اسلام کو جو صفات مطلوب ہیں ان میں والدین کی اطاعت بھی شامل ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور اطاعت ایسے کام ہیں کہ اللہ رب العزت بھی اس سے خوش ہوتے ہیں اور یہی حقیقت میں تزکیہ نفس ہے۔ آپ کتنے ہی بڑے آدمی بن جائیں، والدین کے لیے آپ وہی ہیں جو کبھی چھوٹے ہوا کرتے تھے۔ آپ کی ہر ایک ادا سے والدین خوش ہوتے تھے۔ آپ کی والدہ نے آپ کو کس طرح پالا پوسا، یہ وہی جانتی ہے۔ وہ رات کو جاگ کر بچے کو دودھ پلاتی ہے۔ ذرا سا بیمار ہوجائے وہ ساری رات کرب میں گزارتی ہے۔ تم بڑے ہوگئے ہو، اسکول سے کالج پہنچ گئے، ڈگری مل گئی پھر اعلیٰ عہدے پر فائز ہوگئے اور اب والدین بیٹے پر فخر کر رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے والدین کے حوالے سے کچھ آداب اور اصول بتا دیے کہ جس طرح صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کی جائے گی، اسی طرح والدین کے ساتھ احسان کیا جائے گا۔ اگر دونوں میں سے ایک یا دونوں ہی برھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہیں کہنا، نہ ہی انہیں جھڑکنا ہے۔ ان کے ساتھ بڑی نرمی سے گفت گو کرنی ہے۔ والدین کے سامنے محبت سے جھک کر ان کے لیے دعائیں کرنی ہیں کہ اے میرے رب ان پر رحم کر، جس طرح انھوں نے بچپن میں مجھ پر رحم کیا اور میری تربیت کی ہے۔ ایک شخص نے اللہ کے رسولؐ سے دریافت کیا: اللہ کے رسولؐ! بتائیے میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ اس نے پھر پوچھا: اس کے بعد؟ تو ارشاد ہوا: ’’تیری ماں‘‘ اس نے پھر پوچھا: اللہ کے رسولؐ! اس کے بعد کون ہے؟ آپؐ نے پھر ارشاد فرمایا: ’’تیری ماں‘‘ چوتھی مرتبہ ارشاد فرمایا: ’’تیرا باپ۔‘‘
والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بے شمار واقعات ہیں مگر ایک موثر واقعہ میرے سامنے ہے۔ ایک بوڑھا باپ اپنے پچیس سالہ بیٹے کے ساتھ گھر میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ اچانک کسی نے دروازے پر دستک دی۔ نوجوان اٹھا، دروازہ کھولا تو سامنے ایک اجنبی شخص نظر آیا۔ اس کے چہرے پر کرختگی اور ناراضی کے آثار تھے۔ سلام نہ دعا، وہ سیدھا اندر چلا آیا۔ نوجوان کے والد کے چہرے پر پریشانی کے آثار نظر آرہے تھے۔ اس آدمی نے آتے ہی اس بوڑھے سے کرخت لہجے میں کہا: ’’میرا قرض واپس کرو۔ اگر تم نے فی الفور قرض واپس نہ کیا تو تمہارے لیے بہت برا ہوگا۔‘‘ نوجوان نے اپنے والد کے پریشان چہرے کو دیکھا تو اسے بڑا دکھ ہوا۔ اجنبی شخص اب بدتمیزی پر اتر آیا تھا۔ نوجوان نے تھوڑا سا صبر کیا پھر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، وہ اپنے والد کی توہین برداشت نہ کرسکا۔ اس نے پوچھا: بتاؤ میرے والد کو تمہارا کتنا قرض ادا کرنا ہے۔اس نے کہا: تمہارے والد کو میرے نوے ہزار ریال دینے ہیں۔ نوجوان کہنے لگا: اب تم میرے والد کو کچھ نہیں کہوگے، بس اب یہ قرض میرے ذمے رہا، تم فکر نہ کرو۔ بیٹا اپنے کمرے میں گیا۔ وہ کافی عرصے سے اپنی شادی کے لیے پیسے جمع کر رہا تھا۔ اس کی ہونے والی دلہن اس کا انتظار کر رہی تھی۔ بڑی مشکل سے اس نے ستائیس ہزار ریال جمع کیے تھے۔ اس کے لیے تھوڑی سی رقم مزید باقی تھی ’’ میں اپنے والد کی توہین برداشت نہیں کرسکتا، شادی پھر بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ اس نے سوچا اور ستائیس ہزار ریال لاکر اس شخص کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔ فی الحال یہ ستائیس ہزار ریال پکڑو۔ باقی رقم کے بارے میں فکر نہ کرو، جلد ہی تمہیں مل جائے گی۔ اس دوران نوجوان کا باپ رونے لگا۔ یہ خوشی کے آنسو تھے کہ میرا بیٹا اتنا نیک دل ہے۔ باپ قرض خواہ سے کہنے لگا: یہ ستائیس ہزار میرے بیٹے کو واپس کردو۔ اس نے بڑی محنت سے اپنی شادی کے لیے یہ رقم جمع کی ہے۔ اس کا میرے قرض سے کچھ بھی لینا دینا نہیں۔ اب نوجوان کی باری تھی۔ اس نے قرض خواہ سے کہا: یہ رقم اپنے پاس رکھو، میں باقی قرض بھی ان شاء اللہ جلد ہی تمہیں دے دوں گا۔پھر نوجوان اٹھا اور اپنے والد کی پیشانہ پر بوسہ دیتے ہوئے کہنے لگا: بابا آپ کی عزت، آبرو، مرتبہ اور مقام اس رقم سے کہیں زیادہ ہے۔ اپ فکر نہ کریں، ہر چیز کا وقت مقرر ہے، میں بہت جلد اس کا قرض واپس کردوں گا۔ بوڑھے نے فرط مسرت سے اپنے فرماں بردار بیٹے کو گلے لگایا اور روتے ہوئے دعائیں دینے لگا: میرے بیٹے اللہ تم سے راضی ہوجائے اور تمہیں عزت و رفعت اور کامیابیاں عطا کرے۔ اس نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھادیے اور رو رو کر اللہ کے حضور اپنے بیٹے کے لیے بہت ساری دعائیں کیں۔ بیٹا بڑا ہی متقی، پرہیزگار اور فرماں بردار تھا۔ اللہ رب العزت کا وعدہ ہے کہ وہ متقی انسان کو بہترین بدلہ عطا فرماتے اور وہاں سے رزق عطا فرماتے ہیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا، و یرزقہ من حیث لایحتسب۔
ایک یا دو دن کی بات ہے کہ نوجوان اپنی ملازمت پر گیا، وہ اپنے کام میں مشغول تھا کہ اس کا ایک پرانا دوست ملنے کے لیے آگیا۔ سلام دعا کے بعد اس کا دوست کہنے لگا: میں کل شہر کے بڑے تاجر کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے پاس ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے، اس بڑے منصوبے کے لیے اسے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو نیک اور ایمان دار ہو، اعلیٰ اخلاق والا، اللہ کا خوف رکھنے والا ہو اور اس کے ساتھ اس کام کو بھی خوب سمجھتا ہو۔ اس نے مجھ سے کہا: مجھے اس منصوبے کے لیے مذکورہ صفات کا حامل شخص درکار ہے۔ میرے ذہن میں فورا تمہارا خیال آگیا۔ میں تمہیں ایک مدت سے جانتا ہوں۔ میں نے اس تاجر کے سامنے تمہارا ذکر کیا اور کہا: تمہارے اندر یہ ساری صفات موجود ہیں تو اس نے کہا ہے کہ میری اس سے ملاقات کراؤ۔ لہٰذا تمہیں لینے آیا ہوں تاکہ تم اس تاجر سے ملاقات کرلو۔ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے رزق کثیر کے دروازے کھول دے۔ نوجوان کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا ار کہنے لگا: کل میرے والد نے میرے لیے ڈھیروں دعائیں کی تھیں، لگتا ہے اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا ہے۔ حدیث رسولؐ ہے:
’’باپ کی دعا اپنی اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہے۔‘‘ اس کے بعد دونوں دوست اس تاجر کے دفتر میں جا پہنچے۔ تاجر نے اس نوجوان کا انٹرویو لیا۔ اس نے دیکھا کہ یہ نوجوان اس منصب کے لیے مناسب ترین ہے۔ اس کی تعلیم اور تجربہ بھی کام کے لائق ہے۔ وہ اس نوجوان سے ملاقات کر کے بہت مطمئن ہوا۔ اس نے پوچھا: ’’تمہاری اس وقت تنخواہ کتنی ہے؟ نوجوان نے سچ بتا دیا کہ میری حالیہ تنخواہ اتنے ریال ہے۔ وہ تاجر کہنے لگا تم کل سے ابتدا کرسکتے ہو، تمہاری تنخواہ پندرہ ہزار ریال مقرر کی جاتی ہے، اس کے علاوہ تمہیںسیل پر کمیشن بھی ملے گا جو حسن کار کردگی کی بنا پر دس فی صد تک جاسکتا ہے، ’مکان کا کرایہ‘ نئے ماڈل کی گاری اور چھے ماہ کی پیشگی تنخواہ بھی تمہیں مل جائے گی تاکہ تم اپنے گھریلو حالات درست کرسکو۔ بولو کیا تمہیں منظور ہے۔ اس نوجوان نے یہ ساری پیش کش سنی تو بے اختیار رونے لگا اور بار بار کہنے لگا: ’’اے میرے والد گرامی آپ کو مبارک ہو۔‘‘ تاجر اسے دیکھ رہا تھا، اس نے سوال کیا کہ تمہارے رونے کی وجہ کیا ہے؟ تب نوجوان نے دو دن پہلے ہونے والا سارا واقعہ بیان کیا کہ میرے والد مقروض تھے، قرض خواہ والد کو تنگ کر رہا تھا، پھر بتایا کہ کس طرح اس نے ستائیس ہزار ریال قرض واپس کیا اور بقیہ کا وعدہ کیا۔ تاجر اس نوجوان کی اپنے والد کے ساتھ محبت، ایثار اور قربانی سے اتنا متاثر اور خوش ہوا کہ کہنے لگا کہ تم نے ستائیس ہزار ریال اپنے والد کے قرض کے طور پر ادا کیے ہیں، اب باقی قرض میں ادا کروں گا۔
بہ ظاہر تو یہ واقعہ بڑا محیر العقل ہے مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں۔ اس لیے کہ نیکو کار فرماں بردار بندوں کے لیے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے کہ جہاں سے انسان کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔
جاہم بن عباسؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں: ’’اللہ کے رسولؐ غزوہ میں شرکت کا ارادہ رکھتا ہوں، آپؐ کی خدمت میں مشورہ کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ اللہ کے رسولؐ نے دریافت فرمایا: کیا تمہاری ماں زندہ ہے۔ جاہم عرض کرتے ہیں کہ ہاں وہ زندہ ہیں۔ کائنات کے امامؐ نے ارشاد فرمایا: جاؤ اپنی والدہ کی خدمت کرو کہ جنت اس کے قدموں تلے ہے۔ والدین کی خدمت اور دعائیں انسان کے لیے مصائب و مشکلات سے نجات کا باعث بنتی ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے والدین کی خدمت کریں اور ان کی دعائیں لیں تاکہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوسکیں۔