وراثت

سلطان جمیل نسیم

جوانی کی دیوار سے ادھر بچپن کے ساتھ ایک ہی خواہش کھیلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ کسی طرح ابا کی کرسی پر براجمان ہوجاؤں۔

اس دن ابا کو کہیں جانا تھا اور ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ پہلے ڈرائیور اسکول سے لے کر اسے گھر پہنچائے اور پھر ابا کو لینے کے لیے آئے۔ اس کا حل یہ نکالا کہ اسکول سے گھر بھیجنے کے بجائے اسے دفتر بلالیا۔ اس طرح ابا اپنی میٹنگ میں بھی وقت پر پہنچ جائیں گے اور پھر گاڑی اسے بھی گھر پہنچادے گی۔

اس بہانے وہ پہلی مرتبہ ابا کے دفتر پہنچا۔ ایسا تو اس کے پرنسپل کا دفتر بھی نہیں تھا۔ یہ بڑی چمکدار میز، اس پر دو ٹیلی فون، خوبصورت قلمدان، ہاتھی دانت کے دستے کا بنا ہوا کاغذ تراش، برفی کے ٹکڑے جیسے شیشے کے پیپرویٹ جن میں رنگین پھول بنے تھے۔ سارے فرش پر بچھا ہوا دبیز قالین، کھڑکیوں پر وینشن بلائنڈ، کرسی کے پیچھے دیوار پر خوبصورت تصویر اور سامنے کی دیوار پر کسی معروف مصور کی بنائی ہوئی جہازی سائز کی پینٹنگ اور ساتھ ہی کوکتی ہوئی گھڑی۔ پھر یہ بھی نہیں کہ جس کا جی چاہے منھ اٹھا کر سیدھا دفتر میں چلا آئے بلکہ ابا کے دفتر سے پہلے ایک چھوٹا سا کمرہ اور ایک چھوٹی سے میز، اس پر بٹن والا ایک ٹیلی فون،سائڈ ریک پر سجا ہوا چائے بنانے کا سامان، دوسری جانب ایک کمپیوٹر، پھر فائلوں سے بھری مگر پالش کی ہوئی الماری اور ساتھ ہی لوہے کی گھومنے والی کرسی پر بیٹھا ہوا ایک اسمارٹ سا سکریٹری، جو بھی ابا سے ملنا چاہے پہلے سکریٹری سے بات کرے۔ وہ ملاقاتی کے کوائف سے ابا کو آگاہ کرے وہ اگر ملنے کی حامی بھرلیں تو مسکرا کر ملنے والے سے کہے:

’’اندر تشریف لے جائیے، صاحب آپ ہی کے انتظار میں ہیں۔‘‘

اور اگر ابا مصروف ہوں تو انتظار کرنے کی تاکید یا پھر کسی اور دن، وقت مقرر کرکے آنے کی ہدایت۔ سکریٹری کے کمرے کے باہر، دروازے سے ذرا ہٹ کر ابا کے نام کی تختی۔ اور تختی کے بالکل نیچے، اسٹول پر بیٹھا ہوا باوردی چپراسی۔ جس کاکام آنے والوں کے لیے دروازہ کھولنا، سکریٹری کی گھنٹی پر’جی ساب‘ کہتے ہوئے اندر جانا، اور ابا کے آنے یا جانے کے وقت کھڑے ہوکر سلوٹ کرنا۔

اس طمطراق والے دفتر میں، ابا کی کرسی، پل بھر میں آدمی بیٹھے بیٹھے گھوم جائے۔ اس کرسی پر بیٹھنے کے بعد ابا کا رعب داب سونے پر سہاگہ، اس کا عملی مظاہرہ بھی اس کی موجودگی میں ہوگیا۔

سکریٹری نے فون پر کچھ اطلاع دی۔ ابا نے تحکمانہ انداز میں کہا:

’’لیٹ دیم کم‘‘

پھر قدوقامت اور چہرے مہرے کے لحاظ سے شیر جیسے تین آدمی اور ان کی قیادت کرتا ہوا مکھی جیسا ایک شخص۔ چاروں کمرے میں ایسے آئے جیسے شیر کی کچھار میں داخل ہوئے ہوں۔ جیسے کمرے میں آنے سے پہلے سکریٹری نے ان کا سارا خون نچوڑ لیا ہو۔ رہی سہی کسر ابا کے چہرے، ان کی کھنچی ہوئی بھنویں اور گھومتی ہوئی کرسی کو دیکھ کر پوری ہوگئی۔ وہ تینوں تو دہشت کے مارے بالکل بھیگی بلّی بن گئے مگر اس مکھی جیسے شخص کے چہرے پر ابا کا رعب خوشامد کی روشنی بن کر پھیل گیا اور اس کے ہونٹوں پر مسکین سی مسکراہٹ کے سائے لرزنے لگے۔

ابا نے اپنی بھاری بھرکم آواز میں پوچھا: ’’یس؟‘‘

اور اس ’’یس‘‘ کے جواب میں ان تینوں کے گلے خشک ہوگئے رنگ پھیکا پڑگیا، آنکھیں جھک گئیں، چوتھا ابا کی میز کی طرف آتے ہوئے بھنبھنایا: ’’سر … ان تینو ںکا کیس…‘‘

’’مسٹر صدیقی… آپ کو معلوم ہے مجھے کتنے ضروری اپائنٹمنٹ پر جانا ہے اور آپ چلے آئے ہیں یہ فضول سا کیس لے کر… یہ وقت ہے ایسے کام کا؟‘‘

’’سر — بجا فرمایا آپ نے ، میں نے ان تینوں سے کہا بھی تھا کہ آج صاحب بہت مصروف ہیں۔ مگر سر ان کا اصرار تھا کہ …‘‘

’’کس کا اصرار تھا؟‘‘ ابّا نے گھور کر ان تینوں کی طرف دیکھا جن کی نگاہیں مسلسل اپنے ہی قدموں پر لوٹ رہی تھیں۔ پھر ان میں سے ایک نے نظریں اٹھائے بغیر ، تھوک نگل کر کہا:

’’جناب…‘‘

’’شٹ اپ— تم سمجھتے ہو میں سارا دن اپنے آفس میں بیٹھا رہتا ہوں تو مجھے کچھ نہیں معلوم ہوتا؟ تمہاری ایک ایک حرکت کی خبر ہے مجھے۔ ورغلاتے ہو ورکرز کو، بغاوت پر اکساتے ہو، کام نہیں کرنے دیتے۔ پھر یہ اوور ٹائم کا مطالبہ بھی تم نے ہی اٹھایا ہے۔‘‘

’’سر — یہ وعدہ تو لے لیا ہے میں نے ان سے کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ حلف اٹھایا ہے سب کے سامنے انھوں نے ۔ سر— ان کی ضرورت جائز ہے میں نے اچھی طرح چھان بین کرلی ہے۔ بس سر ! یہاں سگنیچر — اور سر— انھوں نے یہ بھی اقرار کرلیا ہے کہ شام کو جانے سے پہلے سارا مال پیٹیوں میں رکھ دیا کریں گے— ارے تم لوگ بھی بولو کچھ— یہی قسم کھائی ہے ناتم نے۔‘‘

ان تینوں نے رحم طلب نظروں سے ابا کی طرف دیکھتے ہوئے اقرار میں سر ہلایا۔ منمناتی آواز میں کہا:

’’جی جناب۔‘‘

ابانے کاغذ تراش ہاتھ سے رکھا۔ انگشتِ شہادت اور انگوٹھے کے ٹھوکے سے فائل کو اپنے سامنے سے ہٹاتے ہوئے اس مکھی جیسے آدمی سے کہا۔

’’ٹھیک ہے — اگر یہ اپنی غلطی مانتے ہیں تو اس مرتبہ معاف کیے دیتا ہوں، کل پیش کیجیے اس کیس کو— اور سن رکھو تم لوگ بندے بن کر رہو۔ اگر آئندہ تمہاری کوئی شکایت ملی تو ساری اکڑفوں نکال دوں گا۔ ڈس مس کردوں گا تم سب کو۔ جیل الگ بھجواؤں گا۔ سڑتے رہوگے ساری عمر کال کوٹھری میں۔ اور یہ غنڈوں کی طرح مونچھیں کیوں بڑھا رکھی ہیں۔ کل آدمیوں کی صورت لے کر آؤ میرے سامنے۔‘‘

اُف اللہ! پرنسپل کا رعب تو اس کے پاسنگ بھی نہیں۔

وہ ابا کے دفتر کی تمام جزئیات اور وہاں گزارے ہوئے وقت کی سب چھوٹی بڑی یادیں لے کر گھر پہنچا تو اس نے اپنی ماں سے کہا کہ وہ ابا کی کرسی پر ان جیسے دفتر میں بیٹھنا چاہتا ہے۔ ماں نے بڑے دلار سے اس کے بال سنوارتے ہوئے دفتر پہنچنے کی ترکیب بتائی۔

’’اگر تم کو اپنے ابا جیسا دفتر چاہیے تو خوب پڑھو۔‘‘

ابا جیسا دفتر ، ان کی جیسی کرسی، اس خواہش کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے وہ ہائی اسکول کی دیوار پھاند گیا۔

