میں نے اپنی عملی زندگی میں دیکھا ہے کہ چاہے والدین دنیا دار ہی ہوں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر چاہے وہ بعض اخلاقی کمزوریوں میں بھی مبتلا ہوں، تب بھی وہ اپنی اولاد کو نہایت اعلی اخلاق کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد قرآن پڑھے، نماز روزے کی پابند ہو، والدین چاہے خود کتنے ہی گئے گزرے ہوں، وہ کسی بھی قیمت پر اپنی اولاد کو چور، ڈاکو، یا قاتل کی شکل میں دیکھنا گوارا نہیں کرتے، اس لیے وہ امکان بھرپوری تگ و دو کرتے ہیں کہ ان کی اولاد تمام اخلاقی برائیوں سے پاک رہ کر اعلیٰ اخلاق و کردار کی حامل بنے۔
ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم والدین کو اپنی گفتگو سے یہ باور کروائیں کہ آپ مجھے یقینا سعادت مند، خوش خرم، ہنستا مسکراتا دیکھنا چاہتے ہیں تو میری بھی دلی تمنا ہے کہ آپ مجھ سے راضی اور خوش رہیں۔ آپ کے یہ الفاظ ان کی تمام امیدوں کو بر لانے والے ثابت ہوں گے۔ یاد رکھیں کہ والدین کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان کی اولاد ان سے خوش ہو۔ اگر آپ ان سے راضی ہیں اور وہ آپ سے خوش ہیں تو پھر سمجھ لیجئے کہ آپ کی قسمت کے کواڑ کھل گئے۔ اب دنیا جہاں کی کامیابیاں آپ کے مقدر میں ہیں۔
اگر یہ خود نمائی نہ ہو تو تحدیث نعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے بار بار اپنی والدہ ماجدہ کے پاس بیٹھ کر اس قسم کی گفتگو کی ہے۔
کیفیت یہ ہوتی کہ والدہ ماجدہ عموماً آرام کر رہی ہوتیں، میں ان کے پاس بیٹھ جاتا، اکثر ان کا ہاتھ تھام کر کہتا:
اچھا تو امی جان! آپ مجھ سے راضی ہیں ناں؟
جواب ملتا: ہاں! بیٹا راضی ہوں۔
واقعی آپ مجھ سے راضی ہیں؟
ہاں بیٹے! میں واقعی تم سے راضی ہوں۔
نہیں امی جان! آپ یوں ہی اوپری طور پر کہہ رہی ہیں۔
میں سچ کہہ رہی ہوں کہ تم سے دل و جان سے راضی ہوں۔
نہیں امی جان! مجھے اعتبار نہیں آرہا، آپ قسم کھائیں کہ آپ مجھ سے راضی ہیں۔
اچھا میں قسم کھاتی ہوں کہ تم سے ہر طرح راضی اور خوش ہوں۔
اچھا اگر ایسی بات ہے تو پھر قیامت والے دن آپ اللہ کے حضور کوئی شکوہ تو نہیں کریں گی؟
نہیں بیٹا! میں تم سے دل و جان سے راضی ہوں، بھلا میں تمہارا شکوہ کیوں کروں گی۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی گفتگو کے بعد والدہ کے دل سے دعائیں نہ نکلتی ہوں گی؟ آپ یقین جانئے، وہ مجھے ڈھیروں دعائیں دے دیتی تھیں۔ مجھے اپنی شفقت و مرحمت کے چھینٹوں سے اس قدر نہلا دیتی تھیں کہ میں ان کی مامتا کے لمس سے نہال ہوجاتا تھا۔
ان گزارشات کے بعد کیا میں آپ سے یہ التجا نہ کروں کہ آپ بھی اپنے گرامی والدین سے ایسی ہی محبت بھری باتیں کریں اور اُن کی دعاؤں کے خزانے سے مالا مال ہوجائیں۔ ذرا آپ ایسا کرکے تو دیکھئے، آپ کو عجیب سی لذت اور سرور ملے گا۔
اگر آپ کے دادا جان، دادی جان، نانا جان، نانی جان زندہ ہیں تو ان کی عزت و توقیر میں کبھی کوئی فرق نہ آنے دیں۔ حتی الامکان ان کی خدمت کریں۔ ان کی ضرورت کے کام کریں۔ ان کے علاج معالجہ میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ ان کو راضی رکھیں۔ ایسا کرنے سے آپ کے والدین آپ سے بے حد خوش ہوں گے اور آپ کو بے شمار دعائیں ملیں گی۔ یوں آپ پر خیر و برکت کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔
اگر یہ بزرگ وفات پاچکے ہیں تو ان کا ذکر خیر بڑے اچھے انداز کیجئے۔ ان کی طرف سے صدقہ و خیرات کیجیے۔ راقم کو یاد ہے کہ جب میں شروع میں سعودی عرب آیا تو دادا جان، دادی جان اور نانا جان، نانی جان کی طرف سے حرمین الشریفین میں ایک ایک قرآن پاک کا نسخہ خرید کر رکھا۔ نیت یہ تھی کہ اس نیک کام کا اجر و ثواب ان کو حاصل ہو، پھر میں نے اپنے ایک خط میں اپنے والد محترم کو اس کی اطلاع دی۔ اس کا جواب والد محترم کی طرف سے بے شمار دعاؤں کی صورت میں ملا۔ بلاشبہ اللہ کے رسولﷺ نے وفات پاجانے والوں کے بارے میں جو فرمایا ہے وہ حق اور سچ ہے کہ ’’جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے۔ مگر تین چیزیں ایسی ہیں جو مرنے کے بعد بھی باقی رہتی ہیں: صدقہ جاریہ، ایسا علم جس سے لوگ مرنے کے بعد بھی فائدہ اٹھائیں اور نیک اولاد، جو اس کے لیے دعا کرے۔
کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ والدین کی وفات کے بعد کوئی ایسا کام کریں جو ان کی نیکیوں میں اضافے کا سبب بنے، مثلاً مسجد تعمیر کرنا، ضروری نہیں کہ آپ پوری مسجد تعمیر کرائیں۔ ہاں! اگر آپ صاحب استطاعت ہیں تو پوری مسجد خود بنوائیں ورنہ آپ اپنی حیثیت کے مطابق اس میں حصہ ڈال دیں۔ والدین کے نام سے کنواں کھدوا دیں یا ٹیوب ویل لگوا دیں، بعض یتیموں کی کفالت اپنے ذمہ لے لیں۔ قرآن کریم کی طباعت اور اشاعت میں حصہ ڈالیں۔ ہسپتال میں والدین کے نام کا بلاک بنوا دیں۔ قرآن و سنت کی تعلیم کے پابند مدارس کی تعمیر میں والدین کا حصہ ڈال د یں۔ بہت سے ایسے کام ہیں، جن میں آپ حصہ ڈال کر اپنے والدین کی نیکیوں میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے والدین کو ہر کام اور ہر بات میں ترجیح دیں، اپنے دوستوں اور بیوی بچوں پر انہی کو فوقیت دیں۔
اگر آپ کے والدین آپ کے پاس نہیں رہتے تو کبھی کبھار ان کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیں۔ ان سے التجا کریں کہ وہ آپ کے پاس آکر رہیں، آپ کا یہ کام ان کی زندگی میں نمایاں تبدیلی کا باعث ہوگا۔ اپنے بیٹے کے اس اہتمام سے وہ یقینا بے حد خوش ہوں گے۔
جس طرح آپ کا جی چاہتا ہے کہ آپ بڑے بڑے شاپنگ سنٹرز میں جائیں وہاں جاکر خریداری کریں، والدین کی بھی کم و بیش ایسی ہی خواہش ہوتی ہے، اس میں شک نہیں کہ بزرگوں میں دنیا کی رعنائیوں کی رغبت بتدریج کم ہو جاتی ہے۔ مگر فطری تقاضے بھی اپنی جگہ کام کرتے رہتے ہیں، اس لیے انہیں بھی سیر کرائیے۔ کبھی کبھی شاپنگ کے لیے انہیں بڑی بڑی عمارتوں اور شاپنگ سنٹروں میں لے جایا کریں۔ اس سے وہ خوش ہوں گے۔
والدہ کے سامنے اپنے والد کی تعریف کیجیے، ان کے محاسن اور خوبیاں بیان کیجیے۔ اسی طرح والد کے سامنے والدہ کے حسن سیرت و کردار کا تذکرہ کیجیے۔ ان کی اچھی باتوں کو نمایاں کر کے پیش کیجیے۔ اس طرح آپ کے والد اور والدہ کی باہمی محبت میں اضافہ ہوگا۔ وہ آپ پر فخر کریں گے کہ ہمارے خوش گوار تعلقات کی استواری میں ہمارے بیٹے کا نمایاں ہاتھ ہے۔
والدین، خصوصاً والدہ صاحبہ کے گھریلو معاملات کے سلیقے کی تعریف کریں۔ عموماً ہمارے معاشرے میں گھر کا بجٹ عورتیں چلاتی ہیں، جس عمدہ انداز میں وہ اپنے خاوند کی کمائی خرچ کر کے پس انداز بھی کرتی ہیں، اگر ان کو اس حسن تصرف پر داد دی جائے اور کھل کر اعتراف کیا جائے کہ گھر کے معاملات کو والدہ صاحبہ نے بڑے ہی اچھے انداز میں چلایا ہے تو آپ کی والدہ خود اعتمادی سے مالا مال ہوجائیں گی اور وہ گھر کا نظام مزید بہتر انداز میں چلائیں گی۔
اگر آپ بیٹی ہیں تو یہ بات معلوم اور معروف ہے کہ آپ اپنی والدہ کے بہت قریب ہیں۔ آپ والدہ کے راز کبھی فاش نہ ہونے دیں۔ ان کی نفسیات کو سمجھیں اور اس کے مطابق ان سے معاملہ کریں۔ ان سے آپ کا رویہ بالکل ایک دوست اور سہیلی جیسا ہونا چاہیے۔ ہر چھوٹی بڑی بات میں ان کو اعتماد میں لیں۔ ان سے مشورہ کریں۔ اگر آپ کی اور بھی بہنیں ہیں تو ان کے ساتھ محبت، پیار اور حسن معاملہ کا سلوک کریں۔ ان کو گاہے گاہے تحفے تحائف پیش کریں۔ آپ کے اس عمل سے آپ کی والدہ آپ سے بہت راضی اور خوش ہوں گی۔ ماں کی فطرت میں ہے کہ اگر کوئی اس کی بیٹیوں سے محبت کرتا ہے تو وہ بھی اسے محبت اور پیار کرے گی۔ آپ کا یہ عمل جہاں صلہ رحمی کے ضمن میں آئے گا وہاں والدہ کی رضا او رخوشی کا باعث بھی ہوگا۔
اپنی اولاد کی تربیت اس انداز میں کریں کہ وہ اپنے بزرگوں خصوصاً دادا جان، دادی جان، نانا جان، نانی جان کی عزت اور احترام کریں۔ اپنے بچوں سے کہیں کہ وہ ان کو مختلف مواقع پر تحفے پیش کریں۔ یہ بے شک بیش قیمت نہ ہوں اپنی حیثیت کے مطابق ہی پیش کریں، خواہ وہ ایک پھول ہی ہو۔ اپنی اولاد کی اولاد کے ہاتھوں سے ملنے والا تحفہ ان کے لیے ہفت اقلیم سے کم اہمیت کا حامل نہ ہوگا۔ ذرا آزما کر تو دیکھیں۔
والدین اگر ضعیف ہیں تو ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کو مسجد، بازار، ہسپتال اور عزیزوں کے ہاں لے جائیں۔ اگر وہ اٹھنے لگیں تو ان کے سامنے ان کی جوتیاں سیدھی کر کے رکھ دیں۔ یاد رکھیں کہ ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سب سے زیادہ آپ ہی پر عائد ہوتی ہے۔ والدین کے حقوق کبھی ختم نہیں ہوتے۔ آپ ان کا جتنا بھی حق ادا کریں کم ہے۔
والدین کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ ان کا گھر صاف ستھرا ہو۔ آپ ان کے گھر کو بنانے سنوارنے میں ان کی مدد کریں، اس کی مرمت کراتے رہیں۔ کوئی توڑ پھوڑکا مرمت طلب کام ہو، رنگ روغن کرنا ہو، صحن میں پھول بوٹے لگانے ہوں، اس سلسلے میں آپ اپنے والدین کی مدد کریں۔ ان کو مشورے دیں۔ خود عملی طور پر شریک ہوں۔ والدین کو یہ احساس دلائیں کہ ان کے گھر کی تعمیر اور دیکھ بھال میری ذمہ داری ہے۔
والدین کے سونے کے کمرے کو بھی آپ اپنی توجہ کا مرکز بنائیں۔ انہیں سارا دن وہاں گزارنا ہوتا ہے۔ اس کمرے کو خوب صورت ہونا چاہیے۔ انہیں اپنی دیگر اولاد سے بھی اسی کمرے میں ملنا ہے۔ مہمانوں کو بھی یہیں آنا ہے تو اس کمرے کی ضروریات کو دیکھیں۔ کیا اس کے پردے مناسب ہیں؟ مختلف اوقات میں بیڈ شیٹ تبدیل کریں۔ اگر وہاں کرسیاں یا صوفہ ہے تو جائزہ لیں کہ وہ زیادہ پرانا تو نہیں ہوگیا؟ یہ بات ذہن میں رہے کہ بڑے بوڑھوں کے پاس ان کے ملاقاتیوں کو انھی کے کمروں میں آنا ہے تو کیا والدین کا کمرہ ان کے شایانِ شان ہے؟
والدین کے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے وہ خوش بھی ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر بھی عمل درآمد ہوگا۔
بعض معاشروں میں والدین کے نام پر اولاد کے نام رکھنے کا رواج ہے اور والدین اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ان کے نام کو زندہ رکھا جائے۔ خصوصاً عربوں میں یہ بات عام ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ وفات پاچکے ہیں مگر اس طرح ان کے نام زندہ رہتے ہیں اور ان کے محاسن کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔
فرض کیجیے آپ کہیں جا رہے ہیں، گاڑی میں سوار ہونا ہے تو پیش قدمی کر کے پہلے والدین کو سوار کریں، ان کا بازو تھام کر انہیں اگلی سیٹ پر بٹھائیں۔ اس طرح ان میں اعتماد پیدا ہوگا کہ میرا بیٹا میری عزت کرتا ہے۔ اسی طرح اترتے وقت بھی ان کو پہلے اترنے دیں، ہاں اگر ان کو آپ کی مدد کی ضرورت ہے تو آپ پہلے اتر کر ان کی مدد کریں۔ بظاہر یہ بات معمولی نظر آتی ہے مگر بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
یہ قرآنی تعلیمات ہیں کہ ہم اپنے والدین کے لیے دعائیں کریں۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا اس سے زیادہ اور کون سا خوب صورت کام ہے کہ آپ اپنے ہاتھوں کو بلند کرتے ہوئے کہہ رہے ہوں: ’’اے ہمارے رب! ان پر اس طرح رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں میرے اوپر رحم کیا۔‘‘ اگر یہ دعائیں قبولیت دعا کے اوقات میں کی جائیں تو ان کی افادیت دو چند ہوجاتی ہے۔
والدین کے پاس بیٹھنے سے پہلے ان سے گفتگو کے لیے وقت مقرر کرلیں۔ اس دوران اپنی پوری توجہ ان کی طرف مبذول رکھیں۔ اخبارات، ٹی وی اور موبائل وغیرہ بند کردیں۔ پورے انہماک سے ان کی باتیں سنیں اور اپنی باتیں سنائیں۔
اپنے والدین پر، ان کی شخصیت پر فخر کریں، جہاں بیٹھیں والدین کا تذکرہ اس انداز میں کریں کہ وہی آپ کے رول ماڈل ہیں اور آپ ان کی ہر معاملے میں پیروی کر رہے ہیں۔
والدین کی دعائیں اپنی اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہیں۔ آپ ان سے دعا کی درخواست کرتے رہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ والدین اپنی اولاد کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں۔ مگر مختلف مواقع پر ان سے دعا کے لیے کہنا بڑی مستحسن بات ہے۔ راقم الحروف کی زندگی میں والدین کی خصوصاً والدہ صاحبہ کی دعاؤں کا بڑا دخل ہے۔ جب وہ وطن میں ہوتیں تو میں عموماً فجر کی نماز کے بعد ان کو فون کرتا۔ کوئی اہم میٹنگ ہوتی تو اُن سے عرض کرتا کہ آج میری میٹنگ ہے، امی جان! دعا فرمائیں وہ عموماً مصلّٰی پر بیٹھی ہوتی تھیں۔ معاً فرماتی تھیں: بس میں ابھی دو نفل پڑھ کر تمہارے لیے دعا کرتی ہوں، ان شاء اللہ تمہیں کامیابی نصیب ہوگی۔ بلاشبہ ایسا ہی ہوتا کہ میں کامیاب و کامران واپس آتا۔ والدین سے دعا کرانے میں کتنی لذت، ٹھنڈک اور تب و تاب ملتی ہے۔ نوکری پر، کاروبار پر جانے سے پہلے آپ والدین کے پاس آتے ہیں، ان سے اجازت لیتے ہیں کہ میں جا رہا ہوں۔ دعا فرمائیں اور پھر آپ ڈھیروں دعاؤں کو سمیٹتے ہوئے گھر سے باہر نکلتے ہیں۔ اپنے دل سے پوچھئے، کیا والدین کی دعائیںآپ کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہیں؟lll