نوعمروں کی تربیت (پیرینٹنگ سیریز-7)

ڈاکٹر نازنین سعادت

گزشتہ ماہ درمیانی بچپن (سات سال سے دس گیارہ سال) کی عمر کے تربیتی تقاضے زیر بحث لائے گئے تھے۔ اس ماہ ہمارا موضوع اگلے مرحلے یعنی 12سے 15سال کے درمیان کی عمر کے بچوں کی تربیت سے متعلق ہے۔ اس عمر کونوعمری کا دور کہہ سکتے ہیں۔ انسان کی زندگی میں اس دور کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اس عمر میں بچوں کے اندر بہت سی جسمانی ، ذہنی، جذباتی، نفسیاتی اور سماجی تبدیلیاں آتی ہیں۔ان تبدیلیوں کا گہرا تعلق ہارمونل تبدیلیوں سے، یعنی ان کے جسم کے کیمیکلز میں تبدیلی سے ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کارخانے میں کوئی چیز بے کار نہیں ہوتی۔ نوعمری کی ان تبدیلیوں کے بھی گہرے مقاصد ہوتے ہیں۔ بچپن، شخصیت کی بنیادیں قائم کرنے کا زمانہ ہے۔ یہ زمانہ سیکھنے اور تربیت پانے کا زمانہ ہوتا ہے۔ اس کے جسم کا بھی نشوونما ہورہا ہوتا ہے اور اس کے جذبات و احساسات بھی ابھی بہت معصوم ہوتے ہیں۔ اس لیے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ بچے کو والدین سے گہرائی کے ساتھ وابستہ رکھتا ہے۔ اپنی جسمانی ، نفسیاتی ہر طرح کی ضرورتوں کے لیے وہ والدین پر منحصر ہوتا ہے۔ اس طرح ان سے قریب رہ کر ان سے سیکھتا ہے اور شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔

نوعمری کا زمانہ بچپن کے معصوم دور کی تکمیل کا زمانہ ہے۔گویا ایک کم عمر بچہ نوجوانی کے مرحلے میں داخل ہورہا ہوتا ہے۔ مستقبل میں اسے اپنی زندگی خود گذارنی ہے۔ اس دنیا میں آزادانہ طور پر اپنا رول ادا کرنا ہے۔ بے رحم دنیا میں اپنی جگہ خود بنانی ہے۔ اس چیلنج کے لیے اس کے جسم کو بھی تیار ہونا ہے اور اس کے ذہن و مزاج کو بھی۔ نوعمری ، اسی تبدیلی کے دور کا نام ہے۔ ایک کمزور بچے کے طاقتور نوجوان میں بدلنے کا عمل گویا شروع ہوتا ہے:

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ

’’اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت میں تمہاری پیدائش کی ابتدا کی، پھر اس ضعف کے بعد تمہیں قوت بخشی، پھر اس قوت کے بعد تمہیں ضعیف اور بوڑھا کر دیا وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘الروم: 54)

نوعمری کی تبدیلیاں

ہارمونز کی تبدیلیوں کے ساتھ بچوں میں بہت سی ظاہری تبدیلیاں بھی شروع ہوجاتی ہیں۔ لڑکوں کی مسیں بھیگنے لگتی ہیں۔ آواز بھاری ہونے لگتی ہے۔ لڑکیوں میں بلوغت کے آثار پیدا ہونے لگتے ہیں۔ بچوں پر ان تبدیلیوں کے گہرے اثرات پڑتے ہیں۔ ان کا مزاج بہت زیادہ موڈی ہونے لگتا ہے یعنی کبھی نہایت خوشگوار موڈ اور کبھی اچانک خراب موڈ۔ وہ اپنے کپڑوں ، جسمانی کشش وغیرہ کو لے کر حساس ہوجاتے ہیں۔ لڑکیوں کو سجنے سنورنے میں دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے۔ ان کی اپنے آپ پر توجہ اچانک بڑھ جاتی ہے۔ دوستوں کی اہمیت بڑھنے کا عمل آٹھ نو سال کی عمر ہی سے شروع ہوجاتا ہے اور اس عمر میں بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

