نیک دل لڑکا

سید ظہران جلیس

حارث ایسا تو نہیں تھا، پڑھائی میں اول، ایماندار اور مزاج میں بھی بے حد سلجھا ہوا۔ اسکول میں وہ اچھا اور مثالی طالب علم تھا اور گھر میں بھی وہ فرماں بردار اور ہونہار بچہ سمجھا جاتا تھا۔ اس نے کبھی کوئی ایسا کام نہ کیا تھا جس سے گھر میں امی، ابو اور اسکول میں اساتذہ کو شکایت ہوتی۔ ساتھیوں میںبھی وہ اچھے ساتھی کی حیثیت سے مقبول تھا۔ اچانک ایک واقعہ پیش آیا… وہ یہ کہ پانچ سو روپئے کے ایک نوٹ نے اس کی شہرت پر داغ لگادیا۔

ہوا یوں کے سفیان صاحب نے بیٹے کو فیس جمع کروانے کے لیے پانچ سو روپئے دیے۔ اسکول کی ماہانہ فیس چار سو روپے تھی اور ہر مہینے حارث ہی فیس جمع کرواتا تھا۔ اس بار ان کے پاس کھلے چار سو روپئے نہیں تھے، اسی لیے تو انھوں نے پانچ سو روپئے کا نوٹ بیٹے کو دے دیا۔ اسی شام حارث نے بقایا ایک سو روپئے انہیں واپس کردیے۔

حارث چھٹی جماعت سے اپنی فیس جمع کروا رہا تھا اور رسید لاکر امی کو دے دیتا۔ ابو کو اپنے بیٹے پر مکمل اعتماد تھا، لیکن اس بار یہ اعتماد ریت کے گھروندے کی طرح ڈھے گیا۔ ایک ماہ بعد اسکول کی طرف سے یہ نوٹس ملا ’’آپ کے بیٹے کی فیس اب تک اسکول میں جمع نہیں ہوئی۔ آئندہ دو دن کے اندر اندر فیس ادا کردی جائے وگرنہ جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔‘‘

نوٹس پڑھتے ہی امی ابو کے ہوش اڑگئے۔ ان کی سمجھ میںنہیں آرہا تھا کہ حارث نے اگر فیس جمع نہیںکروائی تو چار سو روپئے اس نے کہاں خرچ کردیے سفیان صاحب فکر مند ہوگئے۔ وہ خاموشی سے بیٹے کی سرگرمیاں نوٹ کرنے لگے۔ دو دن تک انہیں حارث میں کوئی کمی یا خامی نظر نہ آئی۔ اب دل میں شکوک اور شبہات پیدا ہونے لگے اور شیطان وسوسے ڈالنے لگا۔ انھوں نے سوچا کہ اسکول جاکر حقیقت معلوم کی جائے۔ تیسرے دن وہ اسکول پہنچ گئے۔ انھوں نے پرنسپل صاحب کو بتایا ’’میں نے حارث کے ہاتھوں معمول کے مطابق فیس بھجوادی تھی اور اسی دن شام کو حارث نے مجھے باقی سو روپئے بھی واپس کردیے تھے۔‘‘

’’لیکن یہاں فیس جمع نہیں ہوئی، یہ بھی سچ ہے۔‘‘ پرنسپل نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

یہ سن کر سفیان صاحب کے چہرے پر فکر و پریشانی کی لکیریں اور بھی گہری ہوگئیں۔ انھوں نے اپنی فکر کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’بات چار سو روپئے کی ہرگز نہیں، میرے بیٹے نے جھوٹ بولا اور دھوکا دیا ہے، پرنسپل صاحب! اس نے میرے اعتماد کا خون کیا ہے۔‘‘

’’آپ پریشان نہ ہوں… میں اس کو اچھی طرح جانتا ہوں، وہ برا لڑکا ہرگز نہیں، یقینا کوئی بات ہوگی جو گھر سے فیس کی رقم ملنے کے باوجود وہ جمع نہیں کرواسکا۔ اس کی وجہ جاننی چاہیے۔‘‘ پرنسپل صاحب نے سوچتے ہوئے کہا۔

