ولید العماہرہ کا تعلق فلسطین سے ہے۔ دودھ جیسی صاف شفاف رنگت اور تیکھے نقوش والی مریم العماہرہ رومانیہ کی رہنے والی ہیں۔ مریم کیمیکل انجینئر ہیں۔ دونوں میاں بیوی دنیا کے بیشتر ممالک کا سفر کرتے ہوئے پچھلے دنوں اسلام آباد پہنچے تھے۔ مریم نے حال ہی میں اسلام قبول کیا ہے۔ ولید کی عمر ۲۸؍سال ہے جب کہ مریم ابھی صرف چوبیس سال کی ہیں۔ مجھے مریم کے بارے میں معلوم ہوا تو یہ تجسس ہوا کہ آخر مریم نے کس بات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا ہے۔ مریم سے گفتگو شروع ہوئی تو اسی جذبۂ تجسس کے تحت سب سے پہلے میں نے سوال کیا۔
س: آپ نے کیا صرف اس لیے اسلام قبول کیا ہے کہ آپ ایک مسلمان شخص سے شادی کررہی تھیں؟ یا آپ کو اسلام کے اصولوں اور تعلیمات نے متاثر کیا؟
ج:چھ ماہ قبل جب میری شادی ہوئی اس وقت میں عیسائی عقیدے پر یقین رکھتی تھی ولید نے مجھے بتایا تھا کہ ایک مسلمان اہلِ کتاب عورت سے شادی کرسکتا ہے اور اس کے لیے عورت کا اپنا مذہب تبدیل کرنا ضروری نہیں۔ ولید نے زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر بھی زور نہیں دیا تھا۔ میرا خود بھی یہ خیال نہیں تھا کہ میں کبھی اپنا مذہب تبدیل کروں گی۔ ہم دونوں کے درمیان یہ معاہدہ ہوگیا تھا کہ ولید اپنے عقائد پر قائم رہیں گے اور میں اپنے عقیدے پر چلتی رہوں گی۔ مگر تین ماہ قبل جب ہم مختلف ملکوں کا دورہ کرتے ہوئے ایران پہنچے تو اس دن جمعہ تھا۔ تمام کاروباری ادارے اور ہوٹل بند تھے۔ ہمیں بڑی بھوک لگی تھی اور رات گزارنے کے لیے ہمیں کسی جگہ کی تلاش تھی۔جب ہمیں کوئی مناسب جگہ نہیں مل سکی تو ولید نے ایک نوجوان سے پوچھا کہ مسجد کہاں ہے؟ ہم مسجد میںرات گزار لیں گے۔ وہ نوجوان ڈاکٹر تھا۔ اس نے کہا: تم مسلمان ہو اور اس رشتے سے تم میرے بھائی ہو، کیا تم نہیں جانتے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ آؤ میرے گھر چلو اور میرے مہمان بنو، تاکہ میرے گھر میں برکت نازل ہو۔ پھر اس نوجوان نے ہماری اتنی آؤ بھگت کی کہ شاید ہمارا سگا بھائی بھی ہماری اس قدر خاطر مدارات نہ کرتا۔ اس رات میرے خیالات میں تبدیلی آنی شروع ہوئی۔ ذہن نے کہا کہ یہ کتنا پیارا، کیسا خوب صورت مذہب ہے، جس میں تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں۔ پھر مجھے یورپ میں لوگوں کا رویہ یاد آیا۔ اگر ہمیں کسی یورپی ملک میں رہنے کی جگہ نہ ملتی تو ہم بھوکے ہی مرجاتے۔ ایران میں قیام کے دوران دوسری چیز جس نے مجھے متاثر کیا وہ عورت کی عزت ہے۔ اسلام میں عورت کی جس قدر عزت کی جاتی ہے، اس کی مثال مجھے اور کہیں نظر نہیں آتی۔ تب میں نے دل سے کلمہ پڑھا اور اپنے لیے حجاب کو پسند کیا۔ جب میں نے یہاں پاکستان میں عورتوں کو کھلے سر گھومتے دیکھا تو مجھے بہت تعجب ہوا۔ میں تو اب اپنے سر کے بالوں کو پوری طرح چھپا کر رکھتی ہوں اور اپنے شوہر کے سوا کسی کے سامنے بال نہیں کھولتی۔
س:مریم آپ کا گھر کہاں ہے اور آپ نے کہاں سے تعلیم حاصل کی؟
ج: میرا گھر بخارسٹ میں ہے۔ والد کا انتقال ہوچکا ہے۔ میری والدہ بخارسٹ میں رہتی ہیں اور میں نے بخارسٹ یونیورسٹی سے ہی تعلیم حاصل کی۔
س:آپ کے کتنے بھائی بہن ہیں؟
