ایک مسلمان کی اصل پونجی اور اس کا سرمایہ ایمان اور عملِ صالح ہے کیونکہ انہی کے ذریعہ اسے اللہ کی رضا اور آخرت کی سدا بہار زندگی ملتی ہے۔ اس پونجی کی حفاظت ہر مسلمان مرد اور عورت کا فرض ہے۔ اس سرمایہ کی حفاظت ہوتی ہے خلوص سے اور دیانت داری سے لیکن اگر ایمان اور عمل میں دکھاوا آجائے تو خلوص ختم ہوجاتا ہے اور ریاء پیدا ہوجاتی ہے۔ ریاء وہ برائی ہے جو مومن مردوں اور عورتوں کی عمر بھر کی کمائی کو برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔
حدیث شریف میںہے کہ ’’تھوڑی سی ریاء بھی شرک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آدمی اپنے عمل کو لوگوں میں بڑائی حاصل کرنے کی فکر سے ظاہر کرتا ہے تو اسے اللہ کی رضا منظور نہیںاور اگر اللہ کی رضا منظور بھی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اسے بندوں کی رضا بھی مقصود ہے اور یہ ریا (یعنی شرک) ہے۔ دین کے عالموں کا بڑا رتبہ ہے مگر حدیث میں ہے کہ کتنے ہی عالم لوگ منھ کے بل گھسیٹ کرجہنم میں ڈال دیے جائیں گے کیونکہ وہ اپنے علم کو لوگوں میں بڑائی حاصل کرنے کے لیے ظاہر کرتے اور دکھاتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگ انھیں عالم کہیں، شیخ الاسلام کہیں، امام المسلمین کہیں، مناظر اسلام کہیں اور مبلغ اعظم کہہ کر پکاریں۔ ان کاحصولِ علم یا خدمتِ دین دکھاوے کے لیے تھا، اس لیے انھیں جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ دراصل یہ حدیث ہمارے آج کے ان علماء و مفتیان کرام، شیوخ اسلام حضرات کے لیے جو اپنے ناموں کے ساتھ تفصیلی القاب و آداب لگوانے کی کوشش کرتے ہیں، ایک تازیانہ ہے۔ ترمذی میں ہے اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے حضرت ابوہریرہؓ بے ہوش ہوگئے تھے۔ تاریخ میں آتا ہے کہ جب یہ حدیث حضرت امیر معاویہؓ کو سنائی گئی تو وہ سرِ دربار روتے روتے بے حال ہوگئے تھے۔ ہمارے لیے اور ہمارے مردوں اور عورتوں سب کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے رہن سہن، ایمان و عمل اورعلم و تفقہ پر ذرا بھی مغرور نہ ہوں۔ اپنے سارے کاموں کو ریاء سے پاک رکھیں اور یاد رکھیں کہ ذرا سی ریاء بھی آدمی کی ساری پونجی کو برباد کرسکتی ہے اور ان کے سارے اعمال کو قیامت کے دن بے وزن کرسکتی ہے، اس لیے اگر ہم ایمان والے ہیں۔ اگر ہمیں آخرت کی فکرہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اصل کمال دین وایمان اور اس پر عمل کرنا نہیں ہے بلکہ اسے اعمال کو اللہ کے لیے خالص کرنے میں ہے۔ اصل کمال نیکیوں کی حفاظت میں ہے اوریہ حفاظت ہر قسم کی بناوٹ اور نمود و نمائش سے بچ کر رہنے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