نجمی ناشتہ سے فارغ ہوکر اپنے کرائے کے مکان سے نکلا اور معمول کے مطابق اس راستے پر چلنے لگا جو سیدھا اس بازار کی طرف جاتا تھا، جس میں ملک کے مشہور ادبی رسائل کے دفتر تھے۔ نجمیؔ ان دفتروں میں کئی اور بے روزگاروں کی طرح بہت دفعہ اپنی قسمت آزماچکا تھا لیکن شاید ایک ممتاز ناول نویس یا افسانہ نگار بننا صرف اس کے خوابوں تک ہی محدود تھا۔
نجمی کا اصل نام نجم الثاقب تھا، لیکن بیچارے کی اپنی زندگی کا ستارہ اس وقت سے گردش میں تھا جب سے وہ بارہویں کے امتحان میں فیل ہوا تھا۔ کچھ حالات کی تنگی اور کچھ دوستوں سے تحفے میں ملی آوارہ طبیعت۔ پڑھائی سے ایسا بد دل ہوا کہ اپنا مقدر کہیں اور آزمانے کو مستقل شہر میں پڑاؤ ڈال لیا۔ محنت مشقت کے کاموں سے جان جاتی تھی، کرتا تو کیا کرتا، آخر ہر طرف سے تھک ہار کر اس نے ان تاریخی لوگوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا جنہیں نہ تو محنت مزدوری سے کوئی رغبت تھی اور نہ تعلیم کے میدان ہی میں کوئی تیر مارا تھا۔
’’آخر ایسے لوگوں نے کیا کیا؟‘‘ نجمی نے محققانہ انداز میں سوچا۔
یکایک نجمی کو اپنے مقدر کے سیاہ آسمان پر اپنی قسمت کے ستارے کی مدھم سی ٹمٹماتی ہوئی کرن نظر آئی اور اس کے منہ سے بے اختیا رنکلا ’’شاعر … ادیب… افسانہ نگار وغیرہ۔‘‘
تھوڑا بہت ادبی ذوق نجمیؔ کو بھی وراثت میں ملا تھا اور ویسے بھی یار دوستوں نے اس کے دماغ میں یہ بات بٹھادی تھی کہ اس کے اندر ایک بہت بڑی ادبی شخصیت پوشیدہ ہے جو کسی وقت بھی ابھر کر سامنے آسکتی ہے۔ جب سے اس پر یہ بھوت سوار ہوا تھا اترنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ اسی لیے وہ ناشروں اور ایڈیٹروں کے مسلسل ٹال مٹول کرنے کے باوجود ان کے دفتروں کے روزانہ چکر ضرور لگاتا۔
آج کا دن بھی انہی دنوں جیسا تھا۔ شہر قریب ہونے کی وجہ سے نجمی نے رکشہ کی ضرورت کو سرے سے جھٹک دیاتھا، ویسے بھی اس کے نزدیک رکشہ یا بس پر پانچ روپیہ ضائع کرنے کے بجائے کسی متوسط درجے کے ہوٹل میں چائے کی ایک پیالی پینا بدرجہا بہتر تھا جو اس کے خیال میں اس کے ادبی ذوق کو مزید اجاگر کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی تھی۔
نجمیؔ شہر کی تیز رفتار زندگی اور اپنے ناکام مسودوں پر غور کرتا ہوا تیز تیز قدموں کے ساتھ فٹ پاتھ پر چلا جارہا تھا کہ اچانک ایک ہاتھ اس کے راستے میں حائل ہوگیا۔ نجمی نے ایک معزز شہری کی طرح اس ہاتھ سے اپنا دامن چھڑانے کی بہت کوشش کی لیکن بے سود۔ فقیر تو نجمی نے بہت سے دیکھے تھے مگر یہ بھکارن اسے ان تمام گداگروں سے الگ تھلگ نظر آئی۔ بظاہر وہ ایک پرکشش لڑکی تھی جسے ہر بھیک دینے والا دوسری نظر ضرور دیکھتا۔ نجمی بھی اس کے بے حجاب حسن کو دیکھ کر ٹھٹھک سا گیا اور اس کا ہاتھ خود بخود اس کی جیب میں چلا گیا۔ نجانے کب نجمی نے دس روپے کا اکلوتا نوٹ اپنی جیب سے نکال کر اس بھکارن کے ہاتھ میں تھما دیا۔ بھکارن کی بے کس آنکھوں کی تاریکی میں اظہارِ تشکر کا ایک ستارہ جھلملایا۔
نجمی ایک مرتبہ پھر اپنے راستے پر گامزن تھا لیکن اب اس کے غوروخوض کا مرکز شہر کی بے لگام تیزی یا ناکام مسودے نہیں بلکہ یہ بھکارن تھی، جس سے ابھی ابھی اسے پالا پڑا تھا۔
’’میں نے آج اتنی دریا دلی کا ثبوت کیسے دے دیا …؟ کیا اس بھکارن جیسے خود رو پھول ساری زندگی فٹ پاتھ پر چلنے والے قدموں کے مسلنے کے لیے ہیں؟‘‘ نجمی کے اندر کے ادبی اور ہمدرد فنکار نے سوچا۔
ان سب باتوں کے متعلق سوچتے سوچتے نجمی کے دل میں امید کی ایک چنگاری جاگی اور اسے اپنی قسمت کے ستارے کی گردش میں کچھ توازن محسوس ہونے لگا۔ اس نے شہر جانے کے بجائے اپنے قدموں کا رخ اسی بھکارن کی طرف کردیا جو اپنا ہاتھ اسی حالت میں ہوا میں پھیلائے بیٹھی تھی۔ نجمی نے سوچا کہ اس کے اندر کا اصل فنکار جاگ اٹھا ہے۔ اس نے اس بھکارن کو اپنے ناول کا مرکزی اور حقیقی کردار بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ تبھی تو وہ مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے دوبارہ وہاں آپہنچا تھا۔
’’کون ہے تو؟… کیا نام ہے تیرا؟… کیا تیرے ماں باپ زندہ ہیں؟… اتنے سارے سوالات نجمی نے ایک دم کردیے لیکن بھکارن کی زبان پر تو شاید تالے پڑے ہوئے تھے۔ اسے نہ بولنا تھانہ بولی۔ نجمی کے متواتر چلّانے کے باوجود وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ آخر قریب سے ایک گمبھیر اور بوڑھی مردانہ آواز آئی۔ ’’یہ نہیں بولے گی بابو!… کیوں اپنا بکھت (وقت) جائع (ضائع) کررہا ہے۔ یہ نہیں بولے گی… بولے گی بھی کیسے … یہ بچاری تو گونگی ہے۔‘‘ نجمی نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ بوڑھا فقیر قریب ہی اپنا ڈیرہ جمائے غور سے اسے دیکھ رہا ہے اور نجانے کب سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ نجمی نے اپنے تجسس کے سرکش گھوڑے کی لگام کھینچتے ہوئے پوچھا: ’’کون ہے یہ لڑکی بابا؟… اس کا کیا نام ہے؟ لیکن نجمی کے سوال کا جواب دینے کے بجائے بڈھا فقیر ایک اور آدمی کی طرف متوجہ ہوچکا تھا جو اسے بھیک دیے بغیر جارہا تھا۔آخر دو گھنٹے تک اس بڈھے سے دماغ کھپانے کے بعد ا س نتیجے پرپہنچا کہ جب تک اس لالچی کی مٹھی نہ گرم کی جائے وہ رام نہ ہوگا۔ نجمی نے بقیہ تمام دن رسالوں کے دفتروں میں جانے کے بجائے شہر میں آوارہ گردی کرتے ہوئے گزار دیا لیکن اس کی سوچیں اور خیالات بھکارن پر سے نہ ہٹے۔تمام رات نجمی نے کروٹیں بدلتے ہوئے کاٹی۔ آخر خدا خدا کرکے صبح ہوئی اور اس نے سب سے پہلے بنک کا رخ کیا جہاں سے اس نے اپنے محدود اکاؤنٹ سے کچھ پیسے نکالے اور سیدھا فٹ پاتھ کے اس حصہ پر پہنچا جو فقیروں کی ملکیت تھا۔ وہ خاموشی سے بوڑھے کے سامنے بیٹھ گیا اور بیس روپئے کا نوٹ اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے پوچھا: ’’بابا یہ بھکارن کون ہے؟‘‘ تب اس نے بھکارن کی پُر درد داستان سنانا شروع کی۔
’’بابو کھدا (خدا) اس عمر میں جھوٹ نہ بلوائے۔ اس لڑکی کا نام نوری ہے۔ اس کے ماں باپ کھاتے پیتے لوگ تھے۔‘‘ بوڑھے نے ایک سرد آہ بھری اور بات جاری رکھتے ہوئے بولا: ’’قدرت بھی کبھی کبھی کیسے کیسے رنگ دکھاتی ہے۔‘‘ بوڑھے نے فلسفیانہ انداز میں برسوں کی بڑھی ہوئی الجھی داڑھی میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’پھر کیا جی! والدین ایک حادثے میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اسی دن یہ معصوم بچی بولنے کی طاقت سے محروم ہوگئی اور اس پر سکتہ ہوگیا۔ نوری کو اب رشتہ داروں سمیت کوئی بھی اپنانے کو تیار نہ تھا۔ ایک زندہ لاش کا بوجھ اپنے کاندھوں پر کون اٹھاتا ہے بابو۔‘‘ اس نے سوالیہ انداز میں نجمی کی طرف دیکھا۔
