اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا خالق ہے۔ انسانوں کی خالق اور مالک بھی اللہ ہی کی ذات ہے۔ اگرچہ انسان کی خالق مطلق اور بلاشرکت اسی کی ذات ہے لیکن ذرا انسان کی تخلیق اور ان مراحل کے بارے میں جن سے گزر کر آج ہم زندگی کے اس درجہ کو پہنچے ہیں ذرا سوچیے، غور کیجیے خالق کائنات کے بعد ہماری اس زندگی میں دوسرا اہم رول کس کا ہے؟ کیا کوئی انسان اس کا انکار کرسکتا ہے کہ ماں باپ ہی وہ ہستی ہیں، جن کا خدا کے بعد سب سے بڑا نمایاں اور اہم رول ہے۔
اور اس بات کو خود اللہ تعالیٰ نے تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ اس کے حکم کے مطابق سب سے زیادہ شکر کی حقدار اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے انسان کو بہترین ساخت (احسن تقویم) پرپیدا کیا ہے۔ اس کے بعد جی ہاں اس کے بعد شکر کی مستحق ذات اگر کوئی ہے تو وہ والدین ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
أن اشکرلی ولوالدیک الی المصیر۔
(لقمان: ۱۴)
’’میرا شکر ادا کرو اور اپنے ماں باپ کا۔ اور میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو تین اہم باتوں کا حکم دیا۔ یہ تین باتیں ایسی ہیں جن پر انسان کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا انحصار ہے۔ ایک اللہ کی عبادت کرنا، دوسرے شرک سے بچنا اور تیسرے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
واعبدوا اللّٰہ ولا تشرکوا بہ شیئا وبالوالدین احسانا۔ (النساء: ۳۶)
’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان (حسنِ سلوک) کرو۔‘‘
گویا اللہ کی عبادت اور شرک سے اجتناب کے بعد جو سب سے اہم اور بڑی چیز انسان کی زندگی میں ہے وہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک ہے اور اس کی اہمیت و عظمت قرآن کی ان دونوں آیات سے ظاہر ہوتی ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ اپنے حقوق کے فوراً بعد والدین کے حقوق کا تذکرہ کرتا ہے اور ان کی ادائیگی کی تاکید کرتا ہے۔
محسن کی شکر گزاری اور احسان مندی انسانیت اور شرافت کا اولین تقاضہ ہے۔ اور انسان کا سب سے بڑا محسن خود اس کا رب ہے اور اس کے بعد جو سب سے بڑی محسن ذات ہوسکتی ہیں وہ والدین ہیں کیونکہ انسان کے وجود کا مخصوص سبب والدین ہیں پھر والدین ہی تو ہیں جو دنیا میںآنے کے بعد اپنے بچوں کی پرورش و حفاظت کرتے ہیں ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں۔ اور ہر طرح کی قربانی دے کر ان کو اس لائق بناتے ہیں کہ وہ ایک مؤثر اور مفید وجود کی حیثیت سے سوسائٹی میں زندگی گزار سکیں۔ اس غیر معمولی قربانی اور پرخلوص سرپرستی و محبت کا فطری تقاضا یہ ہے کہ آدمی کا دل والدین کی محبت وفرمانبرداری، احسان مندی اور ان کی عظمت کے اعتراف سے سرشار ہو اور وہ دل سے ان کا شکر گزار ہو۔ ان کا یہ احسان اتنا عظیم ہے کہ اگر انسان پوری زندگی بھی والدین کی خدمت میں گزار دے تب بھی ان کا بدلہ مکمل نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول نے ہم اہلِ ایمان کو والدین کے سلسلے میں بڑی تاکید کی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث ہے۔ حضرت امامہ ؓ کا بیان ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ والدین کا اولاد پر کیا حق ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا ماں باپ ہی تمہاری جنت اور وہ ہی تمہاری دوزخ ہیں۔
کوئی آدمی زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ان سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ معاشرتی زندگی میں ان کی جو اہمیت ہے وہ تو ہے ہی آخرت کی نجات اور کامیابی کے پہلو سے ان کی اہمیت یہ ہے کہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک ان کی فرمانبرداری اور ان کو راضی رکھنے کی کوشش کرکے اولاد جنت میں اپنا گھر بناسکتی ہے اور والدین کے حقوق سے بے نیاز ہوکر اور ان کو ناراض کرکے جہنم کا ایندھن بھی بن سکتی ہے جو اولاد والدین کو خوش نہیں رکھتی اللہ تعالیٰ بھی اس سے خوش نہیں ہوتا۔
ایک مرتبہ ایک شخص آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں آپؐ سے ہجرت اور جہاد کے لیے بیعت کرتا ہوں اور اللہ سے اس کا بدلہ چاہتا ہوں۔ آپؐ نے پوچھا کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی ایک زندہ ہیں۔ اس نے کہا جی ہاں اللہ کا شکر ہے کہ دونوں ہی زندہ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا تو کیا واقعی تم ہجرت اور جہاد کا بدلہ چاہتے ہو؟ اس نے کہا جی ہاں! آپؐ نے فرمایا جاؤ لوٹ جاؤ اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔
اس وقت جب بڑھاپے اور ضعیفی کے سبب بزرگ لوگوں میں چڑچڑاپن آجاتا ہے اور لوگ انہیں حرفِ غلط کی طرح نظر انداز کرنا چاہتے ہیں، اس وقت بھی خود اللہ تعالیٰ نے تاکید کی ہے کہ ’’والدین میں سے دونوں یا کوئی ایک تمہارے پاس رہتے ہوئے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو اور نہ انھیں جھڑکو اور ان سے اچھے انداز میں بات کرو۔ اور محبت و انکساری کے بازو ان کے لیے پھیلا رکھو اور (ان کے لیے دعا کرو) کہو اے ہمارے رب ان دونوں پر اپنی رحمت فرما جس طرح (محبت ورحمت سے) انھوں نے میری پرورش کی۔‘‘
قرآن کی یہ آیت تمام اہلِ ایمان کو غوروفکر کرنے اور والدین کے اپنے طرزِ عمل کو مثبت طور پر تبدیل کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اس کی ناک خاک آلود ہو… جس نے اپنے والدین کو یا ان میں سے کسی کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوپایا۔‘‘
——