شوہر کو عظیم بنانا ہر بیوی کا فرض اور مقصدِ حیات ہے۔ اگر عظیم ہستیوں کی سوانح عمری کا مطالعہ کیا جائے تو ہر مرد کے پیچھے ایک عورت نظر آئے گی۔ قانون اور شریعت کی نگاہوں میں تم بیوی بن چکیں، مگر یہ تو ابتداء ہے، منزلِ مقصود تو ابھی بہت دور ہے۔
ہر نئے ماحول میں ابتدائی چند ہفتے بڑے نازک ہوتے ہیں۔ ان ہی چند ہفتوں میں سسرال کے لوگ تمہیں جان پائیں گے۔ یاد رکھو صرف محنت اور خدمت کا فی نہیںہے، گھر کے تمام لوگوں بشمول شوہر کے دل کو جیتنے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ابتدائی دنوں میں تمہیں جائزہ لینا ہے کہ شوہر کی ضروریات کیا ہیں اور تمہیں کس طرح آگے بڑھ کر یہ کام سنبھالنا ہے۔ حسن، صحت، علم، سلیقہ اور جوانی اپنی اپنی جگہ بے حد اہم ہیں۔ لیکن اگر وقت پر ان کا صحیح مصرف نہ ہو تو پھر یہ سب خوبیاں بے کار ہوجاتی ہیں۔ اور شوہر باہر دلچسپیاں ڈھونڈنے لگتا ہے۔ بعض اَن پڑھ اورکم شکل عورتیں اپنی عقل استعمال کرکے گھر کو مٹھی میں کرلیتی ہیں۔ شوہر ان پر جان نثار کرتا ہے اور وہ گھر اور دل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ بیوی ہونے کے بعد تمہیں ایک خاص مرد کو اپنانے کا موقع ملا ہے۔ اس موقع کو ہاتھ سے مت جانے دو۔ تم اب اس کی قریب ترین ساتھی ہو۔ اس کی خلوت و جلوت میں شامل ہو۔ تم کو اس کی پوری زندگی کا جائزہ لینا ہے۔ اس نے کس ماحول میں پرورش پائی۔ گھر میں لوگوں کا سلوک اس کے ساتھ، اس کا سلوک گھر والوں کے ساتھ کیسا رہا، زمانے نے اس کی کیسی تراش خراش کی، کن چیزوں اور کن لوگوں میں اسے دلچسپی ہے، کون سے لوگ اسے پسند نہیں ہیں اور کیوں؟ ذرا اس کے دل میں ڈوب کر، اس کے دماغ میں داخل ہوکر اس کے زاویۂ نگاہ کی تحقیق کرو۔ اس کی دلچسپی، اس کی خلش، اس کی تڑپ، اس کی امنگیں کیا ہیں، اس کا جائزہ لو۔ اور سب سے بڑھ کر اس کی خوراک اور اس کی پوشاک پر توجہ دو۔ اس کے مسائل کیا ہیں،ان کا حل تلاش کرنے میں اس کے ساتھ شامل ہوجاؤ۔
وہ کیا تھا اور کیا ہے؟ آئندہ پانچ سال میں وہ کیا بننا چاہتا ہے؟؛ ایک عقلمند بیوی کا کام ہے کہ ان باتوں کا بغور اور بالکل صحیح جائزہ لے۔ وہ کیا تھا اور کیا ہے یہ دونوں باتیں تمہارے اختیار سے باہر ہیں۔ لیکن وہ کیا بننا چاہتا ہے؟ یہاں قدم قدم پر اسے تمہاری ضرورت ہے۔ تم جتنی شدت سے اس کے ساتھ خلوص برتو گی، شوہر کی طرف سے محبت اور قربانی اتنی ہی شدت سے ہوگی۔ وہ کیا ہونا چاہتا ہے؟ اس کا جواب بڑی حد تک اس سوال میں مضمر ہے کہ وہ کیا تھا بلکہ کیا نہیں تھا۔ تمہیں اس فرق کو سمجھنے میں کسی قدر محنت کرنی پڑے گی کہ وہ زندگی میںکیا حاصل کرنا چاہتا تھا، مگر نہیں کرسکا۔ آخر کس چیز کی کمی رہ گئی اور کیوں؟ ظاہر ہے کہ مستقبل میں وہ اپنی اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگر وہ مفلس تھا تو اب امیر بننا چاہتا ہے۔ اگر وہ محبت اور خدمت سے محروم تھا تو اب محبت اور خدمت چاہتا ہے۔ اگر وہ بے گھر تھا تو اب اپنا گھربنانا چاہتا ہے۔ خدا کرے کہ تمہاری بدولت اسے یہ سب چیزیں حاصل ہوجائیں اور اگر تمہاری مدد سے اسے کچھ حاصل ہوگیا تو پھر اس میں نئی نئی صلاحیتیں بیدار ہوجائیں گی۔ اس کی شخصیت میں ایک نیا نکھار آجائے گا۔ اس کی ہمت، محنت اور سوجھ بوجھ میں طاقت اور شدت پیدا ہوجائے گی، اور پھر یہی موزوں ترین وقت ہے کہ اس کوکسی عظیم مقصد کی طرف لگادیا جائے۔
ہر آج تمہاری زندگی کا پہلا دن ہے۔ ہر آج چوبیس گھنٹوں کے بعد کل بن جائے گا۔ اس لیے ہر آج میں وہ خوبصورتی شامل کردو جو خوشگوار ماضی کی یاد بن جائے۔ ہر صبح کی اذان پکارتی ہے کہ نئی زندگی کا آغاز ہورہا ہے۔ نئی نئی امیدیں کروٹیں لے رہی ہیں۔ نئے نئے فرائض تمہیں بلا رہے ہیں، اٹھو بیدار ہوجاؤ، اپنے اپنے کام میں لگ جاؤ اور وقت کے فانی سرمائے کو لافانی سرمائے میں تبدیل کرلو۔ اس سفرِ حیات میں برے دن بھی آئیں گے اور اچھے دن بھی۔ عقل مند بیوی وہ ہے جو خلوص اور خدمت کے ساتھ ہنستا مسکراتا چہرہ رکھے، خصوصاً جبکہ غم کے بادل چھائے ہوئے ہوں۔
…٭…
وہ دور گزرگیا جب دو ہستیاں میاں بیوی بن جانے کے بعد ساری زندگی کے لیے بے فکر ہوجاتی تھیں، اب تو ازدواجی زندگی طرح طرح کے موقع بے موقع مسائل اور مہمات سے پر ہے۔ مسائل اگر نہ ہوتے تو علم و عقل، تدبیر و عمل کی ضرورت نہ پڑتی۔ شوہر قینچی کا دوسراپھل ہے۔ دونوں الگ الگ سمت پر کام کرتے ہیں، لیکن دونوں ایک مضبوط کیل کے ذریعے آپس میں ایک تعلق اور تنظیم سے وابستہ ہیں، اور جب کوئی چیز ان کے درمیان آجاتی ہے تو اسے کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔
بیوی کا پہلا کام ہے شوہر کے نقطۂ نظر کو سمجھنا۔ ضروری نہیں کہ دونوں کا نقطۂ نظر ایک ہی ہو۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک کی پسند دوسرے کی ناپسند ہو اور دوسرے کی پسند پہلے کی ناپسند۔
گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینتِ چمن
اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
چنانچہ بحث و تکرار، ضد اور ہٹ دھرمی سے جہاں تک ممکن ہو، اجتناب برتنا چاہیے۔ اگر شوہر کسی جائز چیز کی خواہش کرتا ہے اور وہ چیز مہیا کرنا مشکل نہیں ہے تو اسے دے دینی چاہیے، لیکن اس میں طنز، احسان یا کسی تلخی کی آمیزش نہ ہو، ورنہ سب کیا دھرا اکارت جائے گا۔ اور جس طرح عطا کرنے کا طریقہ اچھا اور برا ہوسکتا ہے اسی طرح عطا کرنے کا وقت اور سلیقہ بھی۔ بہترین عطیہ وہ ہے جو مطالبہ کیے جانے سے پہلے ہی تحفے یا انعام کے طور پر پیش کردیا جائے۔
جو دیں سوال پہ ان کی سند نہیں اے شاد
وہی کریم ہیں جو بے سوال دیتے ہیں
ضروری نہیں کہ تحفہ قیمتی ہو۔ صرف ایک خوش نما پھول بھی بہترین تحفہ ہوسکتا ہے۔ تحفہ انوکھا ہو اور جس کو دیا جائے اس کی طبعیت اور پسند کے مطابق۔ اس میں کچھ ایسی خاص بات ہو جو تحفہ پانے والے پر تمہارے خلوص اور محبت کا بھر پور اظہار ہو۔ تحفے میں ایک بھر پور مسکراہٹ فریقِ ثانی کا دل جیت سکتی ہے۔ اگر اس کے پسندیدہ موضوع کو گفتگو کا ذریعہ بنایا جائے اور وہ باتیں چھیڑی جائیں، جن باتوں میں اسے خاص دلچسپی ہو توکبھی کبھی ایسا کرنا بہت اچھا نتیجہ لاتا ہے۔ مندرجہ بالا نسخہ صرف شوہر کے لیے نہیں بلکہ اُن تمام لوگوں کے لیے مفید ہے جن سے اچھے تعلقات قائم رکھنا مقصود ہو۔
شوہر کو، اس کے گھر والوں اور رشتہ داروں کو تحفے تحائف دیا کرو۔ تحائف کالین دین دلوں کو مضبوط جوڑنے کا بہترین نسخہ ہے۔ زندگی لین دین کا نام ہے، خواہ شوق و ذوق کی چیز ہو یا آرام و آسائش کی رقم ہو، اظہار محبت ہو یا دوسرے کی دلچسپیوں میں شرکت۔ ہر مرد بلکہ ہر فرد ایک انفرادی مزاج رکھتا ہے۔ اس کی پسند و ناپسند، اس کی ضرورتیں اور حاجتیں الگ الگ ہیں۔ بس ان کا خیال کرکے حالات کو مناسب رخ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ غلط ہوں تو انہیں رفتہ رفتہ ایک نئے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ محبت اور وفاداری کے بعد شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے جس اہم ترین چیز کی طلب گار ہے، وہ عزت افزائی ہے۔ دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو محبت اور قربانی کا جذبہ تو رکھتے ہیں لیکن اپنی احمقانہ باتوں اور حرکتوں سے دوسرے کی دل آزاری ضرور کرتے ہیں۔ وہ اپنی نادانی سے فریقِ ثانی کو اپنا دشمن بنالیتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کے سامنے خواہ وہ بچے ہوں یا بڑے، کوئی ایسا تلخ جملے نہیں بولنا چاہیے جو ایک لمحے میں کسی کو گھائل کردے۔ ہوش و گوش کا تقاضا ہے کہ اختلافی امور پر بحث ہمیشہ خلوت میں ہی ہونی چاہیے۔ بیوی ایک شعر ہے، ایک موسیقی ہے، ایک انتہائی لطیف شے ہے۔ جب وہ بولتی ہے تو منہ سے پھول جھڑتے ہیں، لیکن افسوس کہ وہ اپنی حماقتوں میں اس پھول کو آگ بنالیتی ہے اور اپنا ہی دامن راکھ کرلیتی ہے۔
اصل گر یہ ہے کہ تلخ گولی کو شکر میں لپیٹ کر دیا جائے تاکہ مریض کے حلق سے خوش خوش اترسکے۔ بہ الفاظِ دیگر بحث، تیز مزاجی اور تلخ کلامی محبت کی قینچی بن سکتی ہے۔ اگرچہ تنقید کبھی کبھی اتنا ہی اچھا اثر دکھاتی ہے جتنا دوا کے طور پر زہر۔ لیکن اس کا استعمال بہت ہی کم کرنا چاہیے۔ اپنی تنقید کو تجویز، مشورہ، مذاق اور مثال وغیرہ میں ڈھال دو۔