’’آپ اپنے طور پر معاملے کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کیجیے۔ میںبھی اپنی سی کوشش کرکے دیکھتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ براہِ راست حارث سے اس موضوع پر بات کروں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ حقیقت کچھ اور ہو۔‘‘ سفیان صاحب نے کہا۔

’’آپ کی سوچ ٹھیک ہے، بچے پر غلط الزام لگانے یا شک کرنے سے کئی منفی نفسیاتی اثرات جنم لیتے ہیں اور بچے کی شخصیت بکھر بھی سکتی ہے۔‘‘ پرنسپل صاحب نے کہا۔

سفیان صاحب اسکول سے جیسے ہی گھر پہنچے تو دیکھا کہ ان کی خواب گاہ میں بستر پر بڑی خوبصورت چادر بچھی ہوئی ہے۔ انھوں نے بیوی سے دریافت کیا۔ ’’ارے بڑ ی خوبصورت چادر ہے، کب خریدی یہ؟‘‘

’’میں نے کہاں خریدی ہے، آپ ہی لائے ہوں گے۔‘‘ ان کی بیگم نے جواب دیا: ’’میں خود آپ سے پوچھنے والی تھی۔‘‘

’’نہیں، میں نے چادر نہیں خریدی، یہ تمہیں کہاں سے ملی ہے۔‘‘

’’الماری میں رکھے ہوئے اسے دو ہفتے ہوگئے تھے۔ میرا خیال تھا آپ خرید کر لائے ہوں گے تاکہ مجھے اچانک حیران کرسکیں۔ حارث کی امی نے حیرانی سے کہا۔

اسی دوران حارث کھیل کر گھر واپس پہنچ گیا۔ سفیان صاحب نے بڑے پیار سے سے اسے پاس پاس بلایا پھر کہا: ’’حارث بیٹے! ایک بات تو بتائیں، ہمارے بستر پر بچھی ہوئی چادر نہ تو میں خرید کر لایا ہوں اور نہ آپ کی امی…‘‘

’’ارے ہاں‘‘ … حارث نے چونکتے ہوئے کہا۔’’یہ چادر میں نے خریدی تھی لیکن آپ کو بتا نہیں سکا۔‘‘

’’بھئی، یہ آپ نے کیسے خریدی؟ آپ کے پاس اسے خریدنے کے لیے روپئے کہاں سے آئے؟‘‘ ان کا لہجہ ابھی تک نرم اور مشفقانہ تھا۔ اب حارث نے امی ابو کو چادر خریدنے کی پوری کہانی ایک ہی سانس میں بیان کرڈالی۔ اس نے بتایا :

’’دو ہفتے پہلے آپ سے فیس کے روپے لے کر میں اسکول جارہا تھا کہ راستے میں اپنے محلے کے جمن چاچا چادریں بیچتے نظر آئے۔ ان کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ پسینے میں تر کملایا ہوا چہرہ اور جسم پر لڑکھڑاہٹ طاری! میں نے ہاتھ ملایا، تو جلتا ہوا بدن محسوس ہوا۔ ان کی حالت مجھ سے دیکھی نہ گئی، میں نے پوچھا: کیا بات ہے جمّن چچا آپ کی طبیعت توٹھیک ہے؟‘‘

وہ کہنے لگا کہ دو دون سے بخار ہے، میں نے کہا: ’’پھر آپ گھر میں آرام کرنے اور دوا لانے کے بجائے یہ دکانداری کیوں کررہے ہیں؟‘‘

وہ افسردہ لہجے میں بولے: ’’گھر میں کھانے کو کچھ نہیں۔ اگر دکانداری نہ کروں تو بچوں کو کہاں سے کھلاؤں گا؟ صبح سے آکر بیٹھا ہوں، ایک چادر بھی فروخت نہیں ہوئی کہ کچھ آسرا ہی ہوجائے…‘‘

مجھے ان کی حالت دیکھ کر ان پر بڑا ترس آیا۔ میں نے کہا : ’’میرے پاس فیس کے چار سو روپئے موجود ہیں اور ابھی فیس جمع ہونے میں ہفتہ باقی ہے۔ آپ مجھ سے رقم لے کر وہ کام چلائیں۔ ہسپتال سے دوا لے کر گھر جائیے اور آرام کیجیے۔ طبیعت ٹھیک ہوجائے تو پیسے مجھے واپس کردیجیے گا۔‘‘

وہ میری بات نہیں مانے، پر میں اصرار کرتا رہا، آخر میرے شدید اصرار کے بعد وہ مان گئے۔ جب وہ ہسپتال گئے، تو انکشاف ہوا کہ انہیں ٹی بی ہے، وہ وہیں داخل ہوگئے۔ تیسرے دن میں ان کی خبر لینے ہسپتال پہنچا، تو انھوں نے یہ چادر میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا: ’’میں اپنا وعدہ نہ نبھا سکا۔ تمہاری فیس جمع کروانے کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔ یہ چادر چار سو روپئے کی ہے۔ اسے اپنے ابو کو دے کر اپنی فیس جمع کروادو۔ میں کئی دن تک کام کے قابل نہیں ہوسکو ںگا مگر تمہاری فیس وقت پر جمع کرانا ضروری ہے۔‘‘

میں نے انھیں لاکھ سمجھایا: ’’مجھے چادر کی کوئی ضرورت نہیں، میں ابو کو ساری بات بتادوں گا، وہ فیس کے پیسے مجھے دوبارہ دے دیں گے۔ مگر وہ راضی نہیں ہوئے۔‘‘ انھوں نے کہا:

’’بیٹے یہ چار سو روپئے مجھ پر بہت بھاری بوجھ ہیں۔ تم یہ چادر لے لو، یہ مجھ پر احسان ہوگا۔‘‘

مجھے چادر لینی ہی پڑی۔ گھر آکر چادر میں نے الماری میں رکھ دی۔ خیال تھا کہ آپ کو اس کے بارے میں بتادوں گا لیکن اس دوران میں اسکول کے کاموں میں اتنا مصروف رہا کہ نہ صرف چادر بلکہ اپنی فیس کے متعلق بھی بھول گیا۔ اب تو اسکول سے فیس جمع نہ کرانے کا نوٹس آنے والا ہی ہوگا۔

بیٹے سے ساری داستان سن کر سفیان صاحب نے اسے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا اور سر پہ شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے: ’’بیٹے! مجبور انسانوں کی مدد کرنے کا عمل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محمدﷺ کو بھی بہت پسند ہے۔ تم نے بہت اچھا کام کیا۔ ایسے خوددار لوگ بھی ہوتے ہیں جو تنگی اور ضرورت کے باوجود کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے سچ جانے بغیر تم پر شک کیا جس نوٹس کی تم توقع کررہے ہو، وہ آچکا ہے۔ تم نے بہت نیکی کا کام کیا، اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔ تم نے صرف جمن میاں کی ہی مدد نہیں کی، ان کی قیمتی جان بھی بچالی اور کسی انسان کی جان بچانا ہی انسانیت ہے۔ فیس تو تم آج یا کل بھی جمع کرواسکتے ہو۔ مگر جمن میاں کو وقت پر دوا نہ ملتی تو کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ دوا اور علاج کا وہی وقت ٹھیک تھا، جب تم نے اپنی فیس کے پیسے ان کے حوالے کیے۔ مجھے تم پر فخر ہے۔‘‘

اگلے دن سفیان صاحب پرنسپل سے ملے اور انھیں سارا واقعہ سنایا۔ حارث کا کارنامہ سن کر وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ انھیں یقین تھا وہ چار سو روپئے کسی نیکی کے کام میں خرچ ہوئے ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں