ویسے تو الدین کے لیے ان کے سب ہی بچے یکساں ہوتے ہیں مگر بعض اوقات اولاد میں سے کوئی ایک بچہ والدین کی خصوصی توجہ کاحامل ہوجاتاہے جس کی وجہ سے والدین کااس کی طرف رجحان بھی زیادہ ہوتا ہے، اور محبت و شفقت کا یہ عالم ہوتاہے کہ منہ سے نکلی ہوئی اس کی ہر بات کو پوراکیاجاتاہے۔ دوسرے بچوں کی نسبت اسے ترجیح دی جاتی ہے، اس کی خواہش کا احترام کیاجاتاہے، محفلوں میں اپنے اس بچے کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں اور اس کی خصوصیات کو نمایاں کیاجاتا ہے۔
مختصراً یہ کہ والدین کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے اندازہ ہوجاتاہے کہ وہ کس کو کتنا عزیز سمجھتے ہیں اور اس سارے عمل میں وہ جان بوجھ کر یا پھر انجانے میں اپنے دوسرے بچوں کو نظرانداز کررہے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے والدین اپنے کسی ایک بچے کو سراہتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے باقی بچے کیا سوچ اور سمجھ رہے ہیں، ان کے احساسات کیا رخ اختیار کرتے جارہے ہیں اور کہیں ان کے کہے ہوئے الفاظ بچوں میں کوئی احساس محرومی تو پیدا نہیں کررہے۔
والدین کا یہ رویہ بعض اوقات لاعلمی کی وجہ سے بھی ہوتاہے اور انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ نتائج کیا نکلیںگے۔ ان کو وہم وگمان بھی نہیں ہوتاکہ نظرانداز کیے جانے والے بچے کس قسم کی ذہنی کیفیت اور کوفت کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان بچوں میں نفسیاتی مسائل جنم لینے لگتے ہیں اور ان کا ذہن منتشر ہونے لگتاہے۔ یہ مسائل ان کی آئندہ زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
ایسے بچے خود کو کمتر محسوس کرتے ہیں۔ ان کا واسطہ احساس کمتری اور دھتکار ے جانے والے احساس سے پڑتا ہے جسے وہ اپنے آپ پر حاوی کرلیتے ہیں۔ اس صور حال میں وہ اپنے آپ کو ساری عمر غیرضروری سامان تصورکرتے ہوئے خود کو کوستے رہتے ہیں۔ ان میں خود اعتمادی کا عنصر بالکل ختم ہوجاتاہے جس کی وجہ سے وہ اپنی صلاحیتوں کو اجاگر نہیں کرپاتے اور صلاحیتوں کاگلا گھونٹ کر محرومی کی زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ یہ مسائل ان کے خود پیداکیے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ مستقل اور مسلسل نظرانداز کیے جانے اور توجہ کامرکز نہ بننے کی وجہ سے وہ ایسے حالات کا شکار ہوتے ہیں۔
اکثر اوقات والدین کی توجہ کامرکز بننے والے بچے میں غیرمعمولی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ والدین بچے کو اس کے ذہین ہونے، خوبصورت یا پھر خوب سیرت ہونے کے باعث اس کو سراہتے اور اس کی قدر کرتے ہیں۔ اس صورت میںاگر یہ کہاجائے کہ وہ بچہ دوسرے بچوں کا حق مار رہاہے یا دوسروں کے حق کا پیار بھی وہ چرا رہاہے (کیونکہ اکثر اوقات ایسے حالات میں اس بچے سے دوسرے بچے بدظن ہوجاتے ہیں اور نفرت کرنے لگتے ہیں) تو یہ ٹھیک نہ ہوگا، کیونکہ اگر وہ بچہ کسی ایسی غیرمعمولی صلاحیت کامالک ہے تو یہ اس پر اللہ کی خاص عنایت ہے جس پراعتراض کرنا یقینا اس کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔
ایسا تو ہرگز نہیں ہوتاکہ والدین نے اسے اس خوبی سے نوازا ہے اور نہ کسی والدین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنے پسندیدہ بچے میں کوئی خصوصیت پیدا کرسکیں اور نہ کسی بشر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنی پسندیدہ چیز میں رتی بھر تبدیلی کرسکے اور اسے اچھا یا برا بناسکے۔
اس لیے وہ بچہ کسی بھی صورت قصوروار نہیں ٹھہرایاجاسکتا۔ البتہ اگر دیکھاجائے تو اس میں والدین کا تھوڑا بہت قصور ضرور نکلتا ہے اور والدین کے صحیح اور مناسب اقدامات ہی اس کا حل ہوتے ہیں۔ والدین کا کسی ایک اولاد کو ترجیح دینا زیادہ تر دو صورتوں میں ہوتاہے۔ پہلی صورت میں بعض بچوں پر اُن کی کسی کمزوری کی وجہ سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ یہ کمزوریاں بیماری، معذوری یا ذہنی طورپر باشعور نہ ہونے کی صورت میں موجود ہوتی ہیں، اور ان ہی کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ بچہ والدین سے نزدیک تر ہوجاتاہے۔
ایسی صورت میں والدین کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ بچہ اپنی محتاجی یامعذوری کے باعث زندگی سے ناامیدنہ ہوبلکہ ایک نارمل انسان کی طرح حقیقت کو بخوشی قبول کرکے زندگی گزارنا سیکھے۔ اس لیے وہ اس پر اپنی شفقت اور محبت کی بوچھاڑ کردیتے ہیں۔
دوسری صورت میں بچے کو اس کی ظاہری یا باطنی اچھائی کی بنا پر ترجیح دی جاتی ہے۔ ان اچھی عادات اور خصوصیات کاہونا والدین کی توجہ کا مرکز بن جاتاہے۔ یہ صورت بہت ہی پیچیدہ اور خطرناک ہوتی ہے۔ ایسی صورت باقی بچوںکے ساتھ زیادتی تصور کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس بچے کی خصوصیت کو بالکل ہی تسلیم کرناچھوڑدیں۔ اگر وہ اسے سراہتے ہیں تو اس سلسلے میں تھوڑی بہت احتیاط اور مساوات کا خیال رکھیں۔اگر انہیں کسی ایک بچے کی قابلیت متاثر کرتی ہے تو صرف اسی بچے کو سراہا نہ جائے بلکہ وقتاً فوقتاًدوسرے بچوں میں بھی چھپی و خوابیدہ خصوصیات کو اجاگر کیاجائے ۔ انہیں بھی اتنی ہی توجہ اور احترام دیاجائے۔ ایسی صورت میں والدین کو انصاف اور مساوات کادامن مضبوطی سے پکڑنا چاہیے۔
بعض اوقات ایک اور وجہ بھی اس قسم کے مسائل کا باعث بنتی ہے۔ یہ وجہ بے معنی حسد ہوتاہے۔ بعض بچوں کی سرشت میں دوسروں کی اچھائی دیکھ کر خوش ہونا نہیں بلکہ حسد کرنا شامل ہوتاہے۔ ایسی صورت میں نہ تو والدین کسی کے ساتھ زیادتی کررہے ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور شخص اس بچے کو غیرضروری سامان ہونے کا احساس دلارہاہوتا ہے پھر بھی بچہ اپنے حسد کی بنا پر بلاوجہ ہی احساسِ کمتری کا شکارہوجاتاہے جو کہ ایک نفسیاتی مسئلے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ایسی صورت میں جتنی جلدی ہوسکے اس بچے کا علاج مثبت باتوں سے کیاجائے یا پھر نفسیاتی ماہر سے کروایاجائے جو کہ اس کاواحد حل ہے۔ مختصریہ کہ والدین کے لیے اپنے سب بچے ہی بہت پیارے ہوتے ہیں، اور اگر کوئی بچہ اپنی کسی خصوصیت کی بنا پر زیادہ توجہ لیتاہے تو والدین کو اپنا رویہ ایسا رکھنا چاہیے کہ دوسرے بچوں میں کمتری کے احساسات پیدا نہ ہوں، بلکہ اگر والدین دوسرے بچوں کے سامنے اس بچے کی تعریف کررہے ہیں تو اس انداز میں کرسکتے ہیں کہ ’’ہمیں امید ہے کہ ہمارے دوسرے بچے بھی ایسی قابلیت رکھتے ہیں اور وہ ہمیں زیادہ اچھا اور بہتر کرکے دکھائیںگے۔‘‘ اس انداز سے بچوں میں مثبت انرجی پیدا ہوتی ہے اور دوسرے بچوں میں نفرت اور حسد کے بجائے کچھ کردکھانے کا حوصلہ اور عزم پیدا ہوتا ہے۔——