وارننگ

جاویدہ بیگم ورنگلی

’’یہ چہرے پر ہوائیاں کیوں اڑ رہی ہیں؟ اس قدر پریشان کیوں ہو؟‘‘

’’پریشانی بہت بڑی پریشانی آپڑی ہے۔ یہ دوسری وارننگ ہے۔ تیسری وارننگ کے بعد تو یہ سب ٹھاٹ باٹ، عیش و آرام ختم ہوکر رہ جائیں گے۔‘‘

’’وراننگ کیسی وارننگ؟ کیا نکسلائٹوں کی طرف سے وارننگ مل رہی ہے؟‘‘

’’نکسلائٹوں کی طرف سے وارننگ کیوں ملے گی۔‘‘

’’پھر کیسی وارننگ، کونسی افتاد آپڑی ہے؟‘‘

’’میرا لڑکا جس کمپنی میں کام کرتا ہے اس کمپنی کا مالک بہت زیادہ اصول پسند آدمی ہے، دوسروں کی تھوڑی سی بے اصولی برداشت نہیں کرتا۔ وقت کی خود سختی سے پابندی کرتا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ اسٹاف بھی وقت و نظم کی پابندی کرے۔ ان کی سخت مزاجی سے سب پریشان ہیں مگر کوئی کمپنی چھوڑنے کو تیار نہیں کیونکہ نہ صرف معقول تنخواہ دیتے ہیں بلکہ مختلف طریقوں سے کچھ نہ کچھ اور بھی دیتے رہتے ہیں۔ میرے لڑکے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ شروع سے ہی لاپرواہ قسم کا ہے۔ جس کی زندگی میں کوئی نظم نہیں۔ شادی کے بعد کی مصروفیتیں تو تم جانتی ہو۔ دعوتوں کا ایک سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ٹی وی پروگرام اور خوش گپیوں میں وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ رات دیر گئے تک جاگنے کے بعد صبح جلد بیدار نہیں ہوپاتا، جس کے نتیجے میں آفس پہنچنے میں ہر روز دیر ہورہی ہے اور باس کی ڈانٹ پھٹکار سننی پڑ رہی ہے۔ آج تو وارننگ مل گئی ہے کہ دیر سے آنے پر ملازمت سے نکال دیا جائے گا۔ اس زمانے میں اچھی ملازمت ملنا بھی تو مشکل ہے۔ یوں سمجھو اگر لڑکے کو ملازمت سے نکال دیا گیا تو ہم پر مصائب کا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا، فاقوں کی نوبت آجائے گی۔

’’یہ تو ایسا کچھ مشکل مسئلہ نہیں ہے۔ اپنے لڑکے کوسمجھا دیجیے کہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے، کاہلی، لا پرواہی کو چھوڑ کر اپنے اوقات کو منظم کرے۔ فضول گپ شپ میں وقت نہ گزارے۔ رات جلد سوجائے تاکہ صبح جلد بیدار ہوسکے تاکہ وقت پر آفس پہنچ سکے۔‘‘

آپ کو کیسے سمجھاؤں کہ رات کو جلد سونا ممکن ہی نہیں۔ رات کا کھانا بارہ بجے سے پہلے ہمارے گھر میں نہیں کھایا جاتا۔ کھانے کے بعد سونے تک ایک دو آسانی سے بج ہی جاتے ہیں۔ برسوں سے جو معمول چلتا ہے انسان کا ہی عادی ہوجاتا ہے، اس کو چھوڑنا آسان نہیں ہوتا۔ میرے لڑکے کو سمجھانے نصیحت کرنے کی بات چھوڑئیے۔ سفارش سے دنیا میں بہت سے کام بن جاتے ہیں۔ آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع ہے۔ بہت سے ذی اثر لوگوں سے آپ کے گھریلو تعلقات ہیں۔ آپ سفارش کردیں تو امید ہے کہ باس آپ کی بات مان لیں گے۔ اور ہماری زندگی برباد ہونے سے بچ جائے گی۔ ہم پر آپ کا یہ بہت بڑا احسان ہوگا۔ ورنہ تیسری وارننگ پر سمجھو یہ ہمارے عیش و آرام خوشیاں سب کچھ ختم ہوجائیں گی۔‘‘

اپنی اس ملنے والی کی بات سن کر میں حیرت زدہ رہ گئی اور سوچنے لگی کہ انسان کو اپنے سود و زیاں کی اس قدر فکر رہتی ہے کہ صرف وارننگ پر ہی اس کے دن کا سکون اور راتوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں، جبکہ اکثر اوقات وارننگ صرف وارننگ تک رہ جاتی ہے۔ تعجب ہے یہی انسان اس وارننگ کی طرف سے بے نیازی برتتا ہے جو اس کے مالک و آقا کی طرف سے مسلسل دی جارہی ہے۔ ’’زمانے کی قسم! انسان خسارے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیا اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی نصیحت کرتے رہے۔‘‘ (الدہر)

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور تم میں سے ہر شخص دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا کچھ کیا ہے۔‘‘

کاش ہم اس کمپنی کے مالک کی وارننگ کے مقابلے میں اپنے خالق ومالک کی وارننگ کی بھی کچھ فکر کرتے!!

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں