والدین کا جدید نفسیاتی مرض

صفی اختر

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور سماجی مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس دور میں اکثر والدین کو مسائل کے ہجوم نے نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کردیا ہے۔ حال ہی میں ماہرینِ نفسیات نے والدین کی ایک بیماری کا پتہ چلایا ہے۔ اس بیماری کا سبب ان کے بچوں کے پیدا کردہ مسائل ہیں۔

یہ بیماری اس وقت جنم لیتی ہے جب والدین کی جسمانی قوت روز مرہ کے فرائض اور تقاضے پورے کرنے کے لیے ناکافی ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میں ان کا مزاج چڑچڑا اور غصیلا ہوجاتا ہے اور وہ ہر معاملے کے تاریک پہلو کو دیکھنے لگتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔مرد ہی نہیں عورتیں بھی اس کا شکار ہیں؛ تاہم وہ اس کا اظہار کم کرتی ہیں۔ یہ بیماری درحقیقت توانائی کے ضیاع کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ توانائی کا یہ ضیاع غصے، پژمردگی اور مایوسی کی پیداوار ہوتا ہے۔ والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ہر لحاظ سے مکمل ہوں اور ہر امتحان میں اول آئیں۔ جب حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا تو ان کے اندر ایک ردِ عمل پیدا ہوتا ہے۔ یہ ردِ عمل ایک طرح کے غصے اور جھنجھلاہٹ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یاد رکھیے غصہ توانائی کو کھاجاتا ہے۔ توانائی کی یہ کمی ہی اس بیماری کا سبب ہوتی ہے۔ جسے ماہرینِ نفسیات احتراقِ والدین (Parent Burnout) کا نام دیتے ہیں۔

اس بیماری کا ایک سبب اور بھی ہے۔ جب ایک آدمی کوئی ایسے ذمے داری قبول کرتا ہے جو اس کی قوتِ عمل سے باہر ہوتی ہے تو وہ افسردگی اور پژمردگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسی کیفیت اس میں نفسیاتی بیماری پیدا کرتی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس بیماری میں کمی کے بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ بیس برس پہلے بھی یہ مرض موجود تھا، مگر کم۔ اب اس کے مریضوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوچکا ہے۔ یہ بیماری عام طور پر متوسط گھرانوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ تعلیمی اداروں کے دگر گوں ماحول کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کی مناسب تربیت کے متعلق پریشان رہتے ہیں۔

بچوں کی بیماریاں بھی والدین کی پریشانیوں میں اضافہ کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی تربیت کی کتابیں بھی انہیں پریشان رکھتی ہیں۔ ان میںبچے کی پرورش کے آئیڈیل طریقے بتائے جاتے ہیں۔ جن پر متوسط گھرانے کا عمل کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ جو والدین اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں وہ عام طور پر ایسے ہوتے ہیں جو اپنے بچوں پر پیدائش کے تیس پینتیس برس بعد تک اپنا رعب رکھنا چاہتے ہیں۔

دوسرا مرحلہ غیر معمولی جوش و خروش سے شروع ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ والدین کو یہ احساس آلیتا ہے کہ وہ اپنے بچے کی تربیت میں شاید کوتاہی کررہے ہیں۔ انھیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچے کی ہر خواہش پوری کرنے کی ٹھان کر اپنے آپ کو مختلف قسم کی پریشانیوں میں مبتلا کررہے ہیں۔

تیسرے مرحلے میں والدین اپنے آپ کو ان گنت ذمے داریوں کے جال میں پھنسا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ یہ جال بچے کی اپنی یا اس کے متعلق خواہشات سے بنایا جاتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جس میں وہ غیر ضروری عادات چھوڑ کر نارمل ہوسکتے ہیں یا چند مزید پریشانیاں اپنا کر اس جدید بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں۔

جو والدین اس مرحلے میں بھی اپنی حالت نظر انداز کردیتے ہیں، وہ اپنی توانائی مسلسل ضائع کرکے جلد ہی چوتھے مرحلے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اس مرحلے میں بعض والدین یہاں تک کہہ دیتے ہیںکہ انھیں اپنے بچوں سے نفرت ہے۔ اگر بچے سے معمولی غلطی بھی ہوجائے تو وہ زبردست ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کی حالت کسی بھی لمحے پھٹ جانے والے بارود کی سی ہوتی ہے۔ اس مرحلے کی سب سے بڑی شناخت کھچاؤ یا اضمحلال کا جاری رہنا ہے اور جلد ہی مریض آخری مرحلے میں پہنچ جاتے ہیں۔

آخری مرحلے میں وہ اپنے آپ کو بہت افسردہ اور پژمردہ سمجھتے ہیں۔ اپنی ذات پر اُن کا اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔وہ اکثر معاشرتی اقدار کا ذکر کرکے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں۔انہیں ہر لمحے یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ ان کے بچوں کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ہونے ہی والا ہے۔ اس مرحلے میں والدین کو ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی اس بیماری کا بچوں پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ کیونکہ والدین اپنے بچوں کو نظر انداز کرنا شروع کردیتے ہیں اور اکثر انھیں جھڑکتے رہتے ہیں۔ انہیں اس طرح کے فقرے بھی کستے سنا جاتا ہے۔ ’’دیکھو تم حماقت کررہے ہو۔ آخر اس دنیا میں تمہارا گزارا کیسے ہوگا؟‘‘

والدین کی یہ بیماری نفسیاتی ہے مگر انسان کی عام صحت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا افراد دردِ کمر، سردرد، بدہضمی، الرجی جیسے امراض کا شکار رہتے ہیں۔ ان کی وجہ نفسیاتی دباؤ ہوتا ہے۔ بہت زیادہ نفسیاتی دباؤ دل کے دورے جیسے خطرناک امراض پر بھی منتج ہوسکتا ہے۔

کیا اس بیماری کا علاج بھی ہے؟ یقینا علاج ممکن ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنے رویے میں ضروری تبدیلیاں لائیں۔ انہیں چاہیے کہ اپنے آپ پر توجہ دیں، منفی سوچوں سے بچیں اور خود پر اور اپنے بچوں پر اعتماد کریں۔ انہیں اپنے بچوں کی پرورش اپنے وسائل کے مطابق کرنی چاہیے۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ بچوں پر اپنی رائے نہ تھوپیں ان کی سنیں اور پھر زندگی کا لائحۂ عمل مرتب کریں۔ اس کے علاوہ ذہنی طور پر یہ تسلیم کرلیں کہ بعض چیزیں آپ کے دائرئہ اختیار سے باہر ہیں۔ ان کے لیے آپ کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم اتنا ضرور کیجیے کہ ان کے متعلق پریشان ہونا چھوڑ دیجیے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں