نیکی کر دریا میں ڈال

ڈاکٹر سمیر یونس ترجمہ:ادارہ

ایک قصہ ابن جوزی نے اپنی کتاب ’المنتظم‘ میں بیان کیا ہے:ایک روز ابنِ فرات اس تاک میں تھا کہ ابو جعفر بسطامی کو تکلیف اور نقصان پہنچائے۔ لیکن اس کی تمام کوشوں کا یہ انجام ہوا کہ خود اسے ہی شدید نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔ جب ابو جعفر چھوٹا تھا تو اس کی ماں کا یہ معمول تھا کہ وہ روٹی کا ایک ٹکڑاروز رات کو اس کے تکیے کے نیچے رکھ دیتی اور صبح کو اس ٹکڑے کو اپنے بیٹے ابو جعفر کے نام سے صدقہ کر دیا کرتی۔ابو جعفر کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے کے کچھ دنوں بعد ابو جعفر کو کسی سلسلے میں ابن فرات سے کوئی کام پڑا تو وہ ابن فرات کے پاس آیا۔ابن فرات نے اس سے پوچھا : ’’تمھاری ماں اورروٹی کے ٹکڑے کا کیا قصہ ہے؟‘‘ابو جعفر نے کہا: ’’کوئی قصہ نہیں۔‘‘ ابن فرات نے کہا: ’’دراصل کل میں تمھارے خلاف ایسی سازش کرتا رہا کہ اگر وہ پوری ہوجاتی تو میں تمھارا خاتمہ ہی کردیتا۔ اس کے بعد میں سو گیا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک ننگی تلوار ہے۔ میں اس تلوار سے قتل کرنے کے لیے تمھاری طرف بڑھا تو تمھاری ماں ایک ہاتھ میں روٹی کو ڈھال بنائے میرے سامنے آگئی، جس کی وجہ سے میں تم تک نہیں پہنچ سکا اور پھر میری آنکھ کھل گئی۔‘‘
یہ سن کر ابو جعفر نے اس کی سرزنش کی اور پھر اپنی طرف سے اس بات کی پوری کوشش کی اسے کوئی شکایت نہ ہو یہاں تک کہ بعد میں دونوں گہرے دوست بن گئے تو ابن فرات نے کہا: ’’اب کبھی تم کو مجھ سے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔‘‘
انبیا کے افعال خیر
ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ کا لقب ان کے بھلائی کے کاموں کی وجہ سے ملا تھا۔بیہقی کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام سے پوچھا : ’’اے جبریل! اللہ نے ابراہیم ؑ کو اپنا خلیل کیوں بنایا؟‘‘ جبریلؑ نے جواب دیا: ’’اے محمد ؐ! اس لیے کہ وہ لوگوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے۔‘‘ (بروایت عبداللہ بن عمرو)۔
موسی علیہ السلام کا واقعہ تو خود قرآن نے بیان کیا ہے: ’’جب وہ مدین کے کنویں کے پاس پہنچے تو وہاں کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ۔۔۔۔۔۔‘‘(القصص: ۲۳-۲۴)
عیسی علیہ السلام کی زبان سے خود قرآن نے یہ بات نقل کی ہے: ’’ (عیسیؑ نے) کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا۔ ( مریم: ۳۰-۳۲)
ابو نعیم اور دوسرے اصحاب نے وجعلنی مبارکاً کی تفسیر میں اللہ کے رسول ؐ کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’یعنی مجھے تمام لوگوں کے لیے نفع پہنچانے والے بنایا۔‘‘
یہی حال ہمارے رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ ایک بار عبد اللہ بن شقیق نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ کیا کبھی اللہ کے رسول ﷺ بیٹھ کر بھی نماز پڑھا کرتے تھے؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا کہ ہاں، اس وقت جب کہ لوگ اپنی ضروریات کے سلسلے میں آپؐ کو بہت تھکا دیا کرتے تھے۔‘‘ عبد اللہ بن جعفر ؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ ایک روز ایک انصاری کے باغ میں تشریف لائے تو آپ کی نظر ایک اونٹ پر پڑی۔ جب آپ نے اس اونٹ کو دیکھا تو کراہا اور اور اس کی آنکھ سے آنسو گرنے لگے۔اللہ کے رسولﷺ اس اونٹ کے قریب گئے اور اس کی آنکھ پونچھی تو وہ چپ ہوگیا۔پھر آپؐ نے پوچھا کہ ’’اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ یہ اونٹ کس کا ہے؟ ‘‘ایک انصاری نوجوان آگے آیا اور بولا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! یہ اونٹ میرا ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’ کیا تمھیں اس جانور کے سلسلے میں اللہ سے ڈر نہیں لگتا جسے اللہ نے تمھاری ملکیت میں دیا ہے؟ اس جانور نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور طاقت سے زیادہ بوجھ اس پر لادتے ہو۔‘‘(ابو دائود)
اسلاف کے نمونے
خیر وبھلائی کے میدان میں ہمارے اسلاف کا قد بہت بڑا ہے۔ وہ لوگ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں آگے آگے رہتے تھے اور مقصد ان کا ہوتا تھا کہ اللہ تعالی ان سے خوش ہوجائے۔چنانچہ انھوں نے ہمارے لیے بڑی عمدہ مثالیں چھوڑی ہیں۔
انفاق اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا ذکر آئے تو حضرت ابو بکر صدیقؓ ، حضرت عثمانؓ ، حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ، اور عبدالرحمن بن عوف وغیرہ جیسے جلیل القدر صحابہ اور صحابیات کا ذکر لازما آئے گا۔
چنانچہ حضرت ابو بکر کا واقعہ ملاحظہ کیجیے کہ آپ خلیفہ بنا دئے جانے کے بعد ایک گھر میں روز جایا کرتے تھے۔ اس گھر میں ایک بوڑھی عورت رہتی تھی جو نابینا تھی۔ حضرت ابوبکر ؓ اس بوڑھی عورت کے لیے کھانا بناتے اور اس کے گھر میں جھاڑو لگاتے۔لیکن اس عورت کو یہ نہیں معلوم تھا کہ اس کے گھر آنے والا یہ شخص کتنی بڑی ہستی کا مالک ہے۔حضرت عمر ؓ بھی یہ کوشش کرتے تھے کہ وہ ان سے پہلے پہنچ کر اس عورت کے کام کر دیا کریں۔(اسد الغابۃ/۳/۳۲۷)
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کاندھوں پر خلافت کا بوجھ آیا تو وہ اپنی رعایا کا حال معلوم کرنے کے لیے گھر سے نکلے تو انھیں ایک بیوہ عورت اور اس کے بچے نظر آئے جو بھوک سے بلک رہے تھے۔ حضرت عمر فوراً بیت المال میں آئے اور اپنے کندھے پر غلّے کی بوری لاد کر اس عورت کے پاس لے گئے۔ نہ صرف یہ بلکہ بچوں کے لیے کھانا خود سے تیار کیااور جب تک بچے کھانا کھاکر کھیلنے کودنے نہیں لگے اس وقت تک ان کے پاس ہی رہے۔(الریاض النضرۃ: ۱/۳۸۵)
خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان ؓ کی شفقت ورعایت کا یہ حال تھا کہ مسلمانوں کے خلیفہ ہونے کے باوجود اور انتہائی بوڑھے ہوجانے کے باوجود رات کو عبادت کے لیے اٹھتے تو خود سے وضو کے لیے پانی لاتے۔کسی نے کہا کہ اگر آپ خادم کو حکم دے دیں تو وہ آپ کے لیے پانی کا انتظام کردے گا۔لیکن حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: ’’نہیں، رات میں انھیں بھی آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
امیر المومنین حضرت معاویہ بن ابی سفیان نے ام المومنین حضرت عائشہؓ کے لیے ایک لاکھ درہم بھجوائے۔ لیکن حضرت عائشہؓ نے اسی دن وہ تمام رقم خیرات کردی اور ایک درہم بھی اپنے پاس نہیں رکھا۔ان کی خادمہ نے عرض کیا: آپ نے تو ایک درہم بھی نہیں چھوڑا کہ اس سے گوشت خرید لیتے اور آپ گوشت تناول فرماتیں؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ’’اگر تم مجھے یاد دلادیتی تو میں ایک دینار بچا لیتی۔‘‘(البدایۃ والنہایۃ: /۱۳۶-۱۳۷)
علی زین العابدین مدینہ میں رہتے تھے۔لیکن مدینہ کے کچھ لوگ ایسے تھے جنھیں یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کی ضروریات زندگی کا انتظام کون کرتا ہے۔ جب آپ کا انتقال ہوا تو ان کو معلوم ہوا کہ آپ ہی تھے جو رات میں ان کے لیے یہ چیزیں لایا کرتے تھے۔اور جب اہل مدینہ نے انھیں غسل دیا تو معلوم ہوا کہ بیوائوں کے گھروں تک رات کے اندھیرے میں اپنے کندھے پر سامان لاد کر لانے کی وجہ سے ان کی پیٹھ پر نشانات پڑ گئے تھے۔(سیر اعلام النبلاء ۴/۳۹۳)
عبد اللہ بن مبارک کا یہ معمول تھا کہ وہ اپنا مال فقہا پر خرچ کیا کرتے تھے۔ اہل ’مرو‘ میں سے کوئی شخص حج کا ارادہ کرتا تو اس کا خرچ ابن مبارک ہی برداشت کرتے تھے۔اسی طرح مقروض کا قرض بھی آپ ہی ادا کرتے لیکن قرض دار پر یہ شرط لگا دیتے کہ شہر کے کسی آدمی کو بھی یہ پتہ نہ چلنا چاہیے کہ قرض کی ادائیگی ابن مبارک نے کی ہے۔(سیر اعلام النبلاء ۸/۳۸۶)
حضرت اویس قرنی کا تو یہ حال تھا کہ شام ہوتے ہی گھر میں ضرورت سے بچا ہوا کھانا یا کپڑا خیرات کردیا کرتے اور پھر دعا کرتے کہ ’’اے اللہ! کوئی شخص بھوک سے مر گیا ہو تو اس پر میری پکڑ نہ کرنا اور اگر کوئی بنا کپڑے کے دنیا سے چلا گیا ہو تو اس پر بھی مجھ سے مواخذہ نہ کرنا۔‘‘(صفۃ الصفوۃ : ۳/۲۷)
فضیل بن عیاض کہا کرتے تھے کہ نیکی تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص آپ سے کوئی چیز لے تو تم اس کو اپنا محسن سمجھو۔ کیوں کہ اگر وہ آپ سے کوئی چیز نہ لیتا تو آپ کو ثواب کمانے کا موقع نہ ملتا۔اور اس لیے بھی کہ اس نے خاص طور سے آپ کو ہی اس لائق سمجھا کہ اپنی ضرورت آپ سے بیان کرے اورکسی اور کی بہ نسبت اسے آپ کے اندر خیر اور بھلائی نظر آئی۔‘‘(تنبیہہ المغتربین: ۱۳۷)
سفیان بن عیینہ کے پاس ایک مقروض شخص آیا اور آپ سے مدد کی درخواست کی۔آپ نے اس کی مدد کردی اس کے بعد آپ رونے لگے۔آپ کی بیوی نے پوچھا: آپ رو کیوں رہے ہیں؟ تو فرمایا: ’’میں رو اس لیے رہا ہوں کہ میرا ایک بھائی ضرورت مند تھا لیکن مجھے اس کی ضرورت کا پتہ جب چلا جب وہ خود میرے پاس مدد مانگنے آیا۔‘‘ اسی طرح ابن جریج کے پاس ایک سائل آیا۔ ابن جریج نے اپنے خازن سے کہا کہ اس کو ایک دینار دے دو۔خازن نے کہا کہ میرے پاس ایک ہی دینار ہے۔ اگر وہ بھی دے دیا تو آپ اور آپ کے گھر والے بھوکے رہ جائیں گے۔ ابن جریج کو غصہ آگیا اور بولے: ’’وہ دینار اس کو دے دو۔‘‘ تبھی ایک شخص آگیا جس کے ایک ہاتھ میں ایک خط اور ایک تھیلی تھی۔یہ دونوں چیزیں ابن جریج کے بھائی نے ان کے پاس بھیجی تھیں۔خط میں تحریر تھا : ’’میں پچاس دینار بھیج رہا ہوں۔‘‘ ابن جریج نے تھیلی کھول کر دینار گنے تو وہ پچاس کے بجائے اکیاون دینار تھے۔ابن جریج نے اپنے خازن سے کہا: ’’تم نے ایک دینار سائل کو دے دیا تھا ۔ اللہ تعالی نے وہ دینار واپس کر دیا اور اس کے ساتھ پچاس دینار مزید عطا کردیے۔‘‘
مصر سے ایک مشہور اخبار شائع ہوتا تھا جس کا نام ’الاخبار ‘ تھا۔ اس کے ایڈیٹر اپنے زمانے کے معروف صحافی مصطفی امین تھے۔۱۹۶۵ء میں انھیں قید کردیا گیا۔ قید کے دوران ان کے خلاف یہ فیصلہ سنایا گیا کہ ان تک کھانے پینے کی کوئی چیز نہ پہنچنے دی جائے۔مقصد یہ تھا انھیں اپنا موقف بدلنے پرکسی بھی طرح مجبور کر دیا جائے۔انتہائی سخت گرمی کا موسم تھا۔ گرمی کی وجہ سے انھیں سخت پیاس لگ رہی تھی۔ شوگر کے مریض بھی تھے۔ اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ شوگر کے مریض کو پانی یا مائع (liquids)کی زیادہ مقدار میں ضرورت ہوتی ہے۔پہلے روز تو انھوں نے اپنی پیاس استنجا کے لوٹے میں رکھے ہوئے پانی سے بجھا لی۔لیکن اگلے روز دیکھا تو وہ لوٹا بھی خالی تھا۔دراصل جیل کے لوگوں کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ انھوں نے اس میں سے پانی پیا ہے۔ مجبور ہو کر اگلے روز انھیں خود اپنا پیشاب پینا پڑا۔تیسرے روز وہ بھی نہیں رہا۔پانی نہ ملنے کی وجہ سے وہ کسی پاگل کی طرح اپنے بیرک میں ادھر سے ادھر دوڑ رہے تھے ۔ اچانک انھوں نے دیکھا کہ آہستہ سے جیل کا دروازہ کھلا۔ پھر انھیں دروازے میں سے ایک ہاتھ اندر آتا دکھائی دیاجس میں پانی کا ایک پیالہ تھا اور وہ ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔شروع میں تو انھوں نے اسے خواب سمجھا۔ پھر انھیں خیال ہوا کہ شوگر کی وجہ سے ان پر ہذیان کی کیفیت طاری ہوگئی ہے جو انھیں دروازے سے پیالہ آتا نظر آرہا ہے۔لیکن پھر انھوں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر پیالے کو چھوا تو محسوس کیا کہ واقعتاً وہ ٹھنڈے پانی کا پیالہ ہے۔پھر ایک دم اس شخص نے وہ پیالہ مصطفی امین کے منہ سے لگا دیا اور ساتھ ہی اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس بات کا اشارہ کیا کہ خاموش رہیں ، کچھ بولیں نہیں تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے۔
مصطفی امین نے جلدی سے پانی پی لیا۔اس پانی کے بارے میں ان کا احساس تھا کہ اپنی زندگی میں اس سے زیادہ لذیذ پانی ان کو کبھی محسوس نہیں ہوا تھا جتنا وہ پانی محسوس ہوا تھا۔پانی پلاتے ہی وہ نامعلوم سنتری جس نے پانی پلایا تھا تیزی سے غائب ہوگیا۔ لیکن پانی پینے کے دوران مصطفی امین نے اس شخص کے خد وخال کو ذہین نشین کر لیا تھا۔ اگلے دن جب وہ چہل قدمی کے لیے بیرک سے باہر نکلے تو ان کی نظر اسی شخص پر پڑی جسے دیکھتے ہی انھوں نے پہچان لیا اور تیزی سے اس کی طرف دوڑے اور اس سے پوچھا کہ تم نے اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا ؟ اگر کوئی تم کو دیکھ لیتا تو تمھیں گرفتار کرکے نوکری سے نکال بھی سکتے تھے۔سنتری نے کہا: بلکہ اگر جیل کا کوئی کارندہ مجھے دیکھ لیتا تو مجھے گولی مار دی جاتی۔’اس کے باوجود تم نے میرے ساتھ یہ احسان کیوں کیا؟‘ مصطفی امین نے اس سے پوچھا۔ سنتری نے جواب دیا: ’میں آپ کو جانتا ہوں۔ لیکن آپ مجھے نہیں جانتے ۔۔۔تقریباً نو سال پہلے۔۔۔ایک کسان نے آپ کے پاس ایک خط بھیجا تھا۔ اس خط میں اس نے لکھا تھا کہ وہ ایک گائوں میں رہتا ہے اور وہ ایک بھینس خریدنا چاہتا ہے تاکہ اس کے ذریعے اس کی اور اس کے گھر والوں کی روزی روٹی کا انتظام ہو سکے۔اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ اس نے تقریباً سات برس تک اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر کچھ پیسے جمع کیے تھے اور اپنی بیوی کے زیورات بھی بیچ دیے تھے۔ پھراس رقم سے اس نے ایک بھینس خریدی تھی لیکن چند دن کے بعد ہی وہ بھینس مر گئی۔ کسان نے آپ کے پاس اپنا پورا قصہ لکھنے کے بعد آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ اسے ایک بھینس دلا دیں۔ کچھ دنوں کے بعد کسان کے چھوٹے سے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ کسان نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ آپ کے اخبار کی ایک رپورٹر بھینس لیے کھڑی ہے جو آپ نے کسان کے لیے بھجوائی تھی۔وہ کسان جس کے لیے آپ نے بھینس تحفتہً بھجوائی دی وہ میرے والد تھے۔‘
اسی طرح کا واقعہ سعودی عرب کے شہر ریاض کے ایک نوجوان نے اس طرح بیان کیا: ’میرے والد ایک دن اپنی گاڑی سے دمام جا رہے تھے۔ گھر سے نکلنے سے پہلے وہ میری دادی یعنی اپنی والدہ کے پاس گئے توان کے ہاتھ میں ایک کمبل بہت اصرار کرکے دادی نے دے دیا کہ اسے ساتھ رکھو،راستے میں سردی سے بچنے میں کام آئے گا۔رات کے تقریبا ایک بجے کا وقت تھا کہ والد صاحب کی نظر ایک گاڑی پر پڑی جو خراب ہوگئی تھی۔اس گاڑی کے برابر میں دو لوگ کھڑے ہوئے تھے۔انھوںنے والد صاحب کو رکنے کا اشارہ کیا تو والد صاحب رک گئے۔تعارف کے بعد معلوم ہوا کہ وہ اجنبی تھے جو سعودی عرب جارہے تھے لیکن راستے میں ان کی گاڑی خراب ہوگئی۔سفر کی تکان اور پریشانی ان کے چہروں سے عیاں تھی۔انھیں ٹھنڈبھی لگ رہی تھی اور بھوک سے بھی بے حال ہورہے تھے۔والد صاحب نے انھیں کھانے اور پینے کی چیزیں دیں اور وہ کمبل بھی دے دیا جو دادی نے انتہائی اصرار کرکے والد صاحب کو دیا تھا اور ان سے درخواست کی کہ میری والدہ کے لیے دعا کریں جنھوں نے مجھے یہ کمبل دے کر روانہ کیا تھا۔انھوں نے والد صاحب کو اور میری دادی کو دعائیں دیں۔اس کے بعد ان کی گاڑی کو قریب کے گیرج میں لے جایا گیا جس میں والد صاحب نے بھی ان کی مدد کی۔جب والد صاحب کو ان کے سلسلے میں اطمینان ہو گیا تو انھوں نے دوبارہ اپنا سفر شروع کیا۔
تقریباً پانچ برس کے بعد والد صاحب اسی راستے سے گزر رہے تھے کہ گاڑی خراب ہوگئی۔میں، میری پانچ بہنیں اور امی بھی والد صاحب کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ اچانک ہمارے پاس ایک گاڑی آکر رکی اور اس میں موجود افراد نے ہماری مدد کرنے کی پیش کش کی۔ والد صاحب نے ان کی پیش کش قبول کرلی۔ وہ لوگ باہر آئے تو دیکھا کہ وہ دونوں وہی لوگ تھے جن کی اس سے پہلے والد صاحب نے اسی راستے پر مدد کی تھی۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں