نوکرانی ماں (ڈرامہ کی شکل میں معاشرتی افسانہ)

ڈاکٹر محمد عظیم الدین بخش

(ایک گھریلو نشست کا کمرہ، متین احمد کرسی پر بیٹھا جوتے کی ڈوری باندھ رہا ہے۔ اس کی بیوی شبانہ (اندر سے آکر) دیکھئے جی!)

متین احمد: دیکھ تو رہا ہوں تم اب بھی اچھی لگتی ہو۔

شبانہ: فضول باتیں مت کیجیے جو کہہ رہی ہوں دھیان سے سنئے۔

متین احمد: جلدی کہو جو کہنا ہے۔ میں لیٹ ہورہا ہوں۔

شبانہ: وہ کیا ہے کہ آج آفس سے لوٹتے ہوئے آپ رئیس بھائی کے گھر ضرور جائیے۔

متین احمد: وہ کس خوشی میں؟

شبانہ: امی کو واپس لے آئیے، ان کے بغیر گھر اجاڑ لگ رہا ہے۔

متین احمد: (حیرت سے) یہ تم کیا کہہ رہی ہو شبانہ بیگم، زوجہ متین احمد؟

شبانہ: جی آپ چاروں بچوںکی ماں بھی کیوں نہیں کہتے؟ خیر مذاق چھوڑئے۔ امی کے جانے سے مجھے بہت تکلیف کا احسا س ہورہا ہے۔

متین احمد: عجیب عورت ہو تم بھی۔ جب امی یہاں تھیں تو آئے دن ان سے نت نئے جھگڑے نکالتی رہتی تھیں۔ ان کی شکایتیں کرکرکے میرے کان پکا دیتی تھیں۔

شبانہ: ہاں جی! یہ میری حماقت تھی۔ اب کہہ رہی ہوں کہ امی کو واپس لائیے۔

متین احمد: (دکھی ہوکر) امی تو ہمارے بچوں کی محبت میں یہاں سے جانا ہی نہیں چاہتی تھیں۔ بچے بھی بلک بلک کر امی سے لپٹ کر رو رہے تھے جب وہ جارہی تھیں۔ اور اب تم تقاضہ کررہی ہو کہ میں امی کو پھر واپس لے آؤں، کیوں ابھی جھگڑوں سے دل نہیں بھرا؟

شبانہ: نہیں، اب نہیں لڑوں گی، قسم کھاتی ہوں۔

متین احمد: کیا نہیں لڑوں گی کہہ رہی ہو؟ نہ صرف تم امی کی بے عزتی کرتی تھیں۔ آفس سے آتے ہی شروع کردیتی تھیں امی کی شکایتیں۔ جب کہ امی نے مجھ سے تمہاری ایک بھی شکایت نہیں کی بلکہ جب بھی میں تم سے ناراض ہوجاتا تھا تو مجھے ہی سمجھاتی تھیںکہ بہو ابھی کم عمر و ناتجربہ کار ہے۔ معاف کردو۔ (جانے لگتا ہے)

شبانہ: خدا حافظ! مگر امی کو ـضرور لانا (کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے) کون ہے؟ (دروازہ پر جاکر) السلام علیکم سلطانہ تم ہو، اندر آجاؤ، وہ آفس گئے ہیں۔

سلطانہ: (اندر آکر رقعہ دیتے ہوئے) پرسوں ہما فنکشن ہال میں میرے دیور کی شادی ہے۔ رسم میں تم کیوں نہیں آئیں؟

شبانہ: مجبوراً دل مسوس کر رہ گئی کیونکہ گھر اور بچوں کو دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ ورنہ ضرور آتی۔

سلطانہ: کیوں خالہ جان نہیں ہیں، بچے انھیں سونپ دیتیں یا ساتھ لے کر آتیں!

شبانہ: ہاں میری ساس اپنے بڑے بیٹے کے گھر گئی ہیں۔ اب وہ آجائیں گی تو میں شادی میں ضرور شریک ہوںگی۔ ویسے چار چار بچوں کو گلے میں لٹکائے شادی بیاہ کی تقریب میں شرکت کا کیا مزہ ہے؟ خیر! چائے لوگی یا ٹھنڈا؟

سلطانہ: کچھ نہیں مجھے بہت سارے رقعے تقسیم کرنے ہیں۔ چلتی ہوں خدا حافظ!

شبانہ: خدا حافظ (سلطانہ چلی جاتی ہے، شبانہ گھر کے اند رجاتی ہے چند لمحوں بعد متین باہر سے آتا ہے)

متین احمد: (میز پر سے رقعہ اٹھا کر پڑھتا ہے۔ شبانہ آتی ہے) میں فریش (Fresh) ہوتا ہوں تب تک تم چائے بناؤ (جوتے اتارتا ہے)

شبانہ: اوئی اللہ! آخر آپ میرا جی جلانے پر ہی کیوں اتر آئے ہیں کیوں جی کیا ہوا، پھر آج بھی اکیلے ہی آگئے؟

متین احمد: مجھے امی سے واپسی کے لیے کہنے میں شرم آتی ہے۔

شبانہ: توبہ ہے! میں نے آج تک ایسا بیٹا نہیں دیکھا جو اپنی ماں کو مناکر واپس لانے کے لیے پس و پیش کرتا ہو۔

متین احمد: پر یہ تو بتاؤ بھاگیہ وان ! اچانک تم کو چند روز سے یہ امی کو واپس لانے کا دورہ کیوں پڑ رہا ہے؟ بتاؤ بات کیاہے؟

شبانہ: گھر گرہستی کی باتیں تم مرد کیا جانو؟ عورت شوہر کی تنخواہ میں کیسے گھر چلالیتی ہے، مردوں کو اس کا ذرا بھی پتہ نہیں چلتا۔ میرا برا حال ہورہا ہے اس کام میں۔ اب میں تمہاری تھوڑی سی تنخواہ میں گھر کا کرایہ، مہینہ بھر کا راشن پانی، دوا دارو، پھل پھلار، اسکولوں کی فیس، ٹیوٹر کا محنتانہ، لائٹ نل کا بل وغیرہ کا لمبا چوڑا خرچ۔ ماشاء اللہ چھوٹے بچوں کا گھر ہے اور ان سب سے اوپر تمہاری امی جان کی کمر کا درد، بی پی، شوگر وغیرہ کی دوائیں۔ اب ایک جز وقتی نوکرانی کو بھی رکھنا پڑگیا ہے۔ بچیاں آج چھوٹی ہیں کل بڑی ہوجائیں گی۔ ان کے لیے کہاں سے بچت کروں؟ میں نے محض چند دن کے لیے امی کو بھائی صاحب کے پاس چھوڑنے کو کہا تھا تو ایسا کیا غضب ہوگیا کہ ان کی واپسی کا تقاضا کرتے ہی طعن تشنہ کرنے لگتے ہو۔ (ساڑی کے پلو سے آنکھیں پوچھتی ہوئی) تم شوہر ہوکر ایسا کہتے ہو تو دل کٹ جاتا ہے۔ تم تو ایک دم غصہ میں آگئے۔ کیا اپنی بیوی کی باتوں کا کوئی اتنا برا مانتا ہے؟

متین احمد: نہیں، میری سمجھ میں یہ بات آج بھی نہیں آرہی ہے کہ تم امی کو پھر واپس لانے کا تقاضا کیوں کرنے لگیں ۔ (ہنس کر) لگتاہے کہیں تو کچھ ہے جس کی پردہ داری ہے۔

شبانہ: (چٹکی بجاکر) یہ بڑی باریکی کی بات ہے۔ جانتے ہو؟ روبینہ بھابی کو پیسوں کی کتنی بچت ہونے لگی ہے۔ اور وہ بڑے ٹھاٹ سے اپنے لوگوں میں گھوم پھر رہی ہیں اور میں دو مہینوں سے گھر کی چار دیواری میں قید ہوکر رہ گئی ہوں۔

متین احمد: میں نے تو تمہیں کہیں آنے جانے سے روکا نہیں! نہ کبھی پہلے نہ اب روکتا ہوں۔

شبانہ: ارے جب امی گھر میں تھیں تو ہم بچوں اور گھر کو ان پر چھوڑ کر بے فکری سے کہیں بھی آیا جایا کرتے تھے۔ اب بھلا چار چار بچوں کو لے کر سکون سے کہیں آنا جانا کیا خاک ہوگا؟

متین احمد: (چڑ کر طنز سے) اچھا! تو یوں کہو تم کو ماں نہیں بچے سنبھالنے والی آیا چاہیے۔

شبانہ: بات صرف بچوں کے سنبھالنے کی نہیں ہے۔ تمہیں معلوم ہے؟ امی کے وہاں جانے کے بعد سے روبینہ بھابی نے ہر ماہ بارہ سو روپئے کی بچت شروع کردی ہے۔ مجھے ان کی پڑوسن سے سب معلوم ہوا ہے، کیونکہ میں ہر بات کی خبر رکھتی ہوں۔

متین احمد: (حیرت سے) اچھا! وہ کیسے؟ امی کے جانے سے ان کی بچت کا کیا تعلق ہے؟

شبانہ: (جوش سے) بچوں کی آیا کی چھٹی کردی، عربی کے استاد کا آنا بند کردیا۔ امی بچوں کو عربی پڑھا لیتی ہیں، گھر میں جھاڑو پونچھا کرلیتی ہیں۔ برتن اور بچوں کے کپڑے بھی دھولیتی ہیں۔ جب سب ذمہ داریاں امی نے سنبھال لی ہیں تو نوکرانیوں کی تنخواہیں بچ جائیں گی کہ نہیں؟ اب اگر امی اپنے گھر لوٹ آئیں تو یہی سہولتیں پھر ہم کو ملنے لگیں گی۔ گھر میں ایک بھروسہ مند بڑا بوڑھا آدمی ہو تو کہیں بھی آؤ جاؤ نہ بچوں کی فکر نہ چوروں کا ڈر۔

متین احمد: ہوں! تو اب بلی تھیلے سے باہر آئی ہے۔ کیا امی پہلے ہمارے بچوں کی دیکھ بھال اور دوسرے کام نہیں کرتی تھیں؟ کبھی انھوں نے تم سے اپنی ان خدمات کا کوئی صلہ مانگا تھا۔ وہ تو اوپر سے اٹھتے بیٹھتے ہم کو اور ہمارے بچوں کو ہی ہر وقت دعائیں دیتی تھیں۔ اور تم اپنی جہالت میں ان کی دشمن بن بیٹھیں۔ اب جو کیا ہے اس کا خمیازہ بھی بھگتو۔ تمہیں کیا معلوم کہ بزرگ ہمارے حق میں رحمت ہوتے ہیں۔ اور ان سے دور ہوکر ہی ہمیں اس کا پتہ چلتا ہے۔

شبانہ: بس، اب جاکر امی کو لے آؤ۔ کل سے میں کپڑے دھونے والی اور ماما کی چھٹی کررہی ہوں۔ میں بھی ان کا ہاتھ بٹادیا کروں گی۔ آخر وہ تمہاری ماں ہیںنا!

متین احمد: تو تم کو گویا میری امی کو نہیں بلانا ہے بلکہ ایک ہمہ وقتی نوکرانی کو بلانا ہے۔ وہ بھی بغیر تنخواہ کے۔

شبانہ: طعنے کیوں دیتے ہو؟ جاؤ امی کو لے کر آؤ۔ گھر میں بیٹھے بیٹھے دو مہینوں سے دماغ ماؤف ہوگیا ہے اور وہاں ہماری جٹھانی صاحبہ جشن منارہی ہیں۔ امی گھر پر ہوتی تھیں تو ہم بھی آٹھ دس دن میں ایک بار کہیں گھوم پھر لیتے تھے۔ اب ذرا دیر باہر جانے سے خوف ہوتا ہے کہ گھر سے نکلے اور پتہ نہیں کب کیا ہوجائے۔ آئے دن اخباروں میں خبریں چھپتی رہتی ہیں، کہ چور ڈاکو دن دہاڑے اور رات اندھیرے بے کھٹکے اپنا ہنر دکھا رہے ہیں۔

متین احمد: تمہیں گھر میں چوری کا خدشہ تو ہے مگر بچوں کا کوئی خیال نہیں ہے۔

شبانہ: کیوں نہیں ہے، بچے تو میری جان ہیں۔ مگر آیاؤں سے بھی ڈر لگتا ہے۔ کیو ںکہ گھریلو ملازمین بچوں کو لے جاکر بیچ رہے ہیں۔ نگوڑی آیاؤں کا بھی اب کچھ بھروسہ نہیں۔ امی آجائیں تو آیا کو بھی برخاست کردوں گی۔ اب سمجھ میں آرہا ہے کہ بچوں کو دادی کے ہاتھ سے کھانے پینے کی عادت تھی اسی لیے سب دبلے دبلے دکھائی دیتے ہیں۔ دادی کے بے لوث پیار کو ترس رہے ہیں۔ تم چھوٹے بیٹے ہو، امی کو تم سے بہت پیار ہے اور ان پر تمہارا زیادہ حق ہے۔ بھابی بھلی بھی بن گئیں اور بارہ سو روپیہ بھی بچا رہی ہیں اور ہم بیوقوفوں کی طرح رشتہ داروں کی الزام تراشیاں سنیں کہ بے چاری بوڑھی ماں کو گھر سے نکال دیا۔

متین احمد: میری ہمت نہیں ہوتی امی کو بلانے جانے کی۔ جاتے وقت کیسی ڈبڈبائی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں وہ ہمارے روتے بلکتے بچوں کو!

شبانہ: ڈرتے کیوں ہو؟ اگر کہو تو چلو میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں، امی کو منانے۔ وہ میرا کہا نہیں ٹالیں گی۔ ایک بات اور سنو، امی کے علاج معالجہ پر چار پانچ سو ہر ماہ خرچ بھی ہوجائیں تو کوئی گھاٹا نہیں۔ نوکرانیوں کا خرچ بچ جائے گا۔ پھر بھی بچت رہے گی۔ امی آخر کو تمہاری ماں اور خاندان کی بزرگ ہیں۔ کھانے پینے کا کوئی مسئلہ نہیں۔ بچا کچا کھا کر گھر میں پالتو جانور بھی پل جاتے ہیں۔ امی تو آخر انسان ہی ہیں۔

رئیس احمد: (باہر سے آتا ہوا) السلام علیکم

متین اور شبانہ: وعلیکم السلام بھائی جان

رئیس احمد: حکم ہے کہ چھپ کر کسی کی باتیں نہ سنو، مگر میں نے آتے ہوئے رک کر تم دونوں معزز ہستیوں کی باتیں بہت دیر سے سنی ہیں۔ سنو شبانہ! تم کو یا متین میاں کو امی کی فکر کرنے کی یا ان کو واپس بلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ جہاں بھی ہیں الحمدللہ سر آنکھوں پر رکھی ہوئی ہیں تم لوگوں کی ان سے ہمدردی اور محبت میں کافی عرصہ سے دیکھ رہا تھا۔ امی کو تم نے جس حال میں رکھا تھا خدا سب سے پہلے تمہارا حساب لے گا۔ جو ہستی ہماری بزرگ اور زندگی کی متاعِ عزیز ہے۔ جس کے قدموں تلے ہماری جنت ہے، اس ہستی کی خوب قدر کی تم دونوں نے۔ کبھی سوچو کہ کل کو تمہارا بیٹا اپنی بیوی کے ورغلانے پر تم کو اسی طرح گھر سے نکال دے، یا شبانہ تمہاری بہو بھی تمہارے ساتھ وہی سلوک و برتاؤ کرے جو تم نے امی کے ساتھ کیا تھا، تو کیا تم کو اچھا لگے گا؟ مکافاتِ عالم سے ڈرتے رہو وقت کاپہیہ کبھی کبھی پلٹ کر آجاتا ہے۔

متین احمد: میں شر مندہ ہوں بھائی جان! میں امی کے پیر پکڑ کر اپنے تغافل و تجاہل کی معافی مانگوں گا۔

رئیس احمد: شبانہ تمہیں میری بیوی کے بارے میں اس طرح کی گھٹیا باتیں کس نے بتائیں؟ اوریہ بارہ سو کا چکر کس نے چلایا ہے؟ یا یہ سب تم نے دل سے گھڑ لی ہیں؟ یاد رکھو گندہ ذہن ہمیشہ گندی باتیں ہی سوچتا ہے۔

شبانہ: بھائی جان! آپ نے میری آنکھیں کھول دیں۔ میں اپنی اس غلطی پر توبہ کرکے آپ سے معافی مانگتی ہوں۔

رئیس احمد: تم دونوں میرے ساتھ چل کر امی سے معافی مانگو اور بچوں کو بھی ساتھ لے لو وہ بچوں کو دیکھ کر خوش ہوجائیں گی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146