انسان کی تخلیق خدائے واحد کی قدرت کا کرشمہ ہے ہم سب اسی کی مخلوق ہیں۔ لہٰذا ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم سب اسی ایک خدا کی طاعت و بندگی کریں۔ آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس نے ہمیں پیدا کیا اور جس کے دیے ہوئے رزق پر ہم اپنی زندگی بسر کررہے ہیں اور یہ سارا کارخانۂ عالم اسی کی تدبیر سے چل رہا ہے اس کو چھوڑ کر ہم کسی غیر کی پرستش کریں اور اپنی ضروریات زندگی کے لیے ان لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائیں جو خود اس خدائے واحد کے محتاج ہیں۔
جو لوگ محض اپنے دنیوی مفاد کی خاطر خدا کی بے جان مخلوق کی عبادت کرتے ہیں اور بے جان بتوں کی پرستش کرتے ہیں آخرت کی ابدی زندگی میں بہت برا نتیجہ انھیں دیکھنا پڑے گا۔ کیونکہ روزِ قیامت مشرکوں کی بخشش نہیں ہوگی۔ جس دن قیامت واقع ہوجائے گی اللہ تعالیٰ مشرکوں سے سوال کرے گا۔ ’’کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم گمان رکھتے تھے۔‘‘ یہ قول جن پر چسپاں ہوگا وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! بے شک یہی لوگ ہیں جن کو ہم نے گم راہ کیا تھا۔ انھیں ہم نے اسی طرح گم راہ کیا جیسے ہم خود گم راہ ہوئے ہم آپ کے سامنے برأت کا اظہار کرتے ہیں، یہ ہماری تو بندگی نہیں کرتے تھے۔‘‘ (القصص، ۶۲-۶۳)
اس دن مشرکوں کے پیشوا ان کے آقا اللہ تعالیٰ سے خود اپنی صفائی پیش کریں گے کہ کسی طرح بس ہماری جان بچ جائے وہ محسوس کریں گے کہ اب آگئی ہماری شامت۔ یہ ہمارے سابق پیرو ضرور کہیں گے کہ یہ لوگ ہماری گمراہی کے اصل ذمہ دار ہیں۔ اس لیے پیروؤں (مشرکوں) کے بولنے سے پہلے وہ خود سبقت کرکے اپنی بات کہیں گے کہ ’’ہم نے زبردستی ان کو گمراہ نہیں کیا تھا، ہم نے نہ ان سے بینائی اور سماعت سلب کی تھی نہ ان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چھین لی تھیں اور نہ ہی ہم جبراً ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں غلط راستے پر لے گئے، بلکہ جس طرح ہم خود اپنی مرضی سے گم راہ ہوئے تھے، اسی طرح ہم نے بھی ان کے سامنے گمراہی پیش کی اور انھوں نے اپنی مرضی سے اس کو قبول کیا۔ ہم اپنے فعل کے ذمہ دار ہیں اور یہ اپنے فعل کے ذمہ دار۔
آج دنیا میں لوگ جس شیطان کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں وہی شیاطینِ جن و انس ہیں جن کو دنیا میں خدا کا شریک بنایاگیا تھا۔ اللہ رب العزت کے سامنے (مشرکوں سے) کہیں گے: ’’میں خود مانتا ہوں کہ جو بھروسے میں نے تمھیں دلوائے جن فائدوں کے لالچ تمھیں دیے جن خوشنما توقعات کے جال میں تم کو پھانسا اور سب سے بڑھ کر یہ یقین جو تمھیں دلایا کہ آخرت و آخرت کچھ بھی نہیں ہے اوراگر ہوئی بھی تو فلاں حضرت کی تصدیق سے تم صاف بچ نکلو گے بس ان کی نذر و نیاز کی رشوت پیش کرتے رہو یہ ساری باتیں جھوٹ تھیں۔‘‘
’’اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے دعوے کیے تھے، ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا۔‘‘ (ابراہیم:۲۲)
شرک کی صرف ایک یہی صورت نہیں ہے کہ کوئی شخص عقیدتاً کسی غیر اللہ کو خدائی میں شریک ٹھہرائے اس کی دوسری صورت یہ بھی ہے کہ وہ خدائی سند کے بغیر یا احکام خداوندی کے علی الرغم اس کی پیروی اور اطاعت کرتا چلا جائے ایسا پیرو اگر اپنے پیشوا اور مطاع پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی عملاً یہ روش اختیار کررہا ہو تو قرآن کی رو سے وہ اس کو خدائی میں شریک بنائے ہوئے ہے، چاہے شرعاً اس کا حکم بالکل وہی نہ ہو جو اعتقادی مشرکین کا ہے۔
’’دین کے معاملہ میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘ (البقرۃ :۲۵۶)
——