یہ تقریباً پینتیس چالیس سال پرانی بات ہے کہ ہمارے ایک دوست جو کہ سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ میں ایک بڑے عہدے پر فائز تھے، WHO کے ایک پروگرام کے تحت امریکہ گئے۔ انہوں نے وہاں سے واپسی پر یہ واقعہ بتایا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک پارک میں گھوم رہے تھے کہ ایک جگہ دس پندرہ بوڑھے امریکن بیٹھے تھے۔ انہوں نے مجھے اپنے پاس بلا لیا۔ علیک سلیک کے بعد تعارف ہوا۔ انہوں نے سوال کیا کہ تمہارے ملک میں بوڑھوں کا کیا اسٹیٹس ہے۔ میں نے جواب دیا کہ فیملی کے سر براہ ہوتے ہیں۔
میرے اس جواب پر وہ آپس میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ پھر سوال کیا گیا، اچھا یہ تو بتاؤ کہ نوجوانوں کی شادی بیاہ کے فیصلے کون کرتا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ وہی کرتے ہیں۔ وہ پھر ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ پھر پوچھا: اچھا یہ تو بتاؤ کہ کیا ان کی بہوئیں، ان کے پوتے پوتیوں کو ان کے پاس آنے دیتی ہیں؟ میںنے کہا کہ وہ تو زیادہ تر ان کے پاس ہی کھیلتے ہیں۔ وہ پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ بولے! ہمیں تمہاری باتوں کا یقین نہیں آتا۔ ’’لیکن اگر یہ سچ ہے تو پھر تم جنت میں رہتے ہو۔‘‘
یہ سارے امریکی بوڑھے ایک اولڈ ہاؤس میں رہتے تھے۔ پتا چلا کہ ان کے بچے انہیں یہاں چھوڑ گئے اور کبھی ملنے بھی نہیں آتے اور وہ ان کی شکلیں دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔
انہوں نے ایک دوسرا واقعہ بتایا کہ ہم ایک شخص سے ملنے اس کے آفس میں گئے، گفتگو کے درمیان فون آگیا، اس شخص نے بڑی ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’کفن دفن والی کمپنی کی طرف سے اطلاع تھی کہ تمہارے والد کی موت ہوگئی ہے۔ بھلا مجھے کیا کرنا ہے۔ دفن کر کے بل بھیج دو مجھے کیوں ڈسٹرب کر رہے ہو۔‘‘
آج سے تقریباً دس سال پیشتر میرے کلاس فیلو کے والد صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اپنے دوست (جو کہ آسٹریلیا چلا گیا تھا) کے بارے میں پوچھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بولے! میں تو اس کی اور اس کے بچوں کی شکلیں دیکھنے کو ترس گیا ہوں، نہ خط، نہ فون اور نہ کوئی رابطہ۔ اسی لیے اپنے دوسرے بیٹوں کو صرف میٹرک تک پڑھایا اور دکانیں کھلوا دیں تاکہ وہ میرے پاس تو رہیں گے۔
ایک امریکہ میں ہے اور دوسرا کنیڈا میں۔ اس کے بعد ڈھاریں مار مار کر رونے لگے۔ ذرا سے نارمل ہوئے تو گویا ہوئے کہ انہوں نے وہاں پر شادیاں رچالی ہیں اور وہیں کے ہوکر رہ گئے ہیں اور آپس میں کوئی رابطہ نہیں۔
ایک صاحب آرمی کے ایک ریٹائرڈ جنرل ہیں، وہ اور ان کی اہلیہ اپنے گھر میں اکیلے رہائش پذیر ہیں۔ بیٹے باہر چلے گئے، کوئی پوچھتا بھی نہیں کہ کس حال میں ہو؟ زندہ بھی ہو؟ یہ شکایت عموما سنی جا رہی ہے لیکن اب معاملہ اس سے بہت آگے نکل گیا۔
در اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ کسی سیکولر معاشرے کی آنکھیں بند کر کے پیروی کریں گے تو رزلٹ بھی ویسے ہی آئیں گے۔ ہم نے ان معاشروں کی مادی ترقی سے متاثر ہوکر ان کی اندھا دھند پیروی شروع کردی۔ ہم نے یہ نہ دیکھا کہ جن کو رول ماڈل بنا رہے ہیں، ان کی اخلاقی حالت کیا ہے؟ کیا وہاں مردوں کی مردوں سے اور عورتوں کی عورتوں سے شادیاں نہیں ہوتیں؟ بغیر شادی کے بچے پیدا کرتے ہوئے شرمندہ نہیں ہوتے۔ رشتوں کا بھی خیال نہیں کرتے۔ حقوق انسانی کے نام پر ہزاروں عورتوں کے عریاں جلوس نہیں نکلتے ہیں۔ کیا زنا پر کوئی پابندی ہے؟ کیا ہر دس عورتوں میں سے ایک پر جنسی تشدد نہیں ہوتا، کیا تین تین، چار چار، سالہ بچیوں کو ریپ نہیں کیا جا رہا، کیا امریکہ میں اسٹریٹ کرائمز کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ نہیں۔ کیا نیو یارک میں سب سے زیادہ قتل عورتوں کے نہیں ہوتے، کیا شاہراہوں پر اسّی فیصد ڈرائیور قتل نہیں ہوتے۔ کیا دفاتر میں کام کرنے والی ۹۰ فی صد عورتیں ریپ نہیں ہوتیں…؟ کیا ایسے لوگوں کو ہم نے رول ماڈل نہیں بنایا ہے، اور ہم اپنے معاشرے کو اس کی طرف لے جا رہے ہیں؟
یہ برائیاں ہمارے آباء و اجداد میں کیوں نہیں تھیں؟ اس وقت تو محلے کے لوگ تمام بزرگوں کا ادب و احترام کرتے تھے۔ محلے کی عورتیں، کسی بزرگ کو دیکھ کر دروازے کی اوٹ میں ہو جایا کرتی تھیں۔ جہاں کسی بزرگ نے کھانس کر اپنی آمد کی اطلاد دی، تمام عورتوں کے سروں پر دو پٹہ آجاتا تھا اور بھاگ کر گھر میں گھس جاتی تھیں کیوں کہ یہ مشرقی تہذیب کا حصہ تھا جہاں ادب و احترام اور سنجیدگی و شائستگی لازم تھی۔
