جَائَ رَجُلٌ النَّبیِ صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَاذِنْہ‘ فِی الْجِہَادِ فَقَالَ اَحَیّ ٌوَالِدَاکَ؟قَالَ نَعَمْ، قَالَ فَفِیْہِمَا فَجَاھِدْ۔
(صحیح مسلم،عن عبداللہ بن عمر، کتب البروالصلۃ، صحیح البخاری، کتاب الجہاد، کتاب الادب)
’’ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جہاد پر جانے کی اجازت چاہی۔ آپ ؐ نے فرمایا:کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا: ہاں، آپ نے فرمایا تو ان کے حق میںجہادکر۔‘‘
(ترجمہ حدیث مذکور)
تشریح: ’’جہاد‘‘ میں جسم کو تھکادینے والی دوڑدھوپ کرنی پڑتی ہے اور مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مال بھی خرچ کرنا پڑتا ہے۔
’’ماں باپ کے حق میںجہاد کرو‘‘کامطلب یہ ہے کہ ان کو راحت و آرام پہنچانے کے لئے ان پر اپنا مال خرچ کرو، ان کی خدمت اورفرماں برداری میں اس حد تک محنت کرو جو تمہارے جسم کو تھکادے، ان کی دل جوئی اور رضاطلبی کے لئے سرگرم ہوجائو۔
(۱) جاہمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:’’میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ سے جہاد میں شریک ہونے کامشورہ طلب کیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کیا تیرے ماں باپ موجود ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: تو ان کے ساتھ رہ، جنت ان کے پائوں کے نیچے ہے۔ (ان کے ساتھ نیک سلوک کرنے سے جنت ملے گی)۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح کتاب الادب بحوالہ طبرانی)
(۲) ایک آدمی اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: ’’آپ سے ’’ہجرت‘‘ (اللہ کی رضا کے لئے ترکِ وطن) پر بیعت کرنے کے لئے آیا ہوں اور میں (اس ارادے کی وجہ سے ) اپنے ماں باپ کو روتا ہوا چھوڑآیاہوں۔ آپ نے فرمایا: ان کے پاس لوٹ جااور نہیں ہنسا جیسا کہ تو نے رُلایا۔‘‘