بچے بظاہر والدین سے دور ہونے لگتے ہیں۔ والدین کے ساتھ گھومنے پھرنے کے مقابلے میں وہ دوستوں میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔جو بچہ رات دن ماں یا باپ سے جڑا رہتا تھا اور صرف ان ہی کو اہمیت دیتا تھا، جب اس کا بیرونی سماج سے تعلق بڑھنے لگتا ہے تو بہت سے والدین کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ ان کے تئیں اس کا لگاؤ اور تعلق کمزور ہورہا ہے،لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اسکیم کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ ہمارے بچوں کو آزاد اور ذمے دار زندگی کے لیے تیار کرتا ہے۔ اس عمر میں جنس مخالف میں کشش بڑھ جاتی ہے۔نئے تجربات کرنے کا اور ایڈو نچر کا شوق بڑھ جاتا ہے۔

ہر تبدیلی کے ساتھ کچھ نہ کچھ مشکل ضرور وابستہ ہوتی ہے۔ نو عمروں میں جب یہ تبدیلیاں آتی ہیں تو ایک طرف ان کے اندر بہت کچھ بدل رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف لوگوں کا ان سے تعلق اور ان کو دیکھنے کا انداز بھی بدلنے لگتا ہے۔ عام لوگ ایک معصوم بچے کے ساتھ جس طرح کا رویہ رکھتے ہیں، ایک نوجوان کے ساتھ ویسا رویہ نہیں رکھتے۔ اس بدلتے ہوئے رویے سے ہم آہنگ ہونے میں انہیں وقت لگتا ہے۔ اس عمر میں ان کی تعلیم اور کیرئیر سے متعلق چیلنج بھی اچانک بڑھ جاتے ہیں۔ یہ ساری تبدیلیاں ان کے اندر تناؤ بھی پیدا کرسکتی ہیں، مزاج میں چڑ چڑاپن اور سختی آسکتی ہے، مایوسی اور غم کے دورے پڑسکتے ہیںاوراپنی تعلیم سے،ذمہ داریوں سے، ماحول سے ،چڑ کی کیفیت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔

ہمجولیوں کا دباؤ ، والدین سے دوری، آزادی کی خواہش اور ایڈونچر کا مزاج، ان سب کے مل جانے سے بعض اوقات غلط عادتیں بھی پیدا ہونے لگتی ہیں۔ اگر خدا نخواستہ ہمجولی درست نہ ہوں تو برے کاموں کے لئے ایک دوسروں کو موٹیویٹ کرتے ہیں۔ بےہودا ویڈیو گیمز سے لے کر سگریٹ و تمباکو ، ڈرگس، جنسی بے راہ روی وغیرہ جیسی برائیاں عام طور پر اسی عمر میں شروع ہوتی ہیں۔ دراصل وہ بچے بھی نیا تجربہ کر رہے ہوتے ہیں اسی لیے چاہتے ہیں کہ ان کے ان کاموں میں دوسرے بھی شامل ہو ں۔

لیکن دوسری طرف ہمجولی اچھے ہوں اور والدین بھی صبر وحکمت کے ساتھ رہنمائی کریں تو اس عمر کی خصوصیات اچھی شخصیت کی اٹھان میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ اسی عمر میں نوجوانوں کے اندر صالح جذبات اور صالح امنگیں بھی انگڑائیاں لیتی ہیں۔ ایڈونچر کا جذبہ، نیکی اور انسانیت کی بھلائی کی حوصلہ تعمیری مہموں کی طرف انہیں متوجہ کرسکتا ہے۔ اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور ان کے ذریعے انوکھے کارنامے انجام دینے کی امنگ پیدا کرسکتا ہے۔ برائی سے لڑنے اور اسے ختم کرنے کی امنگ پیدا کرسکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جہاں اس عمر کے ساتھ بگاڑ کی کہانیاں وابستہ ہیں وہیں حیرت انگیز کارناموں اور غیر معمولی کامیابیوں کی داستانیں بھی وابستہ ہیں۔ مولانا مودودیؒ، مولانا آزادؒ، حسن البنا ؒوغیرہ جیسی تاریخ ساز شخصیتوں کے کارنامے اسی عمر میں ظاہر ہونے شروع ہوگئے تھے۔ محمد بن قاسمؒ اور طارق بن زیاد ؒ جیسے سالاروں نے اسی عمر میں جہاں گیری و جہاں بانی کے ولولوں کی آبیاری شروع کردی تھی۔ ان مثبت جذبات اور تاریخ ساز حوصلوں کے پیچھے بھی وہی خصوصیات تھیں جو اللہ تعالیٰ اس عمر میں ، انسان کے ہر بچے کے اندر پیدا کردیتا ہے۔

آزادی ، رہنمائی، نظر

اس عمر میں آزادی کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ چھوٹے بچوں کے والدین ہر چھوٹی سے چھوٹی بات میں بچوں کو احکام دینے اور انہیں منوانے کے عادی ہوتے ہیں۔ اسی میں انہیں اپنائیت کا احساس ہوتا ہے اور تربیت سے متعلق اپنی ذمے داریوں کی ادائیگی کا احساس ہوتا ہے، لیکن نوعمری میں ہر چھوٹی بات پر حکم اور روک ٹوک بچوں کو سخت ناگوار گذرتی ہے۔ وہ اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں اور اپنی زندگی آزادانہ جینا چاہتے ہیں۔ اس لیے بہت زیادہ مداخلت ان کے اندر سرکشی اور بغاوت کے جذبات پیدا کرتی ہے۔

والدین کے اندر اس شعور کا ہونا بہت ضروری ہے کہ کہاں انہیں مداخلت کرنی ہے اور کہاں بچے کو آزادی دینی ہے۔ چھوٹے معاملات میں آپ کی روک ٹوک ، بڑے معاملے میں آپ کے اختیار کو ختم کردے گی۔اس لیے یہ فیصلہ کہ کہاں روکنا ہے اور کہاں آزاد چھوڑنا ہے، اس کی بڑی اہمیت ہے۔

والدین کی ذمے داری اصلاً یہ ہے کہ وہ اچھے برے کی تمیز پیدا کریں۔ اپنی توقعات اچھی طرح بتادیں۔ کس طرح کے بچوں سے ملنا ہے ؟ رات میں کب تک باہر رہا جاسکتا ہے؟ کہاں جاسکتے ہیں اور کہاں نہیں؟ یہ ان پر اچھی طرح واضح ہوجائے۔ اس کے بعد انہیں اپنے معمولات طئے کرنے کی اور روز مرہ کے معاملات میں اپنے فیصلے خود کرنے کی آزادی حاصل رہے۔

بہت سے والدین چھوٹے چھوٹے معاملات میں اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ کپڑے یہ نہیں یہ پہنو۔ ابھی وہاں مت جاؤ،یہاں چلو۔ بچے مانتے نہیں ہیں۔ گھنٹوں کی تکرار کے بعد بے بس ہوکر بچے کو اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ آزادی دینا نہیں ہے ۔ اس رویے سے بچوں کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ ہر بات ضد کرکے والدین سے منوا سکتے ہیں۔ والدین سے رشتے کی نوعیت ہی یہ مقرر ہوجاتی ہے کہ انہیں ہرانا ہے اور اپنی مرضی منوانا ہے۔آزادی دینے کا مطلب یہ ہے کہ اخلاق و اصول کے دائرے میں اور اپنی توقعات کے دائرے میں اُسے اپنا فیصلہ کرنے کا پورا اختیار حاصل رہے۔ آپ اس کی پسند کا احترام کریں اور چاہے آپ کو اس کا فیصلہ پسند نہ ہو، اس کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کریں۔ اس صورت میں اہم تر معاملات میں آپ اپنی توقعات اس پر واضح کرسکیں گی اور اس سے اپنی بات منواسکیں گی۔

رہنمائی کرنے اور آزادی دینے کے بعد بچوں پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ ان پر بے اعتمادی کا اظہار نہ ہو لیکن مکمل لاتعلقی بھی نہ ہو۔ ان کے دوستوں سے کبھی مل لینا، کبھی ان کے کمپیوٹر یا فون پر نظر ڈال لینا، ان کے معمولات کو دیکھ لینا، وغیرہ وہ طریقے ہیں جن سے آپ یہ اطمینان حاصل کرسکتی ہیں کہ آپ کا بچہ صحیح سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔

بے تکلف رشتہ قائم کریں

اس عمر میں رہنمائی کرنے کا طریقہ حکم دینے کا نہیں بلکہ ذہن سازی کا طریقہ ہے۔کم عمر بچے تو کوئی بات محض اس لیے مان لیتے ہیں کہ وہ امی یا ابو نے کہی ہے، لیکن نو عمری میں آپ کو اپنی بات کا انہیں قائل کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ والدین اور بچوں کے درمیان بے تکلفی کا رشتہ ہو اور بہتر کمیونکیشن ہو۔ بچے اپنے دل کی بات آپ سے شیر کرسکیں اور آپ اچھے ماحول میں سنجیدگی کے ساتھ اپنی بات ان کو ذہن نشین کراسکیں۔ اس کے لیے ذیل میں کچھ ٹپس دی جارہی ہیں۔

کھانا مل جل کر کھائیں۔یہ بہترین وقت ہوتا ہے جب آپ تمام افراد ہلکے پھلکے موضوعات پر گفتگو کر سکتے ہیں۔ کھانے کی میز پر بے تکلف گفتگو کے دوران ہر فرد کو بات کرنے کا موقع ملنا چاہیے اور تمام ہی افراد کو توجہ سے سننا چاہیے۔ بدقسمتی سے یہ رواج بھی ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ اکثر گھرانوں میں یہ دیکھا جاتا ہے کے کھانے کے اوقات میں بھی ہر فرد اپنے اپنے موبائل فون میں مصروف ہوتا ہے۔

فیملی پکنک کا اہتما م ہو۔سیروتفریح بھی بے تکلف رشتہ قائم کرنے کا موثر ذریعہ ہے۔ اس کے اوقات بھی طے کیے جانے چاہئیں۔ یہ ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب آپ کھیل ہی کھیل میں بچوں کو اچھی باتیں سکھا سکتے ہیں۔ کم سے کم مہینے میں ایک دفعہ قریبی پارک میں ، کسی پکنک کی جگہ پر جاسکتے ہیں یاڈنر کے لیے باہر جاسکتے ہیں۔ سال دو سال میں ایک آدھ دفعہ شہر سے باہر کسی جگہ ساتھ سفر کرکے جایا جاسکتا ہے۔

چہل قدمی، ورزش یا کھیل کود کا اہتمام ہو۔تنہا بچے کے ساتھ کچھ وقت گزاریں جیسے چہل قدمی کریں ۔ اس کا بہت بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ بچہ آپ سے بے تکلف ہو گا ،جو بات وہ سب کے سامنے نہ کر سکے وہ اس وقت ضرور کرے گا۔ اسے سمجھنے کا کافی موقع آپ کو مل جائےگا۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے خاندان کے بچوں کے درمیان دوڑ کے مقابلے تک کرائے ۔

اپنی توقعات کا اظہار کریں۔بچے کا کوئی رویہ، کوئی عادت یا کوئی عمل ناپسند ہو تو فوری ٹوکنے، ڈانٹ ڈپٹ کرنے یا اس کے پیچھے پڑنے کے بجائے کوئی مناسب وقت نکالیں اور اچھے ماحول میں ٹھنڈے دماغ سے اسے سمجھائیں کہ اُ س رویے میں کیا خرابی ہے؟ آپ کی اس سے کیا توقعات ہیں؟ اور یہ توقعات کیسے پوری کی جاسکتی ہیں؟ اس کے نقطہ نظر کو بھی سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ وہ یہ رویہ کیوں اختیار کیے ہوئے ہے؟ اس رویہ کو بدلنے میں اسے کیا مشکل درپیش ہے؟ اور اس سلسلے میں آپ اس کی کیا مدد کرسکتے ہیں؟