دو سال کالج کی فضا میں رکھنے کے بعد ابا نے اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے اور فنی تربیت حاصل کرنے کی غرض سے ولایت بھیج دیا۔

جب اس نے پہلے کورس میں کامیابی کی اطلاع دی تو ابا نے اسے اپنے ہی ادارے میں شامل کرلینے کی خوشخبری کا تحفہ بھیجا۔

ولایت میں اپنے قیام کے دوران اس نے ایگزیکٹیو بورڈ کے تمام ہی ممبران کی میزبانی کے فرائض انجام دے دیے اور اسی عرصہ میں یہ بھی ہوتا رہا کہ ادھر وہ اپنی کسی کامیابی کی اطلاع دیتا اور ادھر ابا اس کو ترقی کی نوید کا تحفہ بھیج دیتے۔

ابا نے اپنا آفیشیل اور سوشل اسٹیٹس بنانے پر جتنی توجہ دی تھی اتنی ہی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ اس کے مستقبل کو سنوارنے پر توجہ صرف کی تھی۔ ہر خط میں دوچار کام کی باتیں لکھ دیتے اور وہ بھی ان گر کی باتوں کو ذہن میں نقش کرنے کے ساتھ ساتھ ڈائری میں بھی درج کرلیتا تھا اور اکثر رات کو سونے سے پہلے وہ اس ڈائری کی ورق گردانی کرتا تھا۔

اپنے ساتھیوں میں بیٹھ کر وہ ابا کی سکھائی ہوئی باتیں اس طرح دہراتا جیسے انہیں زندگی گزارنے کا فن سکھا رہا ہو۔ وہ کہتا:

’’بھئی کبھی غور کیا ہے کہ ایک ادارے میں دو ایم اے پاس ملازم ہیں۔ ایک افسر اعلیٰ ہے اور دوسرا ماتحت سے بھی نیچے یعنی کلرک ہے۔ حالانکہ دونوں نے ایک ہی ٹائپ کا کورس پڑھ کر ڈگری لی ہے پھر یہ فرق کیوں۔ یہ اس لیے کہ جو افسر ہے اس نے اپنی جاب میں خود کو گم کررکھا ہے۔ اپنے سپیریئر سے تعلق بھی اچھا رکھا ہے۔ وہ ٹائم سے زیادہ ڈسپلن کا خیال رکھتا ہے۔ ضرورت کو دیکھتے ہوئے صبح نو بجے کے بجائے آٹھ بجے بھی آجاتا ہے۔ شام کو ٹھیک پانچ بجے کرسی نہیں چھوڑدیتا بلکہ اس وقت تک بیٹھا رہتا ہے جب تک اس کا باس دفتر میں موجود ہے۔ گویا وقت کا استعمال اسے آتا ہے اسے Utilization of Timeکہتے ہیں۔ اور یہی وہ خصوصیت ہے کہ وہ کلر ک نہیں ہے۔ اصل بات یہ نہیں ہے کہ آپ کام کتنا کرتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ کام کتنا لیتے ہیں۔ کام لینے کا فن آجائے تو سمجھ لو اونچی کرسی تمہارے انتظار میں ہے۔‘‘

اس کو اپنے ادارے کے ایک ایک فرد کا حال ابا نے اتنی تفصیل کے ساتھ لکھ بھیجا تھا کہ وہ ہزاروں میل دور رہتے ہوئے بھی ادنیٰ واعلیٰ سب سے متعارف ہوگیا تھا۔ یہی سبب تھا کہ جب بھی بورڈ کا کوئی ممبر اس کا مہمان بنتا اور اس کے سوالات اور تجاویز سنتا تو حیران رہ جاتا۔ پھر واپس ہونے پر ابا کو بیٹے کے جینئس ہونے کی اطلاع دیتا۔

اس عرصے میں ابا اس سے ملنے کے لیے پانچ سو مرتبہ آسکتے تھے لیکن نہیں آئے۔ بس ٹیلی فون پر بات کرتے یا خط لکھ کر اس میں’ کانفیڈنس ڈیولپ‘ کرتے رہے۔

اس کی واپسی میں ابھی چند ماہ کی دیر تھی کہ ایک دن صبح ابا کا بھیجا ہوا میسج ملا کہ ایک اضافی ترقی اور اس کے حصے میں آگئی ہے اور اب وہ عہدے میں ان کے برابر ہوگیا ہے اور شام کو ماں کا فون ملا کہ ابا دفتر سے گھر آتے ہوئے گزر گئے۔

اس کا جی تو بہت چاہا کہ آخری مرتبہ ابا کا چہرے دیکھنے اور غمزدہ ماں کو دلاسہ دینے کے لیے وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چل دے۔ مگر ہوا صرف اتنا کہ رات جب سونے کے لیے لیٹا تو آنکھوں کے کونوں پر نمی کا احسا ہوا پھر اندھیرے یخ کمرے نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھاتو وہ تکیہ پر اوندھے منہ لیٹا سسکیاں لے رہا تھا۔

ائیرپورٹ پر اس کے استقبال کے لیے ادارے کے کئی سینئر افسران موجود تھے جنھوں نے ہار بھی ڈالے اور ابا کی تعزیت بھی کی۔ گاڑی کا دروازہ بھی کھولا اور راستے میں چند دفتری اطلاعات بھی فراہم کیں۔ اس نے ہر بات نظر انداز کرکے صرف اتنا پوچھا: ’’میرا آفس سیٹ کردیا ہے۔‘‘

’’جی صاحب۔‘‘

’’وہی ابا جی والا کمرہ ہے؟‘‘

’’نہیں سر — وہ تو خاصا چھوٹا تھا۔ جہاں پہلے ایم ڈی صاحب بیٹھا کرتے تھے اسی کو نئے سرے سے ڈیکوریٹ کردیا ہے۔‘‘

اس نے اپنے لیے ابا کے دفتر سے بڑے کسی دفتر کا تصور نہیں کیاتھا۔ خیر — کل دیکھ ہی لیں گے۔ ویسے میرے آفس کو بہت شاندار ہونا چاہیے۔ بالکل ابا کے — مگر یہ لوگ تو کہہ رہے تھے کہ اس سے بھی بڑا ہے۔ یقینا اسی حساب سے آراستہ بھی کیا ہوگا۔

وہ رات بھر جاگتا رہا۔

ماں سمجھتی رہی کہ باپ کے غم نے نیند اچاٹ کردی ہے۔ مگر وہ — وہ تو ابا جیسی کرسی پر بیٹھا گھوم رہا تھا۔ کبھی اس طرف کبھی اس طرف۔ صبح دفتر کے لیے تیار ہونے میں جو طور طریق اس کے والد اختیار کیا کرتے تھے اس نے بھی ان ہی کو اپنایا۔

دفتری عمارت کے اندر جب اس کی سیاہ رنگ کی گاڑی جاکر رکی اور باوردی شوفر کے دروازہ کھولنے سے پہلے کئی افسر دروازہ کھولنے کے لیے لپکے تو وہ زیرِ لب مسکرایا اور اپنا سن گلاس اتار کر جیب میں رکھا اور گاڑی سے باہر آگیا۔ استقبال کرنے والوں میں کل ائیر پورٹ پر ریسیو کرنے والے افسران کے ساتھ دوسرے افسر بھی موجود تھے۔ سب سے تعار ف کرایاگیا۔ چار چھ سے مصافحے کرنے کے بعد وہ جس شخص کے سامنے پہنچا وہ سوٹ پہنے ہوئے تھانہ ٹائی باندھے ہوئے بلکہ لباس ہی قاعدے کا نہیں تھا۔ کھلے گریبان — موٹے فریم کے چشمے سے ڈھکی ہوئی آنکھوں اور اٹینشن لوگوں کی قطار میں وہ منحنی سا شخص اپنی دھج اور انداز کے سبب خاصہ نمایاں تھا۔

تعارف کرانے والا افسر کہہ رہا تھا:’’یہ مسٹر ویر سنگھ ہیں — یونین کے سکریٹری جنرل۔‘‘

اب تک جس دبیز قسم کی مسکراہٹ کے ساتھ وہ سارے افسران سے ہاتھ ملاتا ہوا چلا آرہا تھا اسی طرح ہیلو کہہ کر اس نے ویر سنگھ سے بھی مصافحہ کیا پھر دوسرے افسر کی طرف متوجہ ہوگیا۔ لیکن ہاتھ ملاتے وقت ویر سنگھ کے چہرے پر پھیلی ہوئی ہلکی سی مسکراہٹ اس کی پیشانی پر ایک سلوٹ کی صورت منتقل ہوگئی۔ اس نام اور اس عہدے کا ابا نے کبھی اپنے خطوں میں ذکر کیا نہ فون پر بتایا۔ پھر فوراً ہی اسے یاد آگیا کہ کل ائیر پورٹ پر آنے والے سینئر افسران نے یہ اطلاع بھی تو دی تھی کہ ابا کے انتقال کے بعد یونین بھی رجسٹرڈ ہوگئی ہے۔ لیبر یونین — ہونہہ— خیر دیکھا جائے گا۔

تمام لوگوں سے ملنے کے بعد جب وہ اپنے دفتر میں آیا تو اس کے خوابوں سے بڑھ کر تعبیر موجود تھی۔ اس کا دل خوشی سے پھول گیا۔ مگر خوشی کا اظہاراپنے ساتھ آنے والوں کے سامنے وہ کیسے کردے۔ آخر ماتحت ہیں سب— افسران ہوئے تو کیا۔

اس نے ہتھیلی کی پشت سے پیشانی کو یوں صاف کیا جیسے اس شکن کو دور کیا ہو جو ویر سنگھ کی مسکراہٹ نے ڈال دی تھی۔ پھر نہایت خوش اخلاقی کے ساتھ کہا۔

’’موسم آج اچھا ہے۔ میں اتنے پُرتپاک رسیپشن پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ کام اور ڈسپلن ایسا ہی رکھیے جیسا ابا جی کے زمانے میں تھا۔ آپ لوگ مجھے بھی ان جیسا ہی ہمدرد پائیں گے۔ ایک بار پھر شکریہ۔

جب بالکل اکیلا رہ گیا تو اس نے پہلا ٹیلی فون اپنی ماں کو کیا۔

’’امی — میں ابا کے دفتر سے بھی عالیشان دفتر میں پہنچ گیا ہوں۔‘‘

پھر اس نے ریوالونگ چیئر پر کئی چکر کھائے۔ اٹھ کے دیواروں کو چھوا۔ کھڑکیوں پر پڑے ہوئے پردوں کو سرکا کر دیکھا۔ ایک ایک شئے نفیس تھی۔ پھر اس نے انٹر کام پر سکریٹری کو اندر آنے کی ہدایت کی۔ اس بنی سنوری نازک اندام لڑکی سے وہ دفتر میں داخل ہوتے وقت مل چکا تھا۔ لیکن اس کانام اب ذہن سے اتر گیا تھا۔

کرسی کی پشت پر ذرا سا دباؤ دے کر — پیپر کٹر کو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان گھماتے ہوئے اس نے آہستہ سے کہا: ’’آپ کا نام —ایک دن تو لگے گا یہ سب کچھ یاد کرنے میں‘‘

سکریٹری پوری طرح مسکرا بھی نہ سکی تھی کہ تین چوہے جیسے آدمی بے دھڑک اندر چلے آئے۔ سکریٹری نے پہلے حیرت سے آنے والوں کی طرف دیکھا پھر اس کی جانب۔ وہ ان تینوں آدمیوں میں سے ایک کو پہچان گیا۔ اس سے ابھی تو نیچے ملاقات ہوئی تھی۔ ہاں ویر سنگھ نام ہے۔ سکریٹری جنرل ہے لیبر یونین کا۔ اور میں، چیف ایگزیکٹیو ہوں اس ادارے کا ۔ ان کو جرأت کیسے ہوئی اس طرح آنے کی۔ مگر اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر بھر پور سنجیدگی سے پوچھا: ’’واٹ از دی پرابلم جینٹل مین؟‘‘

اس کا فقرہ مکمل ہونے اور ان تینوں کے جواب دینے والی ساعتوں میں ہاتھی جیسا ایک شخض، ’’ایکسکیوزمی سر‘‘ کہتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ نیچے ان صاحب سے بھی ملاقات ہوچکی ہے۔ اسٹبلشمنٹ کے انچارج ہیں اور نام کچھ خان جیسا ہے۔

کچھ دیر پہلے وہ جس شان سے اس دفتر میں داخل ہوا تھا۔ اس کو یہاں لے کر آنے والے افسران جتنے مہذب طریقے سے موجود رہے تھے اب اس کے برعکس ہورہا تھا۔

چوہے نے ہاتھی سے فائل چھینی اور میز پر اس کے سامنے یوں پھینک دی جیسے وہ اس ادارے کا افسرِ اعلیٰ نہیں کوئی ردّی کی ٹوکری ہے۔

’’ان دو ساتھیوں کا کیس ہے۔ پندرہ دن سے روک رکھا تھا کہ نئے چیف سے پہلا دستخط اسی فائل پر لیا جائے گا۔‘‘

پھر کیا ہوا۔ کسی نے کیا کیا کچھ کہا۔ اسے خبر نہیں۔ اسے تو صرف اتنا معلوم ہے کہ جب اس نے فائل پر دستخط کیے تو جی چاہا قلم توڑدے۔ موت کے فرمان پر دستخط کرنے کے بعد قلم توڑ ہی تو دیا جاتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں