نور زارا

شاہدہ شاہین

کھٹ کھٹ۔۔۔۔۔۔۔۔بیساکھی کی گونج دار آواز کے سنائی دیتے ہی اچانک ساری محفل پرایک سوگوار سناٹا چھا گیا۔ سب نے اپنی نگاہیں صدر دروازے پر مرکوز کر دیں۔ ایک سرخ و سپید رنگت وخوش گوار نین نقش والا نوجوان ، جس کی پیٹھ پر ایک بڑا سا کوبڑ تھا،ٹھگنا قد ،دائیں طرف بغل میں بیساکھی لئے، بایاں پیرسوکھا اور سکڑاہوا زمین سے ذرا اوپر معلق لٹکتاہوا، گلے میں پھولوں کی مالا پہنے ہوئے اندر داخل ہو ا۔وہ پہلے اپنا دایاں پیر زمین پررکھتااور پھربغل میں دبی بیساکھی پراپنے جسم کا پوراوزن ڈالتے ہوئے ذرا سا اُچھل کرآگے بڑھتا۔ حاظرینِ محفل سانس روکے ہوئے یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔ بالآخرشہ نشیں کے قریب پہنچ کر اُس نے اپنے ساتھی کے بازوؤںکا سہارا لیتے ہوئے بغل سے بیساکھی نکال کر کنارے رکھ دی اور مسند پر بیٹھ گیا جہاں قاضی صاحب اُس کے انتظار میں نکاح کا دفتر کھولے بیٹھے ہوئے تھے۔حالاںکہ حاضرینِ محفل کی نگاہوں میں جذبہٗ ترحم تھا ، پر نوجوان کے چہرے اور حرکات و سکنات سے اِنتہائی خود اعتمادی جھلک رہی تھی۔

میںدم بخود سی ،ہال سے متصل کمرے کے دروازے کی جھری سے لگی کھڑی ساری کارروائی دیکھنے میں منہمک تھی۔۔۔۔۔۔۔یہ نور زارا کا دولہا تھاجو اُسے بیاہ کرلے جا نے آیا تھا۔پیچھے صوفوں پر براجمان مہمان عورتیںمتاسفانہ انداز میں خیال آرائیاں کئے جا رہی تھیں۔اُن کی باتیں سن سن کر میرا دم گھٹ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ پھر نہ جانے مجھے کیا ہوا کہ گلا بھر آیا اور دہاڑیں مار کر رونے کو جی چاہنے لگا۔ بے تحاشہ پلٹ کر وہاں سے بھاگ نکلی کہ کہیں سچ مچ میری چیخیں نہ نکل جائیں!کمرے کے اندرجاکر دروازہ بند کر لیااوربستر پرگر گئی ۔پھر تکیئے میں منہ دے کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

نور زاراکو میں بچپن سے دیکھتی آئی ہوں۔۔۔۔۔۔گاڑھی سانولی رنگت ،تنگ پیشانی ،موٹی موٹی بھنویں، ستاروں کی طرح چمکتی ہوئی چھوٹی بٹن جیسی آنکھیں ، چپٹی ناک، چوڑا دہانہ،درمیانہ قداور درازچوٹی والی نور زارا سے میں بے حد مانوس تھی۔اُسی کی نگرانی میںتو پل کربڑی ہوئی تھی ۔ اپنی امّی کی زبانی سنا تھاکہ تقریباََ اٹھارہ بیس سال پہلے ایک دن بعد نمازِ فجر ہمارے داداجان کو ایک چار سالہ بچی مسجد کی سیڑھیوںپراکیلی بیٹھی ہوئی ملی جو پر تجسس لوگوں کے استفسار پرکچھ بولے بغیر خالی خالی آنکھوں سے سب کے چہرے تکے جا رہی تھی۔ اُس دبلی پتلی کمزور سی ہستی پر دادا جان کو بے طرح رحم آگیا۔ اُسے پیٹ بھر کھانا کھلانے اور اُس کے لواحقین تک پہنچانے کی ذمّہ داری اپنے سر لیتے ہوئے اُسے گھر لے آئے ۔ اُس نے بڑی بے صبری کے ساتھ ناشتہ کیاتھااورپھر اونگھنے لگی۔ تھوی دیر بعد وہیں لڑھک کر گہری نیند سو گئی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ کافی دیر سے بھوکی تھی اور گذشتہ رات سوئی بھی نہیں تھی۔ وہ دوپہر کے قریب جاگی۔ہر سوال کے جواب میںاُس کے چہرے پر ایک عجیب سی خموشی چھا جاتی اور آنکھوں میں اُلجھن کے سائے تیرنے لگتے۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنے بارے میں سب کچھ بھول چکی ہے۔صرف اپنا نام یاد تھابس۔

دادی جان نے یہ کہتے ہوئے اُس سے مزید استفسار کرنے سے سب کو منع کردیا تھاکہ ۔’’پتہ نہیں بے چاری کس نوعیت کی دکھ بھری کیفیت سے گزری ہو گی جس کی یادیںاپنے ذہن سے مٹا ڈالنا چاہتی ہے ۔خیر۔۔۔۔۔جلدی کیا ہے جب مرضی ہوگی بتا دے گی ۔‘‘ پھر وہ بچوں کے ساتھ گھل مل کر کھیلنے لگی۔لیکن ایک عرصہ گذرجانے کے بعد بھی اُس کے منہ سے کچھ نہ پھوٹا۔

یکایک ایک دن اُس کا بڑابھائی اُسے ڈھونڈتا ہوا آگیا۔مسجد میں کسی نے اُسے خبرکر دی تھی۔ نور زارا نے بھی اُسے دیکھتے ہی پہچان لیا۔تب کہیں جا کراُس کی اصلی کہانی پتہ چلی ۔۔۔۔۔۔۔وہ دونوں بن ماں کے بچے تھے۔ باپ نے دوسری شادی کر لی ۔بے چارے بچوں پر سوتیلی ماں نے ظلم کا پہاڑ توڑ دیا۔ لڑکا کہیں باہرکام پرچلا جاتا تھا اور سارا دن گھر سے غائب رہتا ۔ شام کو مزدوری کے پیسے لاکر سوتیلی ماں کی ہتھیلی پر رکھ دیتا۔ معصوم سی چار سالہ بچی جوگھر پر رہتی تھی صبح شام اُس کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی۔ اُسے توچھوٹے موٹے کام بھی ڈھنگ سے کرنے نہیں آتے تھے۔ لہٰذا سوتیلی ماں کے عتاب کا مسلسل نشانہ بنتی رہتی تھی ۔وہ اُسے عجیب عجیب اذیتیں دیا کرتی تھی جس کی تفصیل بتاتے ہوئے وہ رو پڑا تھااور سننے والوں کی آنکھیں بھی نم ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں۔

اورپھر ایک دن جانے کس رو میں بہہ کر بچی گھر سے نکل کھڑی ہوئی ۔اُسے کھوج نکالنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی گئی۔۔۔۔۔۔ یہاں اُسے مطمئن اور ہشاش بشاش پاکروہ بہت خوش ہواتھااور ہاتھ جوڑ کر منت کرنے لگا کہ نور زارا کو یہیں رہنے دیا جائے۔وہ بھی اپنے لوگوں پرظاہر نہیں کرے گااور چوری چھپے کبھی کبھار اُس سے ملنے آتا رہے گا۔گھر کے افراد اُن دونوں کی درد بھری کہانی سے بہت متاثر ہوئے تھے ۔ ایک غریب بے سہارا کے اپنے یہاں پڑارہنے پر بھلا کسے اعتراض ہوسکتا تھا۔

امّی بتارہی تھیں کہ اُنہی دنوں میں پیدا ہوئی تھی اور نورزارا کو جیسے میری صورت میں ایک گڑیا مل گئی ۔وہ مجھے ایک پل کے لئے بھی اکیلا نہیں چھوڑتی تھی۔سارا دن کمر پر اُٹھائے اُٹھائے گھومتی تھی۔اُس کے ہاتھوں چمچ سے کھانا کھاتے ہوئے چندا ماما ،سفید براخ گھوڑا،سبز پری ،لُولاراجا اور بھی نہ جانے کتنی کہانیاں سنی تھیں جومجھے آج بھی یاد ہیں۔

پلے ہوم میںمیرا پہلا دن اور وہ سارا وقت دروازے کے باہر دھوپ میں بیٹھی ہوئی تاکہ میں کہیںرونے نہ لگوں۔کئی دنوں تک یہی سلسلہ جاری رہا۔پھر ہر دن صبح مجھے وہاں لے جانا اور دوپہرسے پہلے واپس لانا اُس کا معمول بن گیا۔میں بے بی کلاس سے سکول پہنچ گئی اورپھر کالج کی سیڑھی بھی سر کر لی لیکن نور زارا وہیں کی وہیں رہی۔

سب کوشش کر کے ہار گئے لیکن وہ اُردو کا الف بے سیکھنے کے بعد انگریزی یا کنڑ کا ایک حرف بھی نہیں سیکھ سکی۔پہلے منجھلی پھوپھی پھر دادی امّاں اورپھر چھوٹی پھوپھی، سب کے سب اپنی سی کرکے ہار گئے۔ اخیرمیں بھی اُس کی ٹیچر بن گئی لیکن وہ اتنی کند ذہن ثابت ہوئی کہ تمام کوششیں رائیگاں ثابت ہوئیں۔سوتیلی ماں کے ڈر سے اُسے سکول تو درکنار گھر سے باہر بھی نہ بھیجنے کی تاکید کی گئی تھی۔جب گھر کے سارے افراد کی پرخلوص سعیء پیہم کے باوجود بھی اُس کے پلے کچھ نہ پڑا تو بھلا سکول جا کر کونسا تیر مار لیتی۔ دادی اماں کے حکم پر منجھلی پھوپی نے انتہائی ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُسے قرآنی آیات سے بہرہ ور کرواکر ہی دم لیا۔بہرحال قرآنی پاروں کے علاوہ اورکوئی کتاب پڑھنا کبھی نہیں سیکھ پائی ۔کچھ عرصہ بعددادی ماں نے کشیدہ کاری،بُنائی کڑھائی سکھانے کا بیڑا اُٹھایا۔بالآخر صرف بُنائی پر اکتفا کر نا پڑا۔ کروشیا کے ذریعے اچھے ڈیزائن بنالیتی تھی۔ اُسے بس یہی آتا تھا۔

منجھلی پھوپی بیاہ کراپنی سسرال چلی گئیں۔ چھوٹی پھوپی کا بھی ایک اونچے گھرانے میں رشتہ طے ہوگیا ۔ گریجویشن ختم ہونے سے پہلے ہی میرے لئے بھی کئی رشتے آچکے تھے ۔ حیدر کاظمی جو بیرونِ ملک انجینیر کے عہدے پر فائز تھے اُن کے بارے میں سب سنجیدہ ہو رہے تھے ۔کہیںبات نہیں بن پا رہی تھی تو نور زارا کی ۔ گھر کی اور لڑکیوں کی طرح وہ بھی دادی جان کو بے حدعزیز تھی۔جسے اپنے ہاتھوں پال پوس کر بڑا کیا تھا اپنے جیتے جی اُس کا گھر بستے ہوئے دیکھنے کی بے حدمتمنی تھیں۔مشاطہ اُس کے لئے جس نوعیت کے رشتے لا رہی تھی اُس سے میری دادی جان ازحدناخوش اور فکر مند تھیں۔بھانت بھانت کے رشتے۔۔۔۔۔۔کوئی بیڑی مزدور ،کوئی تانگہ گاڑی ہانکنے والاتو کبھی لاری میکینک وغیرہ ۔اپنی نور زاراکے لئے ناخواندہ اور نچلے طبقے کے لڑکوں کے رشتے دادی جان کی حساس طبیعت پر گراں گزرتے تھے۔

’’بے چاری ایک جاہل انسان کے ساتھ بھلا کیسے نباہ کرے گی ۔ اِس گھر کے ماحول میں پلی بڑھی ،ایک حد سے زیادہ پچھڑے گھر انے میں جی پائے گی ہماری نور زارا ؟ اُس کا دم نہیں گھٹ جائے گا!‘‘

اِس طرح فکر کرتے اُنہوں نے اپنی راتوں کی نیند اور دن کا چین حرام کر لیا تھا۔ اکثر اُنہیں رات کے اندھیرے میں تنہاپائیں باغ میں بے چینی کے ساتھ ٹہلتے دیکھا گیا۔سب کوفکر لاحق ہو گئی کہ کہیں دادی جان کی صحت نہ متاثر ہو جائے۔اب کی بار جب بڑی پھوپی گھر آئیں تو امّی نے من وعن سارا احوال کہہ سنایا ۔ پھوپھی جان گہری سوچ میں پڑ گئیں۔ اُسی شام اُنہوں نے مشاطہ کوآڑے ہاتھوں لیتے ہوئے جتا دیا کہ نور زارا کو منہ مانگا جہیز ، زیور ، کپڑے لتے سب کچھ فراہم کیا جائے گا بس لڑکا ذرامعقول ہو۔

مشاطہ نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے جواب دیا تھا۔ ’’بی بی ۔ میری کسی سے دشمنی تھوڑی ہے جو جان بوجھ کر ایسے رشتے لے کر آؤنگی ۔پوچھ لیجئے بی امّاں سے ،اُن کے کہنے کے مطابق میں نے بھی نہ جانے کتنوں کو لالچ دیالیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا!ہاں ۔۔۔۔۔۔۔ایک رشتہ ہے میری نظر میں لیکن مجھے خدشہ ہے کہ آپ لوگ اُسے شاید ہی منظور کریں گے۔ ‘‘

’’لو بھلا،اگرسب کچھ ہمارے اندازے کے مطابق ہوا تو کیوں نہیں منظور کریں گے!‘‘ منجھلی پھوپی نے فوراََ کہا ۔

’’ لڑکا تعلیم یافتہ ہے۔ سرکاری سکول میں معلم کے عہدے پر فائز ہے لیکن۔۔۔۔۔۔ایک ذراسا نقص ہے ‘‘ مشاطہ نے جھجھکتے ہوئے بتایا۔

’’ایسا کونسا نقص ہے ۔ کھل کر بتاؤ توسہی ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ پھوپی نے اُتاولی ہوتے ہوئے پوچھاتھا۔

’’ سنا ہے کہ لڑکے کو بچپن میں پولیو ہو گیا تھاجس کی وجہ سے بے چارے کے پیر میں کمزوری آگئی ہے۔‘‘ مشاطہ نے نظریں چراتے ہوئے جواب دیا۔

دادی ماں اور منجھلی پھوپھی نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھااور فکر مندانہ انداز میں نظریں جھکا لیں۔مشاطہ نے تیر نشانے پر لگتے دیکھا تو فوراََ اپنے جھولے میں سے لڑکے کی تصویر نکال کر سامنے رکھ دی جسے سرسری نظر سے دیکھنے کے بعدمشاطہ کو اگلے دن جواب دینے کا وعدہ کر کے رخصت کر دینے کے بعد منجھلی پھوپھی یوں گویا ہوئیں۔

’’ گزرتے وقت کے ساتھ جوان لڑکی کا بوجھ بھیگے کمبل کی طرح وزنی ہوتاجاتاہے اور پھر سرے سے رشتہ ملنا دشوار ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اِس لئے میری رائے ہے کہ ایک بار لڑکے کو گھر بلا کر دیکھ لیتے ہیں۔ صورت شکل تو اچھی خاصی ہے۔ہو سکتا ہے معمولی سا نقص ہو۔ اپنی لڑکی میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔ایسے معاملوں میں کچھ تو سمجھوتا کرنا ہی پڑتا ہے۔‘‘

دوسرے ہی دن مشاطہ لڑکے کو اُس کے چند خویش و اقارب کے ہمراہ لے کر آگئی۔ ایک ماں کے سوا اُس کا اِس دنیا میں اور کوئی نہیں تھا۔ لڑکے کو دیکھ کر سب دنگ رہ گئے۔ بات چیت میں بے حد مہذب اور اتنا سادہ لوح کہ اُس ایک نقص کو نظر انداز کر دیا جائے تو نور زارا کے نصیب پر عش عش کیا جا سکتا تھا۔سب کے سب عجیب مخمصے میں پھنس گئے تھے۔ دادی ماں کے توآنسو بہہ نکلے۔ اندرونی کمرے میں مجلس بیٹھی۔ منجھلی پھوپھی نے اعلان کیا کہ یہ کسی کی ذاتی زندگی کا سوال ہے۔ اب اِس معاملے کا تصفیہ اِس طرح ہوگا کہ نورزارا بذاتِ خود لڑکے کودیکھنے کے بعد جو فیصلہ لے گی وہی حرفِ آخر ہوگااور ہم سب کو اُس کے جذبات کی قدر کرنی ہوگی۔

بظاہر وہ انجان بنی ہوئی تھی ۔پر بخوبی جانتی تھی کہ اِن دنوں سب اُس کے مستقبل کے تعلق سے کس قدر فکر مند ہیں ۔لاکھ اپنائیت سہی پر تھی تو لے پالک ۔اِس تلخ حقیقت کا بھی احساس تھا کہ جس لڑکے کا رشتہ اُس کے لئے آیا ہے وہ عام حالات میںہرگز اُس کا طلب گار نہ ہوتا۔

اِس گھر میںبے فکری کے ساتھ بچپن بیتا، پھر جوانی آئی۔ ایک پل کے لئے بھی اُسے محسوس نہیں ہوا کہ یہاں وہ غیر ہے یا اُس کی حیثیت گئی گزری ہے۔ بی امّاں اُس کے لئے حقیقی ماں سے بھی بڑھ کر تھیں۔ اوروںنے بھی کبھی اُس کے ساتھ بیگانگی نہیں جتائی تھی۔ اِس گھر میں اُسے ممتا،پیار دُلار، اپناپن ،بھروسہ سب کچھ جی بھر ملا تھا۔ گھر کا آدھے سے زیادہ نظام اُسی کے ہاتھوںمیں تھا۔سب اُس پر آنکھ موند کر بھروسہ کرتے تھے۔اُسے مکمل احساس تھا کہ محض بوجھ اُتار پھینکنے کے اِرادے سے دیدہ دانستہ کسی ادنیٰ یا گھٹیا انسان کے حوالے کبھی نہیں کیا جائے گا۔بہرحال دنیا داری کے مطابق بڑی پھوپھی اور منجھلی پھوپھی کی طرح اُسے بھی اِس گھر سے وِداع ہوناہی تھا۔

ابامہمانوں کو کھانے کے کمرے میں لے گئے تھے۔ دریں اثنامنجھلی پھوپھی نورزارا کے پاس چلی گئیں۔ لڑکے اور اُس کے خاندان کے بارے میں ساری معلومات بہم پہنچاتے ہوئے اُنہوں نے دوسرے کئی رشتوں کا بھی خصوصی طور پر ذکر کیاجوسب کی رائے میںانتہائی ناقص اور غیرمناسب تھے۔وہ سر جھکا کرچپ چاپ منجھلی پھوپھی کی باتیں سنتی رہی۔ پھروہ اُسے اپنے ساتھ کمرہء طعام سے منسلک کمرے میں لے گئیںجو پوری طرح اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ لِہٰذاباہر والوں کو اُس کمرے کے اندر موجود فرد کا نظر آنا ناممکن تھا۔ محفلِ طعام اپنے اِختتام پر تھی۔ مہمان ایک ایک کر کے واش بیسن میں اپنے ہاتھ صاف کر نے کے بعدباہروالے دالان کا رُخ کر رہے تھے۔ وہ بھی اپنے دوست کا سہارا لے کر اُٹھ کھڑا ہوا۔ اُس نے جلدی سے بیساکھی پکڑادی جس کے سہارے چلتا ہوا کونے میں بنے ہوئے واش بیسن میں اپناہاتھ دھویا اور نیپکن لے کر پونچھتا ہوا باہر نکل گیا۔ پھوپھی کے اِصرار پرنور زارا نے دروازے کی جھری سے اُسے دیکھا اور پھر واپس کمرے میں بھاگ گئی۔ منجھلی پھوپھی بھی بادِلِ ناخواستہ اُس کے پیچھے چل دیں۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے بیٹھی تھی اور اُس کا بدن ہولے ہولے ہِل رہا تھا۔غالباََ اندر ہی اندر رو رہی تھی۔ پھوپھی کو اُس پر ترس آگیا۔ازراہِ ہمدردی اُنہوں نے آگے بڑھ کر اُس کے دونوں ہاتھ تھام لئے۔ اچانک اُن کو حیرت زدہ رہ جانا پڑا۔توقع کے برخلاف اُس کا چہرہ تو مارے شرم و شادمانی کے گلنار بنا ہوا تھا۔ پھوپھی نے اوپر دیکھتے ہوئے شکر اللہ کہا اورپھر بے اختیار اُسے گلے لگا لیا۔

نورزارا کی رخصتی کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد میںحیدر کاظمی کی شریکِ حیات بن کرامریکہ آگئی اور زندگی کی نیرنگیوں میں اِس قدر کھو گئی کہ ماضی کو یکسر بھلا بیٹھی۔کبھی کبھی فون پر سب کاحال احوال پوچھ لیا کرتی تھی۔ نورزارا کو یاد کر کے اکثر آنکھیں بھیگ جاتیں۔خاصے لمبے عرصے بعد وطن آنا ہوا تو سب سے پہلے اُس کی یاد آگئی ۔پہلی فرصت میں اُس سے ملنے کے لئے نکل کھڑی ہوئی ۔ شادی کے بعد وہ جس قریہ میں رہ رہی تھی اب وہ شہری حدود میں شامل ہو چکا تھا۔ اُس کے دونوں بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے نوکری کے سلسلے میںکسی دوسرے شہر میں قیام پزیر تھے۔

جدید طرز پر بنے ہوے اُس مکان کے لمبے چوڑے دالان میں بلا ناغہ ہر دن تعلیمِ بالغاں کی جماعتیں منعقد ہوا کرتی تھیں جس کی روحِ رواںکوئی اور نہیںاپنی نورزارا تھی۔اُسے اِس مقام پر دیکھ کر دل کو بے کراں سکون ملا۔ اُس کا جسم قدرے فربہ ہو چلا تھا۔چہرے پر وہی وقار واعتماد جھلک رہاتھا جو میں نے اُس دن اُس کے شوہر کے چہرے پر دیکھا تھا۔خواندگی و آسودہ پن کا احساس جس نے اُس کے سراپا پرایک سکون پرورچمک لا دی تھی ۔ اُس کا شوہر اب نہیں رہا تھا لیکن معلم ہونے کے ناطے ایک نکٹھواور کوڑھ مغز ہستی کو علم کی روشنی عطا کر گیا تھاجس کی مدد سے وہ لاتعداد نااُمیدو فضول سی زندگیوں میں علم کی شمع روشن کرتی ہوئی اُنہیںجہالت کے اندھیرے سے نکال کراُجالے میں لانے کی اہل ہو چکی تھی۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146