لمبے برآمدے میں عورتیں اس طرح بھری ہوئی تھیں گویا شادی بیاہ میں شرکت کے لیے جمع ہوئی ہوں اور پھر ان کے ساتھ ننھے منے اور بڑے بچوں کا شور۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اندر والا بڑا ہال تو اس طرح بھرا ہوا تھا کہ بلا مبالغہ اگر تھال پھینکی جائے تو سروں ہی سروں پر سے گزرجائے۔ کسی کے سر پر برقعہ کوئی چادر کا گھونگھٹ نکالے کوئی دوپٹہ سے سر ڈھانکے اور کسی کے گلے میں گلوبند کی طرح دوپٹہ پڑا ہوا کسی کے اجلے کپڑے تو کسی کے میلے اور پھٹے پرانے کوئی گوری کوئی کالی کوئی سانولی غرض یہ کہ ہر رنگ ہرقسم اور ہر حالت کی عورت وہاں موجود تھی۔ سب کی نگاہوں کا مرکز کمپونڈر کی کھڑکی تھی۔ وہ اس کھڑکی پر نظر جمائے لائنوں میں اس طرح کھسک رہی تھیں گویا پل صراط طے کررہی ہوں ہر ایک کا چہرہ بگڑا ہوا تھا۔
کوفت اور تکلیف کے آثار ان کے زرد پھیکے چہروں سے ٹپکے پڑرہے تھے اور اس کوفت اور پریشانی سے مغلوب ہوکر کبھی کبھی کوئی عورت اپنے برابر والی عورت سے الجھ پڑتی ان کی آپس کی تو تو میں میں اس شور و غل میں ایک اور اضافہ کردیتی۔لیکن باہر کے برآمدے والی عورتوں کی حالت ان سے کچھ مختلف تھی وہ بڑے اطمینان سے ٹولیوں کی شکل میں ادھر ادھر بیٹھی ہوئی تھیں اور باتوں میں اس قدر مگن تھیںکہ شاید ان کے دل سے دوا لینے کا خیال بھی جاتا رہا تھا۔
لمبے برآمدے کے ایک کونے میں چھوٹے بڑے بچوں کا جمگھٹا سا لگا ہوا تھا۔ کبھی کبھی ان کے درمیان میں سے ایک صدا اٹھ کر ان کے وہاں جمع ہونے کی وجہ ظاہر کردیتی تھی۔
چٹ پٹی پکوڑیاں بارا مسالے والی!
یہ ایک نو دس سال کا لڑکا تھا جو ایک لوہے کی کچلی ہوئی سی تھالی میں میلے کپڑے سے ڈھکی ہوئی پکوڑیاں لیے بیٹھا تھا۔ اسی تھال میں ایک چھوٹی سی مٹی کی مٹکی رکھی ہوئی تھی۔ جس میں چٹنی بھری تھی، اس پر دو تین مٹی کی پیالیاں رکھی ہوئی تھیں، اور ایک لوہے کا زنگ آلود چمچہ۔لیکن لڑکے کے چہرے سے یوں ظاہر ہوتا تھا گویا وہ کوئی بڑا تاجر ہو۔
آٹھ آنے کی پکوڑی ہم کو بھی دینا بھیا!
ایک بچہ اس کے قریب آکر بولا۔
اس نے پہلے بڑی شان سے نظر اٹھا کر لڑکے کو سر سے پیر تک دیکھا پھر اپنے قریب زمین پر ہاتھ مار کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور مٹی کی پیالی ہاتھ میں اٹھائی اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں اور ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم پھیلا ہوا تھا۔ چٹنی کی مٹکی کے نیچے سے ایک پانی میں بھیگا ہوا کپڑا نکال کر اس نے مٹی کی پیالی کو صاف کیا، پھر بڑی ادا سے گردن نیہوڑا کر ایک پکوڑی اٹھاکر پیالی میں رکھی، چمچہ سے اس کو بیچ میں سے توڑا اور ایک چمچہ بھر چٹنی اس پر ڈال دی۔ اب اس نے پھر ایک مرتبہ کھنکار کر لڑکے کی طرف دیکھا اور اس کے مٹھی میں دبے ہوئے پیسے پر اس کی نگاہیں جم گئیں۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا اور پیالی لڑکے کی طرف بڑھا دی بچہ جو پہلے ہی سے للچائی ہوئی نگاہوں سے پکوڑی کو تک رہا تھا۔ جلدی سے پیسہ اس کے ہاتھ میں تھماکر پکوڑی کھانے لگا۔ اس نے تھال کا کاغذ ہٹا کر اپنے چھوٹے سے گلے میں پیسہ رکھ دیا۔ اور اپنے میلے پائجامے سے ہاتھ پونچھ کر پکوڑی کھانے والے لڑکے کو دیکھنے لگا۔ اس کی نگاہوں کا مرکز چمچہ تھا جس کے ساتھ اس کی نگاہیں پیالی میں رکھی ہوئی پکوڑیوں تک اور پھر اس کے منہ تک جاتی تھیں اور جب بچہ کھانے کے لیے منہ چلاتا تو اس کا منہ غیر ارادی طور پر حرکت کرنے لگتا اور جب وہ نگلتا تو وہ بھی اس کے ساتھ ہی نگل جاتا۔ پھر جب وہ دوسرا نوالہ لینے کے لیے چمچہ اپنے منہ کے قریب کرتا تو وہ بھی آہستہ سے اپنا منہ کھول دیتا۔
بچے نے دو تین لقموں میں پکوڑی ختم کرکے پیالی اس کی طرف بڑھا دی، اس نے پیالی چٹنی کی مٹکی پر رکھ دی اور مسکراتی ہوئی داد طلب نگاہوں سے بچے کو دیکھا۔ بڑی مزیدار تھی بھیا تمہاری پکوڑی!
لڑکے نے جاتے ہوئے للچائی ہوئی نگاہوں سے اس کے خوانچہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
ہمارے پاس تو ہمیشہ ایساہی مال ملتا ہے میاں۔
اماں اپنے ہاتھ سے بیسن بناتی ہے بالکل خالص۔ بیسن آپ اپنا مزہ بتادیتا ہے اس نے فخریہ لہجے میں مسکرا کر کہا۔
چٹ پٹی پکوڑیاں بارا مسالے والی!
اس نے پھر لہک کر صدا لگائی اور پھر ادھر ادھر دوڑنے والے بچوں کو امید بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
او لڑکے! معاً ایک کڑک دار آواز برآمدے میں گونج گئی۔ ابے تجھ سے کتنی بار کہا ہے کہ یہاں اپنا گندا مال نہ لگاکر بیٹھا کر ، سالا آجاتا ہے روز یہاں بیماری پھیلانے!لڑکے کی حالت قابلِ دید تھی، وہ سرجھکائے ہوئے کبھی اپنے تھال کو کپڑے سے ڈھکتا کبھی بے مقصد ہی سر کھجاتا اور ساتھ ہی جھکی جھکی نگاہوں سے ڈانٹنے والے چپراسی کو دیکھتا جارہا تھا۔
ابے سنتا ہے کہ نہیں، اٹھا یہاں سے اپنا خوانچہ! نہیں تو ابھی لات دوں گا۔ چپراسی پھر دہاڑا۔
یا رنرمی سے سمجھا دو اتنی سختی مت کرو یتیم بچہ ہے۔ ایک دوسرا چپراسی بولا۔ گیٹ کا چوکیدار تھا نا احمد خاں اسی کا لڑکا ہے۔اسی اثنا میں بہت سی عورتیں اور بچے اس کے گرد جمع ہوچکے تھے اور رحم بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ یتیم کا نام سن کر ایک بوڑھی عورت مجمع میں سے آگے آئی اور لڑکے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر کر بولی، کیا مل جاتا ہے تجھے پکوڑیوں میںبیٹا؟بیس پچیس روپئے!
لڑکے نے سسکیوں کے درمیان کرتے کی آستین سے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے کہا۔
یہ لو بیس روپئے ، عورت نے بڑی نرمی سے کہا اور ہر روز میرے گھر آکر بیس روپئے لے جایا کرو۔ میرا گھر …
ہم فقیر نہیں ہیں لڑکا تڑپ کر بولا۔
نہیں بیٹے یہ تو میں بھی جانتی ہوں۔ تم لے لو اپنی ماں کو دے دینا! لڑکے نے ایسی نگاہوں سے عورت کی طرف دیکھا جن سے حیرت اور غصہ ٹپک رہا تھا۔
میری اماں کسی سے نہیں لیتی جی! وہ کہتی ہے جس کا وارث کمانے والا ہو اگر وہ کسی سے خیرات لے کر کھائے گا تو اللہ میاں کے یہاں اسے آگ کھانی پڑے گی۔
اے چل یہاں سے! کیا ٹر ٹر لگا رکھی ہے۔ چپراسی جو کہ دوسرے چپراسی سے باتیں کرنے میں مشغول ہوگیا تھا پھر لڑکے کو دیکھ کر گرجا۔ لڑکے نے تیزی سے بڑھ کر خوانچہ اٹھا کر سر پر رکھ لیا اور اس عورت کی طرف دیکھ کر بولا: اماں جی یہاں تو خیرات کھالیں گے پر اللہ میاں کے پاس بھی جانا ہے کہ نہیں؟ماں کہتی ہے! اور وہ تیز تیز قدم بڑھاتا ہوا برآمدے سے اتر گیا دو چار قدم تیز تیز چلنے کے بعد ایک دم اس کی رفتار سست پڑگئی۔ عورتیں اسے دور تک جاتا ہوا دیکھ رہی تھیں۔ کچھ دو رچل کر اس کے سر پر رکھے ہوئے خوانچے کو جھٹکے لگنے لگے شاید وہ سسکیاں بھر رہا تھا۔ اور پھر ایک دیوار کی آڑ میں نظروں سے اوجھل ہوگیا۔بوڑھی عورت نے ٹھنڈی سانس بھری اور اپنے ساتھ والی عورت سے بولی یہ تھا اپنی بیوہ ماں کا وارث! اللہ اکبر…
——