انسانی رشتوں میں سب سے عظیم رشتہ ماں باپ کا ہے، دنیا کے سارے مذاہب ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے ہیں، شریعتِ اسلامی میں بھی ماں باپ کے حقوق پر کافی زور دیا گیا ہے، قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر خدا کی عبادت کے بعد والدین سے حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے، ارشادِ خداوندی ہے:
’’اور تمہارے رب کا قطعی حکم ہے کہ صرف اسی کی عبادت اور پرستش کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھے سے اچھا برتاؤکرو‘‘۔ (بنی اسرائیل:23)
اللہ تعالیٰ نے پچھلی قوموں سے بھی اس بات کا عہد لیا تھا کہ وہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کریں، ارشادِ خدا وندی ہے:
’’اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے حسنِ سلوک کرو‘‘۔ (البقرۃ:83)
سورۂ لقمان میں ماں باپ کا حق بیان کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر بالفرض کسی کے ماں باپ کافر ومشرک ہوں اور اولاد کو بھی کفر وشرک کے لیے مجبور کریں تو اولاد کو چاہیے کہ ان کے کہنے سے کفر وشرک تو نہ کرے، لیکن دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک اور ان کی خدمت کرتی رہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک پر کافی زور دیا ہے، ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک پر جنت کی ضمانت اور ان کے ساتھ بدسلوکی پر جہنم کی وعیدیں سنائی ہیں، چنانچہ ایک شخص نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اولاد پر ماں باپ کا حق کتنا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ:421) مطلب یہ ہے کہ اگر تم ماں باپ کی اطاعت اور خدمت کے ذریعہ ان کو راضی رکھو تو جنت پاؤ گے، اس کے برعکس اگر ان کی نافرمانی اور ایذا رسانی کر کے انہیں ناراض کرو گے تو پھر تمہارا ٹھکانہ دوزخ میں ہوگا، ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی رضامندی اور خوش نودی کو والدین کی رضامندی اور خوش نودی سے وابستہ فرمایا۔
اسی طرح کی ایک اور روایت ہے کہ ایک صحابیٔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے اور میں آپ سے اس بارے میں مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: کیا تمہاری ماں ہیں؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں، ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر انہی کے پاس جاؤ اور انہی کی خدمت میں رہو، ان کے قدموں میں تمہاری جنت ہے۔ (مشکوٰۃ:421،مسندِاحمد، نسائی)
والدین کی خدمت سے آدمی کس طرح جنت کا حق دار ہوتا ہے، اس کا ایک نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دکھایا گیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں ہوں، وہیں میں نے کسی کے قرآن پڑھنے کی آواز سنی تو میں نے دریافت کیا کہ یہ اللہ کا بندہ کون ہے جو یہاں جنت میں قرآن پڑھ رہا ہے؟ تو مجھے بتایا گیا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہیں، ماں باپ کی خدمت واطاعت شعاری ایسی ہی چیز ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حارثہ بن نعمان اپنی ماں کے بہت ہی خدمت گذار اور اطاعت شعار تھے۔ (شعب الایمان)
والدین کی اطاعت وخدمت سے نہ صرف یہ کہ آخرت میں سرفراز کیا جائے گا، بلکہ خدمتِ والدین کے دنیوی اثرات بھی ہیں، ماں باپ کی خدمت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی خاص برکتوں سے نوازتا ہے، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ماں باپ کی اطاعت وخدمت اور حسن سلوک کی وجہ سے آدمی کی عمر بڑھا دیتا ہے۔
اسلام میں ماں باپ کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک پر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ والدین کے انتقال کے بعد بھی بہت سی باتوں کی تاکید کی گئی، شریعتِ اسلامی کی رو سے اولاد پر ماں باپ کے حقوق کا سلسلہ ان کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہوتا، بلکہ ان کے مرنے کے بعد بھی ان کے کچھ اور حقوق عائد ہوتے ہیں، حق کا ادا کرتے رہنا سعادت مند اولاد کی ذمہ داری اور اللہ تعالیٰ کی خاص رضا اور رحمت کا وسیلہ ہے، روایات میں اس طرح کے بعض حقوق کا تذکرہ کیا گیا ہے، چنانچہ ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک وقت جب ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، بنی سلمہ میں کے ایک شخص آئے اور انہوں نے دریافت کیا: یارسول اللہ! کیا میرے ماں باپ کے مجھ پر کچھ ایسے حقوق بھی ہیں جو ان کے مرنے کے بعد مجھے ادا کرنے چاہییں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! ان کے لیے خیرورحمت کی دعا کرتے رہنا، ان کے واسطے اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور بخشش کی دعا مانگنا، ان کا اگر کوئی عہد معاہدہ کسی سے ہو تو اس کو پورا کرنا، ان کے تعلق سے جو رشتے ہوئے ان کا لحاظ رکھنا اور ان کا حق ادا کرنا اور ان کے دوستوں کا اکرام واحترام کرنا۔
عمر کے ہر مرحلہ میں ماں باپ کی خدمت کرنی چاہیے، لیکن جب وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچیں تو ان کی اطاعت وخدمت میں کوئی کسر باقی نہ رکھنا چاہیے، اس لیے کہ بڑھاپے میں وہ اولاد کی خدمت کے محتاج ہوتے ہیں، قرآن مجید میں اس کی خاص تاکید کی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
ترجمہ:’’اگر ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا، ان سے نرمی سے بات کرنا، ان کے لیے عاجزی کے بازو بچھانا اور یوں کہنا میرے رب! اِن پر آپ رحم فرمائیے جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔‘‘ (بنی اسرائیل:24)
آدمی کے لیے خوش نصیبی کی بات ہے کہ اسے ماں باپ کا بڑھاپا ملے، اس لیے کہ یہ ماں باپ کی خدمت کر کے اللہ کی رضا اور مغفرت حاصل کرنے کا زرّیں موقع ہوتا ہے، ماں باپ کا بڑھاپا پاکر بھی اگر کوئی اپنی مغفرت کا سامان نہ کرے، تو اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور کیا ہوسکتی ہے؟ ایسے ہی بدنصیب کے سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہلاک ہو برباد ہو وہ شخص، جو اپنے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے، پھر وہ ان کادل خوش کر کے جنت حاصل نہ کرسکے۔ (مسلم)
ماں کی تکلیفوں کا ذکر قرآن میں ایک سے زائد مقامات پر کیا گیا ہے، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ماں کے حق کی زیادتی کی طرف اشارہ فرمایا، چنانچہ ایک شخص نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ مجھ پر خدمت اور حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں کا، تمہاری ماں کا، تمہاری ماں کا، اس کے بعد تمہارے باپ کا، پھر اس کے بعد جو تمہارے قریبی رشتہ دار ہوں۔ (بخاری ومسلم، مشکوٰۃ:420) ایک طرف والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی اطاعت و فرماں برداری کی اس قدر تاکید ہے، دوسری طرف ہمارے معاشرہ کی وہ صورتِ حال ہے جسے دیکھ کر سرشرم سے جھک جاتا ہے، اسلامی تعلیمات سے دوری کا اثر یہ ہے کہ ماں باپ کی خدمت تو دور رہی، بہت سے بدنصیب نوجوان اپنے والدین پردست درازی میں بھی تامل نہیں کرتے، اب تو اخبارات میں اولاد کے ہاتھوں ماں باپ کے قتل کی خبریں بھی آنے لگی ہیں، والدین کی حکم عدولی، ان کی مرضی کے خلاف کام، گفتگو کے دوران تندلہجہ اختیار کرنا اب اتنا عام ہوگیا ہے کہ کسی کو حیرت بھی نہیں ہوتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ قیامت کے قریب ماں باپ کی نافرمانی ہوگی۔ دور ِ حاضر کا یہ بھی ایک خطرناک سماجی فتنہ ہے۔ اس صورتِ حال کے ذمہ دار ایک حد تک خود والدین بھی ہوتے ہیں جنھیں اپنی اولاد کی دینی تربیت کی فکر نہیں ہوتی، ماں باپ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں، ایسی نعمت کہ جس کا کوئی بدل نہیں، دنیا کی بہت سے نعمتیں اگر فوت ہو جائیں، تو دوبارہ حاصل کی جاسکتی ہیں، لیکن ماں باپ کی نعمت دوبارہ حاصل نہیں ہوسکتی، اس نعمت کے ذریعہ آدمی اپنی دنیا بھی سنوار سکتا ہے اور آخرت بھی، اس نعمت کی ناقدری کرنے والا نہ صرف یہ کہ آخرت میں پشیمانی اٹھائے گا، بلکہ اس کی دنیا بھی بے رونق ہو جائے گی۔lll