نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے تازہ اعدادوشمار

مریم جمال

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) نے ۲۰۰۷ء کے جرائم کے متعلق جو اعدادوشمار مہیا کرائے ہیں ان میں چشم کشا اور حیرت و افسوس کی بات یہ ہے کہ بیورو نے تیزی سے بڑھنے والے جن دس جرائم کی فہرست تیار کی ہے ان میں سات جرائم وہ ہیں، جن کا تعلق خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم سے ہے۔ ان اعداد وشمار کی معلومات کے مطابق ملک میں آئی بی سی کے تحت قابلِ اعتنا سمجھے جانے والے جرائم میں اوسطاً ۵فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں خاصی تیز رفتار ’ترقی‘ نظر آتی ہے۔

اس سلسلہ میں سب سے زیادہ ’ترقی‘ جہیز کے سبب ہونے والی اموات نے کی ہے جس کے اضافہ کا فیصد ۱۵ رہا ہے۔ جبکہ شوہروں اور رشتہ داروں کے ذریعہ خواتین پر مظالم میں ۱۴؍فیصد، خواتین اور لڑکیوں کے اغوا کے واقعات میں ۱۳؍فیصد، لڑکیوں کو اغوا کرکے فروخت کردئے جانے میں ۱۲؍فیصد اور جنسی ہراسانی کے واقعات میں ۱۱؍فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ سب سے کم رفتار اضافہ چھیڑ چھاڑ اور زنا بالجبر کے جرم میں دیکھنے میں آتی ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے وہ ۶-۷ فیصد ہے۔

کسی بھی سماج کی فکری اور اخلاقی صحت متعین کرنے میں سماج میں ہونے والے جرائم کا خاص کردار ہوتا ہے۔ جس طرح ڈاکٹر مریض کی نبض دیکھ کر بیماری کا اندازہ لگاتا ہے اسی طرح ماہرین سماجیات جرائم کا تناسب اور اس کی نوعیت دیکھ کر سماج کو سمجھتے ہیں۔ ایک صحت مند سماج میں جرائم کی رفتار اور جرائم کا وقوع بہت معمولی ہوتا ہے۔ اور جو جرائم ہوتے ہیں ان میں مجرمین کو اگر واقعی سزا مل جائے تو مجرمین کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور سماج میں جرائم نہیں پنپنے پاتے۔ مگر ہمارے سماج کا حال دگرگوں ہے۔ اور اس طرح کے اعدادو شمار کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا سماج ٹی بی کے مریض کی طرح تیزی سے اپنی صحت کھورہا ہے۔ مریض تو پھر بھی مریض ہے اسے ڈاکٹر سے آس اور امید رہتی ہے مگر حکومتی نظام جو سماج کا طبیب ہوتا ہے وہ خود بیمار معلوم ہوتا ہے۔ این سی آر بی کے ذریعہ فراہم کردہ مزید معلومات بتاتی ہیں کہ ہمارے سماج میں جرائم کے فروغ کا اہم سبب حکومتی نظام کی پژمردگی اور کمزوری بھی ہے۔

چنانچہ مذکورہ ادارہ کے ذریعہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ دیگر جرائم کو چھوڑئیے صرف خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں تحقیقات، عدالتی چارہ جوئی اور مجرمین کو سزا ملنے کا عمل نہایت سست اور بوسیدہ ہے۔ اور یہ ایسے دور میں ہورہا ہے جب کہ دنیا بھر میں خواتین کی امپاورمنٹ، اقتدار میں شریک کرنے، معاشی خود کفالت، سیاست میں حصہ داری اور ان کے حقوق کا شور شرابہ ہے۔ دنیا بھر میںخواتین کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کی سماجی ترقی کے لیے قوانین بن رہے ہیں۔

ان حالات میں جب کہ ان کے خلاف طوفانی شکل اختیار کرتے جرائم سامنے آرہے ہیں۔ ان کی تحقیقات، مجرموں کو سزا دلانے اور ان کے تحفظ کی فکر کہیں نظر نہیں آتی ہے۔ این سی آر بی کے اعداد وشمار یقینا باشعور خواتین کے لیے مایوسی کا سبب ہوں گے جب ان کو معلوم ہوگا کہ ہمارے جرائم کے اس ریکارڈ میں جنسی ہراسانی کے دس میں سے صرف ایک ہی کیس کی تحقیق ہوسکی، چھیڑ خوانی اور شوہروں اور رشتہ داروں کے ذریعہ خواتین پر مظالم کے دس میں سے صرف دو کیس ہی تحقیقاتی ایجنسیوںکا مرکزِ توجہ بن سکے اور اسی طرح زنا بالجبر اور جہیز کے سبب اموات کے دس میں سے صرف تین کیس ہی تحقیق کے دائرے میں آسکے۔اب ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ جرائم کی صورتِ حال کیا ہے۔ دس میں سے ایک یا دس میں سے دو یا دس میں سے تین واقعات ہی جب تحقیقات کے دائرے میں آسکیں تو ہم تصور کرسکتے ہیں کہ کتنے جرائم کے واقعات ایسے ہوں گے جن کی لوگوں کو کان و کان خبر ہی نہیںلگ پاتی ہوگی۔ اس پر مزید یہ کیفیت کہ متاثرہ خاتون کو شکایت درج کرانے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ بلکہ اکثر اوقات انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر تھانے سے بھگادیاجاتا ہے۔ ایسے واقعات بھی آئے دن پیش آتے ہیں کہ ایک متاثرہ خاتون کو صرف ایف آئی آر درج کرانے کے لیے ڈی ایم یا ایس ڈی ایم کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ٹائمس آف انڈیا کی ایک رپورٹ اس سلسلہ میں حقیقتِ حال کو اجاگر کرتی ہے جس میں اس نے بتایا تھا کہ راجدھانی دہلی جیسے ترقی یافتہ شہر میں کیفیت یہ ہے کہ دہلی پولیس ۹۰؍فیصد معاملات میں ایف آئی آر ہی درج نہیں کرتی۔ اس طرح ایف آئی آر درج نہ کرکے پولیس جرائم کو کم کرتی ہے نہ کہ جرائم اور مجرمین پر کنٹرول کرکے۔

اس سے زیادہ تکلیف دہ صورتِ حال اس وقت سامنے آتی ہے جب ہم ان درج شدہ جرائم میں مجرمین کے ٹرائل اور سزا کا تناسب دیکھتے ہیں۔ مذکورہ ادارہ بتاتا ہے کہ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں سزا پانے والوں کا تناسب کسی بھی صورت 35.8 فیصد سے متجاوز نہیں ہے۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے ذریعہ جاری کردہ یہ اعداد و شمار پورے ملک میں بڑھتے جرائم اور خاص طور پر خواتین کے خلاف جرائم کی تیز رفتار ترقی کو ظاہر کرتے ہیں اور تشویشناک صورتِ حال پیش کرتے ہیں۔ جرائم کی یہ صورتِ حال جہاں اربابِ سیاست کو سنجیدہ کوششوں کی دعوت دیتے ہیں وہیں سیاسی، سماجی، مذہبی اور خواتین کی تحریکات سے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اس صورتِ حال کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور ایک طرف حکومتی اداروں، خاص طور پولیس کو ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے کے لیے مجبور کریں، دوسری طرف سماج میں جرائم کے خلاف بیداری اور انہیں روکنے کے لیے صف بندی کریں۔

کسی بھی سماج میں جرائم کا فروغ ایک اہم سماجی مسئلہ ہے اور اس مسئلہ کا حل بھی پورا سماج مل کر ہی نکال سکتا ہے۔ اگر سماج کے تمام طبقات اس کے خلاف متحدہ کوششیںکریں تو اس پر قابو پایا جاسکتا ہے اور کیونکہ جرائم کی کیفیت یہ بتاتی ہے کہ وہ سماج کے ایک حصہ خواتین کے خلاف زیادہ تیز رفتاری سے بڑھ رہے ہیں اس لیے سماج کے اس سب سے زیادہ متاثر حصہ کو اس پر خاص توجہ دینی ہوگی۔ اگر ہمارے سماج کی خواتین ان جرائم کی سنگینی کا ادراک کریں اور خواتین کو اس کے خلاف متحد کریں تو بڑا کام ہوگا۔ خواتین سماج کا نصف حصہ ہیں اور صورتِ حال کو تبدیل کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہیں مگر ان کے اندر اپنی قوت کا ادراک نہیں۔ اور جہاں جہاں انھوں نے بیداری کا ثبوت دیا ہے حالات بدلے ہیں۔ انھوں نے حکومت کی پالیسیوں کو بھی بدلنے پر مجبور کیا ہے اور انتظامیہ اور پولیس کو بھی اپنی روش درست کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوا اور ہوسکے گا جب وہ واقعی کچھ کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوں گی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146