اللہ رب العالمین ہمارا خالق ہے، مالک ہے، ملجا ہے، ماوا ہے۔ وہ ہمارے خمیر سے واقف ہے اور ہماری جبلت سے بھی۔ اسی لیے اس نے قرآن پاک میں بار بار والدین سے حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس (اللہ) کی ۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان کے ساتھ احترام کے ساتھ بات کرو۔ اور نرمی اور رحم کے ساتھ، جھک کر رہو۔ اور دعا کیا کرو ’’پروردگار! ان پر رحم فرما، جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔ (بنی اسرائیل:۲۳،۲۴)
سورہ لقمان میں حضرت لقمان کے ذریعے کہلوایا گیا: ’’بیٹا! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ اور ’’یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہنچاننے کی تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اسی لیے ہم نے اسے نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور والدین کا شکر بجالا۔‘‘ (لقمان:۴۱)
اطاعت، رضا جوئی، خدمت والدین کے حقوق میں یہ سب داخل ہیں۔ والدین کے اس حق کو قرآن میں توحید کے بعد فرمایا گیا ہے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ بندوں کے حقوق میں سب سے مقدم حق والدین کا حق ہے۔
رسول اللہﷺ نے بھی والدین کے حقوق کے بارے میں بڑی تاکید فرمائی ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:
(۱) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا
(۲) والدین کی نافرمانی اور ایذا رسانی
(۳) کسی بندے کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔
عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اپنے والدین کو گالی دینا بھی کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔ عرض کی، والدین کو کون گالی دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جب تم کسی کے باپ کو گالی دوگے تو وہ بھی تمہارے باپ کو گالی دے گا۔ یہ بات بھی اپنے والد کو گالی دینے میں ہی شمار ہوگی۔‘‘ (بخاری و مسلم)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: وہ آدمی ذلیل ہو، خوار ہو، رسوا ہو۔ عرض کیا گیا، یا رسول اللہؐ کون؟ آپ نے فرمایا: وہ بد نصیب جو ماںباپ کو، یا دونوں میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میںپائے، پھر ان کی خدمت اور ان کا دل خوش کر کے جنت حاصل نہ کرلے۔‘‘ (صحیح مسلم)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ماں باپ کی خدمت و فرماں برداری اور حسن سلوک کی وجہ سے آدمی کی عمر بڑھا دیتا ہے۔ (مسند ابن منبع کامل ابن عدی)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اپنے ماں باپ کی خدمت و فرماں برداری کرو، تمہاری اولاد، تمہاری خدمت گزار ہوگی، اور تم پاک دامنی کے ساتھ رہو، تمہاری عورتیں پاک دامن رہیںگی۔‘‘ (معجم اوسط للطبرانی)
بعض لوگ اپنے والدین کو روپے پیسے بھیج کر مطمئن ہوجاتے ہیںکہ ہم نے اپنے والدین کا حق ادا کر دیا۔ نہیں، یہ بات درست نہیں۔ والدین کو تمہاری رفاقت کی بھی ضرورت ہے انہیں اکیلا نہ چھوڑو، انہیں تمہاری کمپنی کی بھی ضرورت ہے۔
حضرت موسیٰ کلیم اللہ کوہِ طور پر ایک درخت کے پاس (جو کہ آج بھی موجود ہے) اللہ رب العالمین سے ہم کلام ہوئے تھے… ایک روز اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ جنت میں تیرا پڑوسی فلاں قصاب ہوگا، موسیٰ علیہ السلام مذکورہ قصاب کی دکان پر جا پہنچے۔
قصاب گوشت فروخت کر رہا تھا اور اچھی اچھی بوٹیاں ایک طرف رکھتا جا رہا تھا۔ اس کا رویہ بھی گاہکوں کے ساتھ بڑا درشت تھا۔ جب تمام گوشت فروخت ہوچکا تو قصاب حضرت موسیٰ سے گویا ہوا کہ تمہیں کیا چاہیے؟ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں مسافرہوں اور آج تیرا مہمان بننا چاہتا ہوں۔ قصاب ان کو اپنے گھر لے گیا۔ اس نے وہ بہترین گوشت خود پکایا اور اپنی بے حد بوڑھی والدہ کو اپنے ہاتھوں سے کھلایا۔ اس کی والدہ نے اسے دعا دی، کہ اللہ کرے کہ تم جنت میں موسیٰ علیہ السلام کے پڑوسی بنو!
قصاب نے حضرت موسیٰ سے اپنی آمد کا مقصد پوچھا تو حضرت موسیٰ نے تمام ماجرا کہہ سنایا۔
اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا کرو اور عملی طور پر ان کی خدمت کرو اور ان کو اپنے سے ورنہ کرو۔ انہیں روٹی کپڑا اور مکان ہی درکار نہیں، تمہاری صحبت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر انہیں بھی وقت دیا کرو۔
اگر تمہارے بچے، تمہاری نظروں سے کچھ دیر کے لیے اوجھل ہوجائیں تو تم کو کتنی پریشانی ہوتی ہے، تو کیا تمہارے والدین تمہیں نہ پاکر پریشان نہ ہوتے ہوں گے؟lll