اسلام دین فطرت ہے وہ رہبانیت اور ترک دنیا کی ستائش نہیں کرتا بلکہ دین و دنیا کے بیچ اعتدال سے زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ :’’اپنے اندر کے ان افراد کا، جو اپنا شریک زندگی نہ رکھتے ہوں، نیز اپنے ان غلاموں اور لونڈیوں کا، جو (نکاح) کے لائق ہوں، نکاح کردو۔‘‘(النور: ۳۲)
عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ رسول اللہؐ نے ہم کو حکم دیا:’’اے جوانوں کے گروہ! تم میں سے جو قدرت رکھتا ہو، وہ نکاح کرے اس لیے کہ نکاح نگاہوں کو نیچا کرتا ہے اور فرج (شرمگاہ) کا محافظ ہے۔ اور جو طاقت نہ رکھے وہ روزہ رکھے۔‘‘
ایک طویل حدیث کا حصہ ہے کہ: ’’نکاح میرا طریقہ ہے جو میرے طریقے سے ہٹا وہ میرے لوگوں میں سے نہیں۔‘‘
اسلام نکاح کے تین مقاصد بیان کرتا ہے:
(1) عصمت و اخلاق کا تحفظ جیسا کہ مذکورہ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے۔
(2)مرد و عورت کے لیے نئی زندگی کا سکون فراہم کرنا۔
(3) نسل انسانی کا تسلسل اور اس کی بقا۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اس رشتے کو اپنی خاص نشانی کے طور پر بیان فرماتا ہے:
وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْہَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۲۱
(الروم:۲۱)
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ یقینا اس میں بہت سے نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں۔‘‘
نکاح اسلامی معاشرتی زندگی کا اہم حصہ ہے اس لیے حضور پاک ﷺ نے اس تعلق سے واضح عملی ہدایات عطا فرمائی ہیں اور قرآن کریم نے اس کے متعلقات کو بہت واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔ نکاح کی حکمت سے لے کر طلاق، خلع ، عدت اور وراثت تک کے معاملات کو خوب اچھی طرح بیان کیا ہے۔
نکاح کے سلسلے میں سب سے پہلی بات اس کی سادگی اور کم خرچی آتی ہے۔ اس سلسلے میں حضورؐ نے فرمایا: سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جس خرچ اور زیر باری کے اعتبار سے سب سے بہتر ہوگا۔
اس سلسلے میں دوسری اہم بات جو رسول پاکؐ نے بتائی وہ لڑکی اور لڑکے کی رضا مندی ہے۔ اگرچہ ہندوستانی سماج میں روایتی طور پر اس پر عمل نہیں کیا جاتا، خصوصاً لڑکیوں کے معاملے میں تو بڑی کمزوری واقع ہوئی ہے مگر احادیث سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بہترین ازدواجی رشتے کے لیے دونوں کی رضا مندی اہم رول ادا کرتی ہے۔
نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: ’’بیوہ عورت کا اس وقت تک نکاح نہ کیا جائے جب تک اس سے صاف صاف زبان سے اجازت نہ لے لی جائے اسی طرح کنواری کا بھی نکاح نہ کیا جائے جب تک وہ اذن نہ دے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ وہ اذان کیونکر دے آپؐ نے فرمایا اس کا اذن یہی ہے کہ وہ سن کر چپ ہوجائے۔‘‘
دوسری حدیث میں فرمایا:
’’بیوہ عورت اپنے نکاح میں اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے اور کنواری سے اس کے نکاح میں اجازت لی جائے اور اجازت اس کا چپ رہنا ہے۔‘‘
ازدواجی زندگی کو مستحکم، پائیدار اور خوبصورت بنانے کے لیے شریعت اس بات کی پوری اجازت دیتی ہے کہ ہونے والے دولہا، دولہن ایک دوسرے کو دیکھ لیں۔ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے ایک عورت سے نسبت طے کی ۔آں حضرتؐ نے فرمایا:’’اسے دیکھ لو کیونکہ یہ تم دونوں کے درمیان موافقت پیدا کرنے کی بہتر صورت ہے۔‘‘
رشتہ کے انتخاب کی بنیاد
آپؐ نے فرمایا:
’’عورت سے لوگ چار اسباب سے نکاح کرتے ہیں یا مالداری کی وجہ سے یا حسب نسب کی وجہ سے یا خوبصورتی کی وجہ سے یا دینداری کی وجہ سے تو ایسا کر دیندار عورت کو اختیار کر ۔ اللہ تجھے خوش رکھے۔‘‘
’’جب کوئی ایسا شخص تمھارے یہاں نکاح کا پیغام دے جس کی دینداری اور اخلاق پسندیدہ ہوں تو اس کا اپنے یہاں رشتہ کردو، اگر ایسا نہ کروگے تو معاشرے میں فتنہ اور سخت بگاڑ برپا ہوجائے گا۔‘‘
ان احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حسب و نسب اور مال و دولت شادی کے لیے معیار ترجیح نہیں ہونے چاہیے بلکہ تقویٰ، پرہیزگاری اور دینداری کی بنیاد پر رشتے کو ترجیح دینا چاہیے۔خود آپؐ نے عملی طور پر بھی اس بات کو ثابت کردیا۔ آپؐ نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینبؓ کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ سے کیا جو کہ عہد جاہلیت کے معیار کے مطابق ہم پلہ نہیں تھا اسی طرح آپؐ نے اپنی چچازاد بہن کا نکاح مقداد بن اسود سے کیا جو غیر قریشی تھے اور دوسری روایت کی بناء پر حبشی غلام تھے۔ ان نکاحوں کے بارے میں آپؐ نے فرمایا:
’’مقداد اور زید کا نکاح اس لیے کردیا تاکہ ثابت ہوجائے کہ اللہ کے نزدیک وہی زیادہ عزت والا ہے جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں۔‘‘
’’پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دین و تقویٰ کے معاملے میں مرد کو عورت کے ہم پلہ ہونا چاہیے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے۔ پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔‘‘ ( النور: ۲۶)
چونکہ ازدواجی رشتہ زندگی بھر کے لیے ہوتا ہے تو ضروری ہے کہ ان اسباب و عوامل پر بھی نظر رکھی جائے جس سے دونوں کے درمیان مزاجی ہم آہنگی اور سماجی موافقت پیدا ہونے میں آسانی رہے۔ بسا اوقات طرز معاشرت کا بہت زیادہ فرق، رہن سہن کا علیحدہ انداز، تعلیمی و مالی حیثیت میں قابل لحاظ تفاوت وغیرہ جیسی چیزیں رشتۂ نکاح میں اختلاف کا باعث بن جاتی ہیں۔
نکاح سے پہلے کونسلنگ
رشتۂ نکاح کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ نکاح سے پہلے زوجین اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہوں۔ اس لئے بہتر ہے کہ نکاح سے پہلے لڑکے اور لڑکی دونوں کو آنے والی ذمہ داریوں، مسائل اور اسلامی نکتہء نظر سے واقف کرا دیا جائے تاکہ وہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ بر آنے کے لئے وہ خود کو تیار کر سکیں۔
بھلی زندگی بسر کرنا
اسلام نکاح کے بندھن کو مضبوط، پائیدار، مودت و رحمت سے بھرپور، باعث سکون اور مستحکم بنانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شادی میں لڑکے اور لڑکی کی مرضی کو اہمیت دیتا ہے۔ پائیداری اور دوام کے لیے وہ شادی سے پہلے ہونے والی دولہن کو دیکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام رشتۂ نکاح کو پختہ عہد و پیمان اور مضبوط ترین بندھن قرار دیتا ہے۔
اس ازدواجی بندھن کو بحسن و خوبی نبھانے کے لیے اللہ تعالیٰ دونوں پر کچھ حقوق اور ذمہ داریاں عائد کرتا ہے اور انھیں پورا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ساتھ ہی وہ اس رشتے کو خوشدلی، وسعت قلبی، غلطیوں، خطائوں اور خامیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے نبھانے کی تاکید کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ کے رسولؐ نے مردوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’کوئی مومن مرد کسی مومن عورت کو دشمن نہ رکھے۔ اگر اس کی ایک عادت ناپسند ہوگی تو دوسری پسند ہوگی۔‘‘
اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ مردوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ عورتوں کی کم زوریوں کو برداشت کریں۔ زندگی میں اکثر زوجین کے درمیان اختلاف ہوتا، غصہ ہوتا، لڑائی جھگڑا ہوتا لیکن ہر چیز کو وجہ بناکر اس مقدس بندھن کو توڑنا اسلام کی شان کے منانی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ حسن سلوک اور محبت کا رویہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے:
’’ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔‘‘ ( النساء:۱۹)
اسلام ازدواجی رشتے کو کس نظر سے دیکھتا ہے، وہ اس آیت کریمہ سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے:
ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ۰ۭ
(البقرہ: ۱۸۷)
’’وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔‘‘
لفظ ’لباس‘کی بہت خوبصورت وضاحت محمد کلیم نے اپنی کتاب عورت اور قرآن میں کی ہے:
’’1-جس طرح بدن کا پوشاک کے بغیر گزارہ نہیں اسی طرح میاں بیوی کا بھی ایک دوسرے کے بغیر گزارہ نہیں۔
2-جس طرح پوشاک موسم کی سختی کو روکتی ہے اسی طرح میاں بیوی مصائب کے مقابلے میں ایک دوسرے کی ڈھال ہیں۔
3-جس طرح بدن اور پوشاک کا بہت قریبی تعلق ہے اسی طرح میاں بیوی کا بھی قریبی تعلق ہے۔
4-پوشاک عزت و آبرو کی محافظ ہے۔ عریانی و بے حیائی سے بچاتی ہے اس طرح میاں بیوی بھی ایک دوسرے کی عزت و آبرو کے محافظ ہیں اور ایک دوسرے کو عریانی و بے حیائی سے بچاتے ہیں اور لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل نہیں ہونے دیتے۔
5- صاف ستھری اور دیدہ زیب پوشاک سے انسان کو فرحت حاصل ہوتی ہے اس طرح نیک اور تہذیب یافتہ میاں بیوی کو ایک دوسرے سے فرحت اور تسکین ملتی ہے۔‘‘
ان تفصیلات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نکاح شادی کے بعد زوجین کے اوپر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کے لئے دونوں کے درمیان مہر و محبت اور وفا و جفا کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ جتنا زیادہ ہوگا گھر اور آنے والی نسل کی پرورش و پرداخت اتنی ہی بہترین ہوگی۔ایک دوسرے کے جذبات واحساسات کا پاس و لحاظ کرنا ایک بنیادی قدر ہے ۔اس رشتے میں چاشنی اور محبت دوسرے رشتوں کے مقابلے میں زیادہ درکار ہے جس گھر میں شوہر بیوی کے درمیان یہ کیفیت نہیں ہو تو مارے باندھے کا رشتہ ہوتا ہے جس کا اثر آنے والی نسل کی تعلیم و تربیت پر بھی ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں!
https://hijabislami.in/6774/
https://hijabislami.in/6634/