اس کی کامیابیوں کا جشن منائیں۔بچے کی چھوٹی بڑی خوشیوں اور کامیابیوں کو جشن کے طور پر منائیں۔ اس سے بچے میں یہ احساس پیدا ہوگا کہ وہ آپ کی نگاہ میں اہم ہے۔ کامیابی کی نوعیت کے اعتبار سے جشن کی نوعیت کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ کوئی تحفہ دینا، اس کا پسندیدہ پکوان بنادینا، آئس کریم کھلانا، اس کے دوستوں کو چائے پر بلانا، مٹھائی لانا، ایسا کوئی بھی اقدام جس سے آپ کی بھرپور خوشی کا اظہار ہو۔ اس سے بچے کی خود اعتمادی بھی بڑھے گی اور آپ سے اس کا تعلق بھی مستحکم ہوگا۔

اس کے مشاغل میں حصے دار بنیں۔ اس عمر کے بچوں کے ساتھ بے تکلف تعلقات کا آسان راستہ یہ ہے کہ آپ اس کے مشاغل میں حصے دار بننے کی کوشش کریں۔ اگر اسے کتابیں پڑھنے کی عادت ہو اور آپ بھی اس کی دلچسپی کی کتابیں پڑھتی جائیں یا اگر آپ کی بیٹی کو گارڈننگ میں دلچسپی ہو تو آپ بھی اس کام میں اس کی شریک ہوجائیں تو بے تکلف گفتگو کا ایک محاذ آپ کے ہاتھ میں ہوگا۔

ضرورتوں کا خیال رکھیں

جیسا کہ واضح کیا گیا، اس عمر کی بہت سی جسمانی ، جذباتی اور نفسیاتی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ یہ ضرورتیں بچپن کی عمر سے مختلف ہوتی ہیں۔ اکثر والدین اس عمر کی ضرورتوں کو سمجھ نہیں پاتے۔اس عمر کی جذباتی ضرورتوں میں ماہرین نفسیات چار چیزوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ تعلقاتBelonging،خوشیEnjoyment، اختیارPowerاور آزادیIndependence۔

تعلقات کا مطلب یہ ہے کہ اس عمر میں ، اپنے ہم عمر وں کے ساتھ تعلق بچو ں کی نفیساتی ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کو اس ضرورت کی تکمیل کا موقع دینا چاہیے۔ اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ہر طرح کے اچھے برے لڑکوں کی صحبت کی آزادی دی جائے۔ پتنگ کی ڈور کا دوسرا سرا مضبوطی سے ہاتھ میں جکڑا ہو تو وہ آزادی سے فضاؤں میں اڑتی ہے لیکن ایک خاص دائرہ پار نہیں کرتی۔ نو عمر وں کے ساتھ بھی سمجھ دار والدین کا یہی تعلق ہوتا ہے۔ہمارے ماحول میں اچھے تعلقات کا آسان راستہ یہ ہے کہ بچوں کو ایس آئی او اور جی آئی او جیسی تنظیموں سے وابستہ کیا جائے۔ انہیں اپنے ہم عمروں کا ساتھ بھی حاصل ہوگا اور ان شاء اللہ یہ تعلق ان کی مثبت شخصیت سازی مین بھی معاون ہوگا۔

خوشی کا مطلب یہ ہے کہ کھیل کود، تفریحات، سفر، ایڈونچر وغیرہ سے ان کو خوشی ملتی ہے اور یہ بھی اس عمر کی جذباتی ضرورت ہے۔ بچوں کے بگاڑ کا راستہ بھی اکثر خوشی کی جذباتی ضرورت ہی سے ہوکر گذرتا ہے۔ اس لیے سمجھ دار والدین اس عمر میں بچوں کو خوشی اور تفریح کے صحت مند مواقع فراہم کرتےہیں۔ اسپورٹس، تیراکی، کوہ پیمائی، تفریحی مقامات کا سفر اور سیر، وغیرہ جیسی چیزیں بچوں کی یہ جذباتی ضرورت پوری کرسکتی ہیں۔ والدین اس کے لیے اپنے ساتھ بھی یہ مواقع نکال سکتے ہیں اور ضروری احتیاطی تدابیر کے ساتھ اور ان کی حفاظت کے سلسلے میں اطمینان حاصل کرکے دوستوں کے ساتھ بھی اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔

اختیار کا مطلب یہ ہے کہ اس عمر میں بچوں کو یہ احساس رہتا ہے کہ ان کے معاملات پر ان کا اختیار ہو۔ سمجھ دار والدین کپڑوں کے معاملے میں، کمرے کی سیٹنگ کے معاملے میں اور اس طرح کے دیگر معاملات میں ان کو آزادانہ طور پر فیصلے کرنے کا حق دیتے ہیں۔ کیریر کا انتخاب جیسے معاملات میں بھی ان سے اس طرح مشورہ کرتے ہیں اور اس طرح کونسلنگ کرتے ہیں کہ ان کو زبردستی کا احساس نہ ہو بلکہ اپنی پسند سے خود فیصلے کرنے کا احساس ہو۔

آزادی کا مطلب یہ ہے کہ اس عمر میں بچوں کو اپنا آزاد اسپیس درکار ہوتا ہے۔ انہیں تنہائی کا وقت درکار ہوتا ہے۔سمجھ دار والدین حدود طے کرتے ہیں اور ان حدود کے اندر بچوں کو آزاد اسپیس فراہم کرتے ہیں۔

ذمے داری پیدا کریں

اس عمر میں یہ ضروری ہے کہ بچوں کو اپنا کام خود کرنے دیا جائے۔ بہت سے والدین بچوں کی طرح نوعمروں کے بھی تمام کام خود کرنے لگتے ہیں جس سے ان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا نہیں ہوتا اور وہ ذمے دار فرد نہیں بن پاتے۔اس عمر میں اپنے کپڑوں کی دھلائی، استری وغیرہ کی فکر بچوں کو خود کرنی چاہیے۔ اپنے کمرے میں چیزوں کو جگہ پر رکھنے کی ذمے داری انہیں خود اٹھانی چاہیے۔ اسکول کے بیگ ، یونیفارم وغیرہ کی تیاری خود کرنی چاہیے۔

اس کے ساتھ گھر کے مشترک کاموں میں سے بھی کچھ کاموں کی ذمے داری ان کے سپرد کی جانی چاہیے۔ ماہرین گھر کے چھوٹے موٹے کام کو بچوں کے حوالے باقاعدہ ذمے داری دے کر دینے کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور اسے اس عمر میں بچوں کی شخصیت سازی کی ایک اہم ضرورت بتاتے ہیں۔ اس سے ان کے اندر ذمے داری کا اور دوسروں کے تئیں اپنے فرائض کا احساس ہوتا ہے۔ اس احساس کے بغیر وہ اچھے شہری نہیں بن سکتے۔ اسی طرح منصوبہ بندی، ترجیحات اور منظم کام کا شعور، ذمے داری کی ادائیگی سے خوشی کا احساس، وقت کی منصوبہ بندی وغیرہ جیسی کئی اہم صفات اس سے پروان چڑھتی ہیں۔ اس لیے کچھ کام بچوں کے حوالے ہونے چاہیے اورانہیں کسی کے توجہ دلائے بغیر خود سے بروقت ان کاموں کو مکمل کرنا چاہیے۔ مثلاً روز دودھ لانا، چھوٹے بھائی کو ہوم ورک کرانا، پینے کے پانی کا نظم کرنا ، گھریلو آلات کی ریپیرنگ کرانا وغیرہ۔

ذمے داری دینے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ ان پر اعتماد کریں۔ گزشتہ شمارے میں ہم نے، آپ ﷺ کے بھتیجے، عبد اللہ بن جعفر ت کا ذکر کیا تھا جن کے والد کی شہادت کے بعد آپﷺ نے انہیں اپنے گھر میں اپنی کفالت میں لے لیا تھا اورکم عمری ہی سےتجارت کے کام میں ان کی ہمت افزائی فرمائی تھی۔ آپ ﷺ نے زید بن ثابتؓ کو اسی عمر میں اپنا سکریٹری مقرر کیا۔ اسامہ بن زید ؓ کو فوجی مہمات کے لیے اس عمر میں اس طرح تیار کیا کہ محض 18سال کی عمر میں وہ اس لائق ہوگئے کہ آپ ﷺ نے انہیں اسلامی فوجوں کا سالاربنادیا اور بڑے بڑے صحابہ ان کی سالاری میں جہاد کے لیے نکلے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146