میں حقائق کی دنیا میں رہنے والا آدمی ہوں اور خوابوں پر مجھے کبھی یقین نہیں رہا۔ خواب نہ دیکھتا ہوں نہ سنتا ہوں نہ انھیں اہمیت دیتا ہوں۔ گو کہ کچھ خواب ایسے بھی تھے جو اللہ تعالیٰ نے عین میری خواہش کے مطابق پورے کردیے تاہم یہ جاگتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خواب تھے۔ جن کی تعبیر بھی مجھے ملی اور حیران کن طور پر مکمل تعبیر ملی۔ جہاں تک سوتے میں دیکھے جانے والے خوابوں کا تعلق ہے تو وہ نہ میں نے دیکھے نہ ان پر اعتبار کیا۔
کئی سال ہوئے مجھے گھٹنے کی تکلیف رہنے لگی۔ درد اتنا بڑھ گیا کہ نماز پڑھنے میں دشواری ہونے لگی۔ میں مسجد شان اسلام جاتا تو وہاں پر ایک موڑھا پڑا ہوتا۔ وہ کبھی مجھے مل جاتا۔ جب کبھی وہ کسی دوسرے کے کام آرہا ہوتا تو میں بہت تنگی میں نماز ادا کرتا۔ میں نے سوچا کہ میرے جیسے کوئی اور بھی تو ہوسکتے ہیں، ان کے لیے مزید موڑھے ہونے چاہئیں تاکہ ضرورت مند نمازی استعمال کیا کریں۔ مجھے اپنی حیثیت اور حالت کا بخوبی علم ہے۔ میاں نعیم صاحب کی طرح بڑی بڑی نیکیاں اور عظیم کام نہیں کر سکتا۔ چناں چہ چھوٹے موٹے کام جن پر نیکی کا گمان ہوسکتا ہے، میں بڑے شوق سے کر لیتا ہوں اور پھر متمنی رہتا ہوں کہ خالق کی نظر میں وہی نیکی شمار ہوجائے۔ اس کے ہاں جو کام اور جو نیکی قبولیت کا شرف پالے، وہی اصل میں کامیابی ہے اور وہی بڑا کام ہے۔
موڑھوں کا خیال لیے میں بازار سے چھ موڑھے خرید لایا۔ ان پر غلاف چڑھائے، ایک گھر میں رکھا اور پانچ مسجد میں رکھ دیے۔ ہم انسان بڑے کاروباری واقع ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے بھی حساب کتاب اور لین دین کرتے رہتے ہیں۔ اس کی خوشی اور رضا کی خاطر کوئی کام کریں تو ساتھ میں اپنی کوئی شرط، کوئی فرمائش، کوئی ضرورت بھی نتھی کردینے سے نہیں جھجکتے۔ میں نے موڑھے مسجد میں رکھے اور دل میں دعا کی ’’یا اللہ! ان موڑھوں کو مسجد میں رکھنے کا ثواب میری بیوی ممتاز کو پہنچا دینا۔‘‘ وہ کچھ عرصہ قبل فوت ہوگئی تھی۔ (مہربانی ہوگی)۔
اس واقعہ کے ایک سال بعد جب کہ میں موڑھوں کی خریداری اور خدا سے اپنی فرمائش بھول بھال چکا تھا، میری بیٹی نادیہ کویت سے آئی۔ اس نے گھر میں پڑا ہوا موڑھا دیکھا تو ایک دن پوچھنے لگیَ ’’ابو! یہ موڑھا کس کا ہے؟ مسجد سے لائے ہیں کیا؟‘‘ میں نے اسے بتایا کہ یہ موڑھا تو اپنا ہے، مسجد کے لیے میں الگ سے لایا تھا، وہ مسجد میں رکھ دیے۔ یہ ایک گھر میں رہنے دیا۔ اس پر اس کو کچھ یاد آگیا اور وہ بتانے لگی کہ اس کی سہیلی نائلہ نے اسے کویت سے خط لکھا تھا اور اس میں لکھا کہ میں نے آپ کی امی کو خواب میں دیکھا ہے۔ میں نے پوچھا: ’’آنٹی، کیسی ہیں؟‘‘ اس کا جواب انھوں نے یہ دیا کہ ’’ٹھیک ہوں۔ جب سے تمہارے انکل نے موڑھے لاکر دیے ہیں مجھے بیٹھنے میں بڑی سہولت ہے۔‘‘ مجھے اپنی بیٹی پر کبھی اتنا غصہ نہیں آیا تھا اور نہ میں نے اسے کبھی ڈانٹا تھا لیکن اس وقت غصے، حیرت اور بے یقینی کے عالم میں، میں نے اسے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا: ’’تم عورتوں کے یہ ڈرامے اور ڈھکوسلے ہوتے ہیں، کسی بھی بات کو خواب بنا کر سنا دیا۔ جیسا دل چاہا خواب بنا لیا۔‘‘ وہ حیرانی کے ساتھ وضاحت کرنے لگی، ’’نہیں تو ابو! نائلہ نے یہ سارا کچھ مجھے خط میں لکھا تھا۔ میں نے یقین نہ کرتے ہوئے کہا: ’’نائلہ کا نمبر ملاؤ، اس سے میری بات کراؤ۔ اس نے رسیور اٹھایا اور میری بات کرائی۔ میں نے اس سے پوچھا: ’’میں یہ کیا سن رہا ہوں؟ تم نے اپنی آنٹی کے بارے میں کیا کہا تھا نائلہ سے!‘‘ اس نے کہا: انکل، میں خواب میں آپ کے گھر جاتی ہوں۔ وہاں آنٹی ملی، میں نے پوچھا کیا حال ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں ٹھیک ہوں، جب سے تمہارے انکل نے موڑھے لاکر دیے ہیں، بیٹھنے میں بڑا آرام ہے۔
میری عمر اللہ کے فضل سے اب اسّی سال سے زیادہ ہے اور یہ واقعہ میری اہلیہ کے فوت ہونے کے چار سال بعد پیش آیا۔ مسجد میں موڑھے رکھتے ہوئے میری جو نیت تھی، خدا گواہ ہے وہ صرف میرے دل میں تھی۔ کسی سے ذکر تک نہ کیا تھا۔ اتنی سی بات کا بھلا ذکر بھی کیا کرتا؟ مگر قربان جاؤں اپنے خالق اور مالک کے، وہ ایک معمولی موڑھے کی نیت اور نیکی بھی ضائع نہیں کرتا! تب بھی حیرت زدہ تھا اور آج بھی قادر المطلق کی شان پر حیران ہوں۔ وہ سچ کہتا ہے اپنی کتاب میں کہ ذرا بھر نیکی بھی ضائع نہیں جانے دیتا۔lll