میں ادھر ادھر بھٹک رہی تھی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کروں اور کس کے پاس جاؤں، کس سے اپنی پریشانی بیان کروں، جو میری پریشانی کو دور کردے، میں اسی کشمکش سے دوچار تھی کہ اچانک مجھے میری امی جان دکھائی دیں میں اپنی امی کے پاس دوڑ کر گئی اور کہا کہ امی آپ نے بچپن میں میری وجہ سے کتنی پریشانیاں اٹھائی تھیں، کتنی مصیبتیں جھیلیں تھیں آج میں آپ کے پاس اپنی ایک مصیبت لے کر آئی ہوں، مجھے پوری امید ہے کہ آپ میری مدد کریں گی۔ ماں میں آپ کے پاس صرف اور صرف ایک نیکی کے لیے آئی ہوں بس ایک نیکی کی ضرورت ہے۔ امی مجھے ایک نیکی دے دیجیے نا پلیز! تاکہ میں جنت میں داخل ہوسکوں پھر امی نے میری امید کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہوئے کہا کہ چل ہٹ! میں تیری ماں نہیں نہ تو میری بیٹی۔ ہاں وہ دنیا تھی جو میں نے تیری وجہ سے پریشانی جھیلی اب آخرت ہے اور یہاں نہ ماں، بیٹی کی ہے اور نہ بیٹی ماں کی۔ ہاں اگر تجھے میری دنیا کی مشقت یاد ہے تو تو خود ہی مجھے نیکی دے جا اور یہ کہہ کر میری ماں وہاں سے چلی گئی اور میں سوچتی رہی کہ کیا یہ وہی ماں ہے جس نے میری بڑے پیار سے پرورش کی تھی، راتوں کو جاگ کر میری خدمت کی تھی اور اب تو پہچاننے سے انکار کررہی ہے۔ میں سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک مجھے میرے والد محترم نظر آئے وہ کسی فکر میں پریشان اور مبہوت نظر آتے تھے۔ میں دوڑ کر ان کے پاس گئی اور کہا کہ ابو آپ نے میری وجہ سے بہت سی مصیبتیں اٹھائیں میری ہر خواہش اور ضد کو پورا کیا، خود بھوکے رہ کر میرا پیٹ بھرا تو جس طرح آپ نے میری ساری ضرورتیں دنیا میں پوری کی تھیں اسی طرح آج میری مدد کیجیے۔ تو ابو آج میں آپ کے پاس صرف ایک نیکی کے لیے آئی ہوں۔ ابو پلیز! آج مجھے صرف ایک نیکی دے کر آگ سے بچائیے۔ ’’کون سی بیٹی میں تو تجھے جانتا تک نہیں۔ ہاں اگر تجھے اپنے ابو کی محنت و مشقت یاد ہے تو تو خود ہی اپنی نیکیوں میں سے کچھ مجھے دے جا۔ ‘‘ ابو نے کہا اور میری امیدیں ایک بار پھر شیشے کی مانند ٹوٹ کر کرچیں بن گئیں ۔
پھر میں وہاں سے بھی مایوس ہوکر چل پڑی اب مجھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس کے پاس جاؤں اور میں اپنے من ہی من میں کہہ رہی تھی کہ یا خدایا یہ کیسا امتحان ہے ، کونسی جگہ ہے جہاں اپنے قریبی ماں باپ پہچاننے کے لیے تیار نہیں کہ اچانک مجھے میری سہیلی صدیقہ نظر آئی۔ صدیقہ میری پیاری اور بچپن کی دوست۔ ہم لوگ ساتھ کھیلتے اور ساتھ کھاتے۔ ہر چیز بانٹ کر کھاتے ایک چھوہارہ بھی ہوتا تو دونوں آدھا آدھا بانٹ لیتے اور مل کر کھاتے۔ لوگ ہماری محبت پر رشک کرتے اور مثالیں دیتے تھے ہاں وہی صدیقہ۔ میں دوڑ کر اس سے چمٹ گئی اور کہا صدیقہ ہماری دوستی کتنی مضبوط اور محبت کتنی بے مثال تھی۔ کیا تمہیں کچھ یاد ہے۔ اسکول میں، گاؤں میں اور گھر میں ہر جگہ ہماری دوستی اور محبت کی مثال دی جاتی تھی۔ پیاری صدیقہ آج میں بہت پریشان ہوں اور صرف ایک نیکی کے لیے۔ کیا آج تم بھی میری مدد نہیں کروگی۔ کیا آج تم بھی میری پریشانی کو دور نہیں کروگی۔ میری پیاری صدیقہ! بس مجھے صرف ایک نیکی کی ضرورت ہے، مجھے بچالونا آگ سے صرف ایک نیکی دے کر۔
صدیقہ نے کہا ارے میاں نیکی کے لیے تو میں خود ہی بھٹک رہی ہوں۔ اپنی دوستی کی لاج رکھ کر مجھے تم ہی اپنی نیکیوں میں سے کچھ دے دو تو بہت بہتر ہوگا۔ میرا کلیجہ دھک سے ہوگیا۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور دل ڈوبتا محسوس ہونے لگا۔ گڑگڑاکر کہا کہ خدایا مجھے دنیا میں صرف ایک بار بھیج دے تاکہ میں سبحان اللہ ایک بار کہہ سکوں لیکن اب کہاں دنیا؟ اے کاش! کہ میں نے دنیا میں ایک بار سبحان اللہ کہہ لیا ہوتا تو آج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ میں یہ سوچ رہی تھی کہ دور کہیں سے بڑی پیاری آواز آرہی تھی:
یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہِ وَاَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَ بَنِیْہِ۔ لِکُلٍّ امْرِئٍ مِنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ۔
’’اس دن انسان کا معاملہ ایسا ہوگا کہ وہ اپنے بھائی سے، ماں باپ سے اپنے دوست اور اولاد سے بھاگے گا۔ اس دن ہر آدمی کے ساتھ اس کا اپنا معاملہ ہوگا جو اسے دوسروں سے بے نیاز کردے گا۔‘‘
اور پھر میری آنکھ کھل گئی فجر کی اذان ہورہی تھی۔ اللہ اکبر اللہ اکبر۔ اور پھر میں نے شکریہ ادا کیا کہ مجھے نیکی کرنے کی مزید مہلت مل گئی ہے۔