میںنے نئے سال کی دہلیز پر کھڑے شخص سے کہا:مجھے روشنی درکارہے تاکہ آنے والے موہوم ایام کو منورکرسکوں۔
اُس نے کہا:اپناہاتھ اللہ کے ہاتھ میںدے دو،وہ تمھیں منزلِ مقصودتک پہنچادے گا۔
وقت کے قافلے کے ساتھ چلتا مردِناداں، زِندگی کے ایک دوراہے پر کھڑاکبھی پیچھے کی طرف نظر دوڑاتا،تاکہ اس سفرمیںپیش آنے والی تکالیف اور تھکن کو ذہن میںتازہ کرسکے—پھر ایک نظرآگے کی طرف دیکھنے کی کوشش کرتا،تاکہ اندازہ لگائے کہ ابھی اورکتنے مراحل طے کرنے ہیں۔ اے صحرائے زِندگی میںحیران وسرگرداں بھٹکنے والے دوست!کب تک اس تاریکی و گمراہی کا شکار رہوگے،حالاںکہ تمہارے اپنے ہاتھ میںایک روشن چراغ موجودہے:
رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَیُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظّْلُمٰتِ اِلٰی النُّوْرِبِاِذْنِہٖ وَیَھْدِیْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ۔ (المائدہ۵:۱۶)
تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اورایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوںکو جو اس کی رضاکے طالب ہیں، سلامتی کے طریقے بتاتاہے اور اپنے اذن سے ان اندھیروںسے نکال کر اُجالے کی طرف لاتاہے اورراہِ راست کی طرف اُن کی رہنمائی کرتاہے۔
اے حیرانی اورتھکن سے چورلوگوکہ جن کے سامنے راستے گڈمڈہوچکے ہیں!اے گم کردہ راہ ۔
دیکھو،اللہ تمہارے کتناقریب ہے،عجب ہے کہ تمھیں اس کے قرب کا احساس ہی نہیں۔چشم ہوش سے دیکھو،اسے تم سے کتنی محبت ہے لیکن تمھیں اس کی محبت کی قدرہی نہیں۔تم پراس کی رحمتیں کتنی زیادہ ہیں اور تم ہو کہ خوابِ غفلت سے جاگتے ہی نہیں،سنووہ حدیث قدسی میں کیاکہتاہے:میرابندہ مجھ سے جو بھی گمان کرے میںاسی کے مطابق اس سے معاملہ کرتا ہوں،میں اپنے بندے کے گمان وخیال کے ساتھ ہوں۔جب بھی وہ مجھے یادکرتاہے،تومیںاس کے ساتھ ہوتاہوں۔وہ اگر مجھے اپنے دل میںیاد کرتاہے تو میں بھی اسے اپنے دل میںیادکرتاہوںاوراگرمجھے کسی جم غفیرمیںیادکرتاہے تو میںا س سے بہترجم غفیر میں اس کا ذکرکرتاہوں۔اگروہ میری طرف ایک بالشت بڑھتاہے تومیںاس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ بڑھتاہے تومیں دو ہاتھ بڑھتا ہوں۔ اگروہ میری طرف چل کر آتاہے تو میں اس کی طرف دوڑکرجاتاہوں۔
دیکھوکیافرمارہاہے:’’اے ابن آدم!میری طرف چل کر آمیں تیری طرف دوڑکرآئوںگا۔‘‘بے شک وہ رات کو ہاتھ پھیلاتاہے تاکہ دن کے گنہگار توبہ کرلیں اوردن کو ہاتھ پھیلاتاہے تاکہ رات کے گنہگار توبہ کرلیں۔وہ اِنسان پراس کی مہربان ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے۔’’بے شک اللہ لوگوںکے اوپر مہربان اوررحم کرنے والاہے۔‘‘(الحج۲۲:۶۵)
میرے پیارے بھائی!جس نے وقت کے حقوق پہچان لیے اس نے درحقیقت زِندگی کی قیمت پہچان لی،کیوںکہ وقت ہی توزِندگی ہے۔جب زِندگی کا پہیہ ہماری زندگی کے سفر کا ایک سال طے کرلیتاہے اورہم دوسرے سال کا اِستقبال کرنے میںلگ جاتے ہیں توہم عملاًایک دوراہے پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس فیصلہ کن گھڑی میںہمیں اپنے ماضی کا بھی محاسبہ کرنا ہے اورمستقبل کا بھی حساب لگانا ہوتاہے تاکہ کہیں حساب کی اصل گھڑی اچانک سرپہ نہ آجائے۔ وہ گھڑی جو یقینا آکررہنی ہے۔ماضی کا محاسبہ اس لیے تاکہ ہم اپنی غلطیوں پرنادم ہوں،اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کا تدارُک اوراپنی کج روی کو درست کریں کیوںکہ ابھی موقع بھی ہے اورفرصت بھی۔اورہمیں مستقبل کو بھی دیکھنا ہے،تاکہ اس کے لیے بھرپور تیاری کریں۔
یہ تیاری کیاہے؟پاک،صاف،سچادل،عمل صالح اورنیکی اورخیرکی طرف تیزی سے آگے بڑھنے کا عزم صادِق۔مومن ہمیشہ دونوں پہلوئوں سے فکرمند رہتاہے:ایک طرف تواُسے اپنے سابقہ عمل کے بارے میں دھڑکارہتاہے کہ پتانہیںمیرایہ عمل اللہ کے ہاں کیامقام پائے گا۔دوسری طرف باقی ماندہ مہلت کے بارے میں دل لرزتارہتاہے کہ نہ جانے اس کے بارے میںاللہ کا فیصلہ کیاہوگا۔لہٰذا،ہربندے کو خود اپنے آپ ہی سے اپنے لیے توشہ حاصل کرناہے،اپنی دُنیا سے اپنی آخرت تعمیرکرنی ہے۔بڑھاپے سے بھی پہلے موت سے بھی پہلے پہلے۔حبیب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں:
کوئی ایسادن طلوع نہیںہوتاجو پکارپکارکرنہ کہہ رہاہوکہ اے ابن آدم!میںلمحہ تازہ ہوں اورمیں تمہارے عمل پر گواہ ہوں،مجھ سے جو چاہو حاصل کرو، میںچلاگیاتوپھر قیامت تک دوبارہ نہیں آئوںگا۔
میںنئے سال کی مناسبت سے کچھ لکھنے بیٹھا تھا،میراخیال تھاکہ میںہجرتِ نبوی کی یادمیںکچھ لکھوں،اس کے کچھ واقعات سے دلوںکو گرمائوں لیکن میںبالکل دوسری سمت جانکلا۔میںاپنے ان بھائیوں کے ساتھ رازونیاز کرنے لگاجنھوںنے وقت کے حقوق ضائع کردئیے،جو زِندگی کے اصل راز سے غافل رہے۔صدافسوس کہ اُنھوںنے اس امتحان کو فراموش کردیاجس کے لیے ہم سب کو وجود ملا ہے۔
الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃ لِیَبْلُوَکُمْ اَیّْکم اَحْسَنُ عَمَلاً (ملک۶۷:۲)
’’تمہارارب وہی ہے جس نے موت اورزِندگی کو تخلیق کیاتاکہ تم لوگوں کوآزماکردیکھے کہ تم میںسے کون بہترعمل کرتاہے۔‘‘
میں کچھ اور لکھنے بیٹھا تھا لیکن میں نے اچانک خود کو اپنے محترم اورعزیزبھائیوںسے مخاطب پایا۔دل میںاُمیدپیداہوئی کہ اس طرح شیطان کے ہاتھ سے اپناہاتھ چھڑاتے ہوئے رحمن کی پناہ میں آجائیں، ہم سب رضائے خداوندی کے اس قافلے میں شریک ہوجائیں،جسے اس کی طرف سے مغفرت اور رضوان عطاہوتی ہے۔ہماری زِندگی کے رجسٹر میں، نئے محرم الحرام کا آغازایک نئے اورصاف وسفیدصفحے سے ہو۔اگرپچھلے صفحات گناہوںکی وجہ سے سیاہ پڑگئے تھے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے توبہ و اِستغفار کے ذریعہ نیکیوں میںتبدیل فرمادے: وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اوربرائیوں سے درگزر فرماتا ہے۔
حالاںکہ تم لوگوں کے سب اعمال کا اُسے علم ہے۔وہ ایمان لانے والوںاورنیک عمل کرنے والوں کی دُعاقبول کرتاہے اوراپنے فضل سے اُن کو اورزیادہ دیتاہے۔(الشوریٰ۲۵:۲۶)
آئیے دیکھیں ہم پرپروردِگار کی نگرانی کس قدرعظیم ہے:
ہم نے اِنسان کو پیداکیااورہم اس کے دل میںاُبھرنے والے وسوسوں تک کو جانتے ہیں،ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں اور (ہمارے اس براہِ راست علم کے علاوہ)دوکاتب اس کے دائیں اوربائیںبیٹھے ہرچیز ثبت کررہے ہیں۔
کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیںنکلتاجسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگر ان موجودنہ ہو۔
کیااُنھوںنے سمجھ رکھاہے کہ ہم اُن کی راز کی باتیں اوراُن کی سرگوشیاں سنتے نہیںہیں۔ہم سب کچھ سنتے ہیں اورہمارے فرشتے اُن کے پاس ہی لکھ رہے ہیں۔(الزخرف۴۳:۸۰)
آئیے دیکھیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا حساب کتنادقیق ہوگا۔
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍخَیْراًیَّرَہٗ۔وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍشَرّاًیَّرَہٗ۔(الزلزال۹۹:۷-۸)
’’جس نے ذرّہ برابرنیکی کی ہوگی،وہ اُس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابربدی کی ہوگی،وہ اُس کو دیکھ لے گا۔‘‘
(مجلہ الاخوان المسلمون محرم الحرام۱۳۶۸ھ، ۲؍نومبر۱۹۴۸ء)
——