامہ یوسف القرضاوی

سوال : ہمارے یہاں ایک صاحب جو دین داری میں معتبر مانے جاتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ موجودہ زمانے کا کالا برقع بدعت ہے۔ عہد رسالت میں مسلم خواتین چادریں اوڑھتی تھیں۔ براہِ کرم بتائیں کہ موجودہ برقعے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب : حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں رائج شدہ نقاب یا برقع کو بدعت کہنا اور یہ دعویٰ کرنا کہ اسلامی شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، علمی اعتبار سے اس دعویٰ میں کوئی سچائی نہیں ہے بلکہ حقائق کی غلط عکاسی ہے۔

دراصل نقاب کا استعمال بدن کے ساتھ ساتھ چہرہ اور ہاتھ چھپانے کے لیے ہوتا ہے۔ ورنہ پردہ بغیر نقاب کے بھی ہوسکتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پردہ میں چہرہ اور ہاتھ چھپانا ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ صحابۂ کرام کے دور ہی سے اس بات پر اختلاف رہا ہے کہ چہرہ اور ہاتھ چھپانا بھی ضروری ہے یا نہیں۔ فقہائے کرام کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ چہرے اور ہاتھ کو چھپانا ضروری نہیں ہے۔

اسی طرح علمائے کرام مندرجہ ذیل آیت میں لفظ ’’جلابیب‘‘ کے سلسلے میں اختلاف رکھتے ہیں کہ اس سے کون سا لباس مراد ہے۔ وہ آیت کریمہ یہ ہے:

یٰـٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِاَّزْوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلاَبِیْبِھِنَّط ذٰلِکَ اَدْنٰیٓ اَنْ یُّعْرَفْنَ فـَـلاَ یُؤْذَیْنَط وَکاَنَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا¡

(الاحزاب:۹۵)

’’اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر جلابیب ڈال لیا کریں۔ اس طرح ان کی پہچان واضح رہے گی اور لوگ انھیں تنگ نہیں کریں گے۔ اور اللہ مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘

بعض علمائے کرام کے نزدیک جلابیب وہ لباس ہے، جو بدن کے ساتھ چہرے اور ہاتھ کو بھی چھپائے اور اکثریت کی رائے یہ ہے کہ جلابیب کے دائرے میں چہرے اور ہاتھ کو چھپانا نہیں آتا۔ میرا موقف یہ ہے کہ پردے میں چہرہ اور ہاتھ چھپانا ضروری نہیں ہے۔ یہی موقف عرب و عجم کے جمہور علماء کا ہے۔ البتہ سعودی عرب اور ہندستان و پاکستان کے علماء اس موقف سے اختلاف رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پردے میں چہرہ اور ہاتھ چھپانا لازمی ہے۔ سعودی عرب کے علماء میں سر فہرست مرحوم شیخ عبد اللہ بن باز ہیں اور ہندوپاک میں سرفہرست مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’پردہ‘‘ میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ چہرہ کا چھپانا ضروری ہے۔سلف صالحین میں بھی ایسے قابل قدر علماء کرام موجود تھے جو پردہ میں چہرہ کاچھپانا ضروری تصور کرتے تھے کیوں کہ عورت کا حسن اس کے چہرے سے مترشح ہوتا ہے اور چہرہ کھلا رکھنا باعث فتنہ ہوسکتا ہے۔ اس موقف کے پیش نظر نقاب کا استعمال پہلے بھی ہوتا تھا اور آج بھی ہوتا ہے۔

چوں کہ چہرہ چھپانا یا اس کا کھلا رکھنا ایک اختلافی مسئلہ ہے، اس لیے ہر صاحب رائے کو پورا حق ہے کہ وہ اپنے موقف کے مطابق عمل کرے۔ اگر کسی کا موقف یہ ہے کہ چہرہ چھپانا لازمی ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے موقف کے مطابق عمل کرے اور کسی دوسرے شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اسے غلط یا گمراہ یا بدعت قرار دے۔

جو عورتیں چہرہ چھپانے کے حق میں ہیں اور سمجھتی ہیں کہ نقاب لگا کر ہی پردہ کا اہتمام ہوسکتا ہے تو انھیں اس رائے کے اختیار اور اس کے مطابق عمل کرنے کی پوری آزادی ہے۔ اگر ہم انھیں اس آزادی سے محروم کردیں گے تو شریعت کی نظر میں ایک غلط اقدام ہوگا۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر کوئی عورت چہرہ چھپانا ضروری نہیں سمجھتی ہے اس کے باوجود محض احتیاطاً اپنا چہرہ چھپاتی ہے اور نقاب لگاتی ہے تو ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ ہم اسے اس عمل سے منع کردیں۔

حیرت ہے ان علماء پر جو نقاب کو بدعت قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں جب کہ سلف صالحین کے زمانے سے ہی اس نقاب کا رواج ہے اور عورتیں شریعت کا حکم سمجھ کر یہ نقاب لگاتی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ نقاب کی آڑ میں نقاب لگانے والیوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور نقاب کی مخالفت کی جاتی ہے۔ حالاں کہ نقاب بہ ہرحال ایک خالص اسلامی لباس ہے۔ اور ان عورتوں کو کچھ نہیں کہا جاتا ہے جو تنگ اورمختصر کپڑے پہن کر اور چہرے پر ہزار قسم کے میک اَپ کرکے کالجوں، یونیورسٹیوں اور بازاروں میں دندناتی پھرتی ہیں۔ اس غیر اسلامی لباس کی انھیں ہمارے معاشرے میں پوری آزادی ہے اور کوئی بھی ان پر تنقید کرنے کی جرأت نہیں کرتا ہے۔ اور اگر جرأت کرے تو دقیانوسی، کٹر پنتھی اور نہ جانے کیا کیا سمجھا جاتا ہے۔ حالاں کہ اس طرح کے غیر شرعی لباس زیب تن کرنے والیوں پر حدیث میں لعنت کی گئی ہے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں