ایک نیک اور اچھی بیوی وہ ہے جو اپنے شوہر کے تمام حقوق کی ادائیگی کے لیے پوری طرح خواہشمند رہتی ہے۔ سورہ روم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اورتمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں۔‘‘
بیوی کو سکون کی جگہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے بیویوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد کردی ہے کہ وہ اپنی ذات کو ایک ایسی پناہ گاہ بنائیں کہ جہاں شوہر کو سکون حاصل ہوسکے۔ جب شوہر باہر کی ہنگامہ خیز زندگی سے اور معاشی فکروں کے ہجوم سے تھکا ماندہ گھر واپس آئے تو بیوی کو چاہیے کہ گھر میں داخل ہوتے ہی شوہر کی ساری تھکاوٹ دور ہوجائے۔ وہ اس طرح سے اس کا استقبال کرے کہ شوہر گھر میں داخل ہوتے ہی ہزاروں فکروں کے باوجود اپنے آپ کو پُرسکون اور فریش پائے۔
لیکن بعض گھروں میں اس کا الٹ ہے۔ ادھر شوہر صاحب گھر پر تشریف لائے ادھر بیوی نے دن بھر کی تھکاوٹ کا رونا رویا اور بچوں کی شکایتیں اور دال سبزی کی کمی ہزاروں شکایتوں کا انبار لگادیا۔ نیک بیوی کی خصوصیات میں یہ بات سب سے پہلے آتی ہے کہ شوہرکے حقوق کو اپنے حقوق پر مقدم رکھے، اس کے آرام اور چین کا پورا خیال رکھے سارے کام چاہے گھریلو امور ہوں یا پھر شوہر سے متعلق اپنی خوشی سے اور بغیر کسی دباؤ کے انجام دے۔
شوہر سے محبت پیدا ہونے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بیوی ہمیشہ اس کی عنایات اوراحسانات کا تذکرہ کرتی رہے۔ ہمیشہ برضا ورغبت اس کی مطیع و فرماں بردار رہے۔ اور اس کی اطاعت اور فرماں برداری میں اجروثواب کی امید رکھے۔
ایک حدیث میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس عورت کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا جو شوہر کی ناشکر گزار ہوگی۔ حالانکہ وہ کسی وقت بھی شوہر سے بے نیاز نہیں ہوسکتی۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر شوہر کی طرف سے کسی وقت کسی چیز میں کمی ہوجائے یا پھر کبھی کسی بات پر یا کہیں جانے پر روک ٹوک ہوگئی تو فوراً بیوی یہ کہنے لگتی ہے ۔ میری تو قسمت ہی خراب ہے۔ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا ہے یا میرے ہی لیے آپ کے پاس کمی آجاتی ہے۔ آپ تو ہمیشہ ہی روک ٹوک لگاتے ہیں۔ کسی ایک دن منع کردینے یا پھر کسی ایک وقت کی چیز کی کمی کے بارے میں لفظ ہمیشہ استعمال کرکے شوہر کی تمام محبتوں اور عنایتوں پر پانی پھیر دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہنم میں تعداد بھی ان جیسی عورتوں کی زیادہ ہوگی۔
بیوی کو چاہیے کہ ہروقت قناعت پسندی اختیار کرے کیونکہ حدیث میں ہے کہ اخراجات میں میانہ روی سے معاشی مسئلہ نصف رہ جاتا ہے۔
دولت و ثروت میں حسن تدبیر سے اور غریبی وفاقہ کشی میں حسنِ تقدیر ہی سے سہارا لیں تو انشاء اللہ دنیا و آخرت میں کامیابی نصیب ہوگی۔
——