قرآن شریف میں ارشاد ربانی ہے:
’’یقینا ایمان والوںنے فلاح حاصل کرلی ، جو اپنی نمازوں میں خشوع کرتے ہیںجو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں، جواپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے۔ یقینایہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں۔ جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں، یہی جنت کے وارث ہیں، جو فردوس کے وارث ہوںگے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ (المؤمنون)
ان آیات میں کامیابی کی کنجی جن صفات کو بتایا گیا ہے ان میں نماز کے دوران خشوع و خضوع کا ذکر سب سے پہلے آیا ہے۔
خشوع و خضوع کے معنی ہیں کسی کے آگے جبینِ نیاز کو خم کردینا، کسی کے آگے جھک جانا اور عاجزی کا اعتراف و اظہار کرنا۔ اس کیفیت کا تعلق باطن و ظاہر دونوں سے ہونا چاہیے۔ دلی کیفیت کا اثر جسم سے بھی ظاہرہو۔ دل کا خشوع یہ ہے کہ وہ اپنے رب سے اپنے گناہوں کے بارے میں ڈرے۔ جسم کا خشوع یہ ہے کہ اس دلی کیفیت کے اثرات جسم سے عیاں ہورہے ہوں۔ مثلاً نگاہیں نیچے کی طرف جھکی ہوئی ہوں، آواز بلند نہ ہو، کھڑے ہونے کی ہیئت تو ایسی ہو کہ معلوم ہوجائے کہ وہ کسی نہایت باعظمت شخصیت کے سامنے کھڑا ہے۔
باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے ایمان والو! رکوع و سجدے کرتے رہو، اور اپنے پروردگار کی عبادت میں لگے رہو اور نیک کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔‘‘ (الحج: ۷۷)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی کامیابی کے لیے رکوع اور سجدہ کی واضح طور پرنشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر نمازکو ٹھیک طور سے ادا کروگے اور دوسرے نیک اعمال بھی کرتے رہوگے تو کامیابی تم کو مل سکتی ہے۔
نماز اسی وقت کامیابی کا ذریعہ بن سکتی ہے جب وہ پورے شعور کے ساتھ ادا کی جائے۔ غیر شعوری نماز اور مقصد سے بے پروا ہوکر پڑھی جانے والی نماز کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ قرآن مجید ایسے نمازیوں کو تباہی و ہلاکت کے انجام کی خبر دیتا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے:
فویل للمصلّینo الذین ہم عن صلوٰتہم ساہونo (الماعون)
’’ان نمازیوں کے لیے تباہی ہے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں۔‘‘
ان آیات میں ان نمازیوں کے لیے جو غفلت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، جو صرف چند ظاہری چیزوں کی پابندی کرنے اور چند کلمات کو بغیر سمجھے بوجھے دوہرالینے کو کافی سمجھتے ہیں، ان نمازیوں کو جو نماز میں کھڑے ضرور ہوتے ہیں مگر ان کے دل اللہ کے خشوع و خضوع سے خالی ہیں۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا کہ منافق والی نماز یہ ہے کہ وہ بے پروائی سے بیٹھا آفتاب کو دیکھتا رہے۔ یہا ںتک کہ جب وہ زرد ہوگیا ہو اور اس کے غروب کا وقت قریب آگیا ہو، تو نماز کو کھڑا ہو اور چڑیا کی طرح چار چونچیں مار کے ختم کردے اور اللہ کا ذکر بھی اس میں بہت تھوڑا کیا ہو۔‘‘
عقل مند آدمی کو سب سے پہلے فکر اپنی عاقبت کی ہوتی ہے اس لیے وہ ایسے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں، جن سے بعد میں سختی و ذلت کا سامنا کرنا پڑے، بلکہ ہمیشہ اس عمل سے رغبت رکھتے ہیں۔ جو موجب راحت و برکت ہو۔ قرونِ اولیٰ کے لوگ اس گُر کو سمجھتے تھے۔ اور اس لیے نماز کی دل و جان سے حفاظت کرتے تھے اور انتہائی خشوع و خضوع سے کام لیتے تھے۔ دراصل خشوع و خضوع کی یہ کیفیت ہی نماز کی روح ہے، اسی سے قلب پر اثر ہوتا ہے اور یہی وہ نماز ہے جو انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوکر اسے برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔
حضرت علیؓ کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ جب نماز کا وقت آتا تو ان کے چہرہ کا رنگ بدل جاتا، بدن پر کپکپی آجاتی۔ کسی نے پوچھا تو ارشاد فرمایا کہ اس امانت کے ادا کرنے کا وقت ہے، جس کو آسمان و زمین نہ اٹھا سکے، پہاڑ جس سے عاجز آگئے ہیں میں نہیںسمجھتا کہ اس کو پورا کرسکوں گا یا نہیں۔
حضرت حاتم بلخی سے پوچھا گیا کہ آپ نماز کس طرح پڑھتے ہیں فرمایا۔ نماز کے وقت میں اس طرح کھڑا ہوتا ہوں کہ گویا کعبہ میرے سامنے ہے، اور میرا پاؤں پل صراط پر ہے۔ داہنی طرف جنت اور بائیں طرف دوزخ ہے موت کا فرشتہ میرے سر پر ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ میری آخری نماز ہے کہ شاید اس کے بعد کوئی اور نماز میری نہ ہو اور میرے دل کی حالت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