نیند کے تاجر

ذہین شہزادی

بہت پرانی بات ہے کہ ایک سوتا ہوا گاؤں تھا۔ پوری دنیا میں یہ گاؤں خوابیدہ گاؤں کے نام سے مشہور تھا۔ اس گاؤں کے سارے لوگ بہت سست، کاہل اور نیند کے مارے ہوئے تھے۔ وہ اپنا سارا کام نہایت اطمینان اور سکون کے ساتھ آہستہ آہستہ کرتے تھے اور ہر وقت خاموش رہتے تھے۔ وہ لوگ اتنا سوتے تھے کہ دوسرے دیہاتوں کے لوگ اس گاؤں کو طنزیہ طور پر قیلولہ کہتے تھے۔ ہر روز خوابیدہ گاؤں کے لوگ تاخیر سے بیدhر ہوتے، جب ان کی آنکھ کھلتی تو سورج آدھا سفر طے کرچکا ہوتا اور یہ وقت صبح کے بجائے دوپہر کا ہوتا تھا۔ وہ شام کو سورج ڈوبتے ہی پھر سوجاتے اور ایک دوسرے سے کہتے کہ سورج دیر سے آتا ہے۔
خوابیدہ گاؤں کے تمام لوگ غریب تھے۔ کیوں کہ وہ سارا وقت تو سوتے رہتے تھے۔ گاؤں کی تمام دکانیں بہت جلد بند ہوجاتی تھیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ سوسکیں۔ اتنا زیادہ سونے کی وجہ سے نہ تو کبھی انھیں یہ معلوم ہوسکا کہ بارش ہوتی ہے تو کیسا موسم ہوتا ہے، تیز ہوائیں چلتی ہیں تو کیا ہوتا ہے اور اندھیرے میں یہ دنیا کیسی لگتی ہے۔ انھیں تو بس اپنی نیند سے مطلب تھا۔ ایک مرتبہ بڑا زبردست طوفان آیا مگر خوابیدہ گاؤں کے سب لوگ مزے سے سوتے رہے۔ طوفان کو یہ دیکھ کر شدید حیرانی ہوئی کہ اس کے آنے سے گاؤں میں کسی قسم کی کوئی ہلچل نہیں ہوئی۔ اس نے کھڑکی کی جھریوں میں سے ہوا کو اندر داخل کیا کہ وہ لوگوں کو جھنجھوڑ کر جگادے۔ ہوا نے گھروں کے اندر داخل ہوکر لوگوں کے پیروں میں گدگدی مچانا شروع کردی اور لوگ جاگ گئے۔ لوگ جاگ توگئے مگر یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ وہ زندگی میں پہلی مرتبہ آدھی رات کو کیوں اٹھ گئے ہیں۔ بعض نے تو دوبارہ سونے کی کوشش کی مگر ان کی پہلی کوشش ناکام ہوگئی۔ طوفان نے بادلوں سے گرج چمک کر ہر گھر کے اندر تک روشنی پھیلانے کی درخواست کی اور ہر گھر روشن ہوگیا۔ دوسری صبح لوگوں نے ایک دوسرے سے یہی کہا کہ شاید گزشتہ دن کا سورج رات کو دیر سے آیا تھا اس لیے رات کو روشنی پھیل گئی تھی۔ صبح طوفان تھم گیا تھا۔ دوپہر کو وہ لوگ دوبارہ تھوڑا سونے کے لیے لیٹے مگر نہ جانے کیوں کسی کو نیند نہیں آئی۔ وہ لوگ چوں کے بہت زیادہ سونے کے عادی تھے اس لیے نیند نہ آنے کی وجہ سے بہت بری تھک گئے اور ان کے جسم درد کرنے لگے۔ چنانچہ انھوں نے کام شروع کردیا اور زندگی میں پہلی مرتبہ انھوں نے تھوڑی زیادہ چیزیں فروخت کرلیں۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس رات جب طوفان آیا تھا تو طوفان ان کے گھروں میں گھس کر لمبے لمبے سانس لے کر ان سب لوگوں کی نیندیں چراکر فرار ہوگیا تھا۔ اسی وجہ سے ان کو نیند نہیں آرہی تھی۔ وہ سونے کی کوشش کرتے مگر ناکام رہتے۔ وہ سب لوگ جاگ جاگ کر تھک گئے اور بے حد پریشان ہوگئے تو ایک دن انھوں نے فیصلہ کیا کہ گاؤں کے بزرگوں کا ایک اجلاس بلایا جائے، سب بیٹھ کر غور کریں کہ ان کی نیند کہاں گئی۔ بزرگوں نے اجلاس میں بہت ساری باتوں کے بعد آخر کار فیصلہ کیا کہ نیند کے تاجر کو تلاش کیا جائے اور گاؤں کے لیے نیند خریدی جائے۔ چنانچہ اس کام کے لیے گاؤں کے سب سے موزوں ترین نوجوان کا انتخاب کیا گیا کہ وہ نیند کے تاجر کو تلاش کرکے لائے۔ نوجوان نے گاؤں کو پریشانی سے نجات دلانے کے لیے اپنا سفر شروع کردیا۔ ڈھونڈھتے ڈھونڈتے آخر وہ ایسے گاؤں سے گزرا جسے خواب گاؤں کہتے تھے۔ خواب گاؤں میں نوجوان کو نیند فروخت کرنے والی ایک بڑھیا مل ہی گئی۔ جس نے نیند کو رنگین غباروں میں بھر کر اپنی چھکڑا گاڑی سے باندھ رکھا تھا اور گاؤں گاؤں گھوم کر نیند فروخت کرتی تھی۔ نوجوان نے اس سے نیند خریدنا چاہی تو معلوم ہو کہ بڑھیا جو نیند فروخت کرتی ہے وہ گھنٹوں کے حساب سے ہوتی ہے اور اتنی مہنگی ہے کہ اس کے گاؤں کے لوگ خریدنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ انھیں نیند خریدنے کے لیے گھنٹوں کام کرنا پڑے گا، تب کہیں جاکر وہ چند گھنٹوں کی نیند خرید سکیں گے۔ نوجوان نے گاؤں واپس آکر ساری صورت حال بتادی۔ لوگوں نے یہ سن کر ایک نعرہ لگایا اور اندھا دھند کام میں جٹ گئے اور جلد ہی ان کے پاس اتنی دولت آگئی کہ وہ نیند کے غبارے خریدسکیں۔ ایک ایک کرکے لوگوں نے نیند کے غبارے خریدنا شروع کردیے، کچھ غبارے ایسے تھے جن میں نیند کے ساتھ خواب بھی بھرے ہوئے تھے۔ خوابیدہ گاؤں کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ یہ غبارے صرف بچوں کو دیے جائیں گے تاکہ وہ اچھے اچھے خواب دیکھ سکیں اور لمبی نیند کے غبارے نوجوانوں کے لیے ہوں گے تاکہ وہ زیادہ نہ سوئیں اور کام کرکے مزید غبارے خرید سکیں۔ انھوں نے بہت سارے غبارے خرید لیے اور پھر ایک ہفتے بعد سب اطمینان اور سکون کی نیند سوگئے۔ دوسرے دن بے شمار لوگ صبح ہی صبح اٹھ گئے کیونکہ ان کے پاس اتنی ہی نیند کے غبارے تھے۔ بوڑھے لوگ دیر تک سوتے رہے اور تمام بچوں نے ساری رات خوب رنگین رنگین خواب دیکھے۔ اس دن نوجوانوں نے دن بھر کام کیا اور پھر نیند خریدی۔ اس طرح کچھ ہی دنوں میں گاؤں کے تمام لوگ خوب چاق و چوبند اور پھرتیلے ہوگئے…
اب اس گاؤں کا نام تبدیل ہوچکا ہے۔ لوگ اس گاؤں کو خوابیدہ گاؤں کے بجائے ’’زندہ گاؤں‘‘ کہتے ہیں۔ اب لوگ صبح اٹھتے ہیں تو ایک دوسرے سے کہتے ہیں ’’سورج جلدی آجاتا ہے اور دیر سے جاتا ہے اس لیے ہم دن بھر کام کرتے ہیں اور خوب گہری نیند سوتے ہیں۔‘‘
The Sleep Seller, by: Sharon Tregenza
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146