’’آگے کیا ہوا؟‘‘ نجمی نے آس پاس گزرنے والوں کی پروا کیے بغیر پوچھا۔
’’ہونا کیا تھا بابو! ایک رات اس کا سگا چچا ایک ہجار میں اسے ہماری برادری میں بیچ گیا۔ پر اب تو نوری کئی ہجار (ہزار) کماچکی ہے۔‘‘
نجمی کو وہاں بیٹھے کافی دیر ہوچکی تھی اور اب اس کے پاس اپنے ناول کے لیے اچھاخاصا مواد جمع ہوچکا تھا۔ نجمی نے اس ناول پر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرڈالیں۔ اور دو ماہ کی لگاتار کوشش کے بعد ایڈیٹر کے پاس جا پہنچا۔ ایڈیٹر نے مسودہ منظور کرلیا اور یوں نجمی کی قسمت کا ستارہ نیک شگون میں داخل ہوگیا۔ ناول جس کا نام نوری تھا چھپا۔ اور ایسا چھپا کہ چھپتا ہی چلا گیا۔ ملک کی ایک مشہور پبلشنگ کمپنی نے اس کے حقوق حاصل کرنے کے لیے نجمی کو پچاس ہزار کا معاوضہ دینے کی پیش کش کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے نجمی کے دن پھر گئے اور نوری نامی ناول پر اخبارات میں تنقیدی تبصرے چھپنے لگے۔ لوگوں نے اس ناول کے سچے مرکزی کردار کو شہر کے فٹ پاتھوں پر تلاش کرنا شروع کردیا۔ جو اب تک ایک گمنام زندگی گزار رہا تھا۔ لوگ اس بے زبان چہرے کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھے جس کی بے زبانی کی کمی اس کی بولتی آنکھوں نے پوری کردی تھی۔
ایک دن نجمی اسی فٹ پاتھ پر سے گزر رہا تھا کہ اسے یوں محسوس ہوا جیسے فٹ پاتھ کی کوئی اینٹ اکھڑ گئی ہو۔ نوری اور بوڑھا وہاں نہ تھے۔ البتہ ان کی جگہ کچھ نئے گدا گر بیٹھے تھے جن کے مطابق نوری اور بڈھا یہ ڈیرہ چھوڑ کر کسی اور ٹھکانے پر چلے گئے تھے۔ ایک عرصے تک نجمی نے نوری کو نہ دیکھا جو اب اس کے ناول کا جیتا جاگتا کردار بن چکی تھی۔ ’’نوری‘‘ ناول کے بعد نجمی کے تمام ناول ہاتھوں ہاتھ بکے اور اس کا شمار ملک کے مشہور ناول نگاروں میں ہونے لگا جو اپنے ناولوں کے کردار کسی طلسماتی ماحول میں نہیں اسی معاشرے میں تلاش کرتے ہیں۔
نجمی نے اپنی سہولت کے لیے اب ایک پرانی کار بھی خرید لی تھی۔ ایک دن شہر سے آتے ہوئے اس میں کچھ خرابی ہوگئی۔ ورکشاپ سے باہر نکلتے ہوئے نجمی نے کچھ شور سنا۔ ورکشاپ کے پاس ہی کچھ لوگ جمع تھے۔ نجمی نے دو آدمیوں کو ایک طرف کرکے اندر جھانکا تو اسے اپنی آنکھوں اور کانوں پر اعتبار نہ آیا۔
ایک اخباری رپورٹر ایک اپاہج بھکارن کی تصویر ایک تصویری مقابلے کے لیے کھینچنا چاہتا تھا۔ بھکارن ایک ٹانگ سے معذور تھی اور کہہ رہی تھی ’’دیکھ بابو! پہلے ڈیرے پر بھی تیرے جیسے ایک بابو نے میرے پہ کہانی کیا لکھی کہ لوگوں نے ہمارا وہاں بیٹھنا حرام کردیا۔ اب مر مر کے یہ ٹھکانہ تلاش کیا ہے۔ کیا تو اب ہمیں یہاں سے بھی چلتا کرنا چاہتا ہے۔‘‘
’’چل بنوالے پھوٹو (فوٹو) بیٹی … ارے یہ صرف پھوٹو ہے کہانی نہیں ہے۔‘‘ ایک طرف سے گمبھیر اور بوڑھی مردانہ آواز آئی۔ لڑکی خاموش ہوگئی۔ نجمی نے کیمرہ مین کی طرف دیکھا جو ایک ہاتھ میں سو روپئے کا نوٹ تھامے بڑے اطمینان سے دوبارہ کیمرہ فوکس کرنے کی کوشش کررہا تھا۔