گزشتہ دنوں ریاست چھتیس گڑھ کے راجنند گاؤں ضلع میں نکسلائٹس کے ایک حملے میں کم از کم۳۶؍افراد مارے گئے۔ یہ تمام افراد سیکوریٹی فورسیز سے تعلق رکھتے تھے۔ اس سے پہلے بھی مذکورہ ریاست میں نکسلی حملوں میں بہت سے سیکوریٹی فورسیز کے لوگ مارے جاچکے تھے۔ مگر یہ حملہ زیادہ شدید تھا اور اتنے بڑے جانی نقصان پر منتج ہوا ہے کہ اس نے پورے ملک کو ہلاک کر رکھ دیا ہے۔ ریاست کے پولیس افسران کا کہنا ہے کہ ریاست میں جنگ جیسی حالت پیدا ہوگئی ہے۔ اگر ریاستی پولیس کا یہ بیان مبالغہ پر مبنی نہیں تو یہ نہ صرف ریاست کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے اور وزارتِ داخلہ کو اس سلسلے میں پوری سنجیدگی کے ساتھ اس فتنے کو کچلنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ خاص طور پر ایسی صورت حال میںجبکہ معاملہ صرف کسی ایک ریاست کا نہیںبلکہ نکسلواد نے ملک کی کئی ریاستوں میں اپنی جڑیں گہری کرلی ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ دنوں مغربی بنگال کا لال گڑھ علاقہ قومی اخبارات کی سرخیوں میں رہا اس لیے کہ وہاں نکسلیوں نے پورے ضلع پر قبضہ کرلیاتھا اور باہر سے داخلے کے راستوں کو بند کردیا تھا۔ مجبوراً حکومت کو فوجی آپریشن کرنا پڑا جو ہنوز اختتام کو نہیںپہنچا ہے۔
اس وقت ملک کی کئی ریاستیں مغربی بنگال، بہار، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، اڑیسہ اور مہاراشٹر نکسلواد سے شدید طور سے متاثر ہیں۔ جبکہ آندھرا پردیش بھی اس کی زد میں رہا ہے اور یہ کہنا مشکل ہے کہ وہاں سے نکسلودا کا خاتمہ ہوگیا ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق سال ۲۰۰۹ء میں اب تک ۴۸۵ افراد نکسلی حملوں میں مارے جاچکے ہیں جن میں ۲۳۰ سیکوریٹی فورسیز سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ بہار، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ اور اڑیسہ وہ ریاستیں ہیں جہاں سے نکسلی حملوں کے جملہ واقعات کے ۸۲؍فیصد معاملات پیش آئے ہیں اور ہلاک شدگان کی ۷۷؍فیصد تعداد یہیں سے آتی ہے۔
مذکورہ ریاستوں پر پیر پھیلاتا نکسلواد اس بات کی علامت ہے کہ ریاستی حکومتیں اس فتنہ کا مقابلہ کرنے میں یا تو کوتاہی برت رہی ہیں یا پھر ناکام ہیں۔ اخباری رپورٹوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مختلف علاقوں میں نکسلیوں کی متوازی حکومت ہے اور ایسی بھی اطلاعات ہیں حکومت کے ترقیاتی فنڈس کا کم از کم نصف حصہ سرخ شدت پسندوں کے ہاتھوں میں پہنچ جاتا ہے۔ اگر اس بات میں کچھ بھی صداقت ہے تو یہ ایک سنگین صورتِ حال ہے۔
دہشت گردی کی طرح نکسلواد کا شکار بھی عوام ہی ہوتے ہیں۔ نکسلواد اس حیثیت سے عوام کے لیے اور زیادہ تکلیف دہ ہے کہ جن علاقوں میں نکسلوادیوں کی گرفت ہے وہاں پر وہ عوام کو ایک طرح سے یرغمال بنائے رہتے ہیں اور ان کے خوف کے سبب کوئی ان کے حکم سے سرتابی کی جرأت نہیں کرپاتا اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے یا ان لوگوں کو کسی پر اس بات کا شبہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ان کے بارے میں مخبری کرتا ہے یا ان کو نقصان پہنچاسکتا ہے تو وہ اسے اپنی اصطلاح کے مطابق ’’اوپر سے چھ انچ چھوٹا‘‘ کردیتے ہیں۔ ان عناصر کا دوسرا شکار تاجر طبقہ یا اہلِ ثروت ہوتے ہیں جن سے کبھی ڈرا دھمکا کر اور کبھی اغوا کرکے من مانی رقوم وصول کرتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں عوام کی زندگی مشکل اور اجیرن ہوجاتی ہے۔ وہ ہر وقت عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا رہتے ہیں اور اس سے نجات کی راہیں ان پر بند نظر آتی ہیں۔
نکسلواد بھی دہشت گردی ہی کی ایک شکل ہے۔اس کے حملوں میں جہاں پولیس اور سیکوریٹی فورسیز کے جوان مارے جاتے ہیں وہیں نہتے اور معصوم عوام بھی مرتے ہیں۔ مگر ابھی تک حکومت کی جانب سے اس عزم کا کچھ بھی نظر نہیں آتا جو دہشت گردی سے جنگ کے لیے نظر آتا ہے۔ دہشت گردی کے چھلاوے کے پیچھے بھاگنے والے آخر نکسلواد کو کیوں قابلِ توجہ تصور نہیں کرتے یہ حیرت ناک ہے۔
دہشت گردی اور نکسلواد کے خاتمے کے لیے جہاں حکومت کی جانب سے پُر عزم اور ٹھوس کوششوں کی ضرورت ہے وہیں اس کے اسباب و عوامل کا بھی پتہ لگانے اور انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ محض طاقت کے استعمال سے اس طرح کے عناصر کو وقتی طور پر دبایا تو جاسکتا ہے لیکن مکمل طور پر ختم کرنا دشوار ہوتا ہے۔