ج:میرا کوئی بھائی بہن نہیں ہے۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ مجھے یہ سن کر تعجب ہوتا ہے کہ فلسطین میں ایک ایک جوڑے کے آٹھ آٹھ، دس دس بچے ہوتے ہیں۔ اصل میں رومانیہ میں ہر عورت گھر سے باہر کام کرتی ہے۔ وہ زیادہ بچوں کے ساتھ گھر سے باہر کام نہیں کرسکتیں۔ اس لیے ان کے بچے بھی کم ہوتے ہیں۔ جبکہ فلسطین میں عورتیں گھر میں رہتی ہیں، اس لیے زیادہ بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش کرسکتی ہیں۔
س:آپ دونوں کی ملاقات کہاں اور کب ہوئی؟
ج:ہماری پہلی ملاقات دو سال قبل بخارسٹ یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔ لیکن ہم نے چھ ماہ قبل اپریل میں شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔
س:آپ دونوں کی زبان بھی علیحدہ علیحدہ ہے، آپ دونوں ایک دوسرے سے کس زبان میں بات کرتے ہیں؟
ج:میں نے تھوڑی بہت عربی سیکھی ہے مگر ولید کو مختلف زبانیں سیکھنے کا بہت شوق ہے۔ ولید رومانیہ کی زبان بہت اچھی بولتے ہیں اور ہم زیادہ تر گفتگو اسی زبان میں کرتے ہیں۔
س:مریم آپ کو گھر سے باہر کام کرنا اچھا لگتا ہے یا آپ مشرقی ممالک کی خواتین کی طرح گھر میں رہنا پسند کرتی ہیں؟
ج:ابھی تو مجھے اپنے میاں کے ساتھ ملک ملک گھومنا بہت اچھا لگ رہا ہے۔ لیکن جب میرے بچے ہوجائیں گے تو میں گھر میں رہنا پسند کروں گی۔ مجھے یورپ کی یہ بات بہت بری لگتی ہے کہ وہاں خاندانی زندگی کا رواج بہت کم ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر طلاقیں ہوجاتی ہیں اور وہا ںطلاق کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اسلام کا یہ اصول کتنا اچھا ہے کہ مرد باہر کی ذمہ داریاں اٹھاتا ہے اور عورت گھر کا نظام چلاتی ہے اور یوں گھر جنت کا نمونہ بن جاتا ہے۔
س:مریم آپ نے کتنے ممالک کی سیر کی اور آپ کو کون سا علاقہ سب سے زیادہ اچھا لگا؟
ج: میں ولید کے ساتھ ترکی، اردن، بلغاریہ، شام اور ایران گئی اور اب پاکستان آئی ہوں۔ مجھے اردن بہت پسند آیا۔ کیوں کہ میرے شوہر کا آدھا خاندان اردن میں آباد ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت مسرت ہوئی کہ میں جہاں جاتی مجھے ولید کا کوئی چچا یا بھائی مل جاتا۔ ہم ان کے گھروں میں جاتے جہاں ہماری بہت آؤ بھگت ہوتی۔ مجھے ان افراد کا یوں مل جل کر رہنا بہت اچھا لگا اور یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ لوگ یہاں ایک دوسرے کی بہت مدد کرتے ہیں۔ وہاں میں نے بالکل اجنبیت محسوس نہیں کی۔
س:مریم آپ کو پاکستان اور پاکستان کے لوگ کیسے لگے؟
ج:مجھے پاکستان کی خواتین بہت پسند آئیں۔ یہا ںکی لڑکیاں بڑی خوبصورت، مہذب اور مہمان نواز ہیں۔ مجھے آپ کا لباس شلوار قمیض بھی بہت اچھا لگا ہے۔ یہ صحیح اسلامی لباس ہے۔ اگر یہاں کی خواتین اپنے بالوں کو چادر یا اسکارف سے اچھی طرح ڈھانپ لیں تو حجاب کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں۔
س:مریم آپ کو اپنے شوہر کی کس عادت نے سب سے زیادہ متاثر کیا؟
ج:سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ولید بہت سچا، کھرا انسان ہے۔ دوسرے یہ میرا بہت خیال رکھتا ہے اور بچوں کی طرح میری حفاظت کرتا ہے۔ اصل میں عورت کو اگر شوہر کا صحیح تحفظ حاصل ہوجائے تو اسے اور کسی چیز کی تمنا نہیں رہتی۔ بعض اوقات میں سفر کی مصیبتوں اور مشکلات سے تنگ آکر رونے لگتی ہوں لیکن ولید اس پر ناراض ہونے کے بجائے مجھے تسلی دیتے ہیں اور میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں۔
——