صحت مند جسم میں ہی صحت مند روح ہوتی ہے۔ ہم اکثر اس قول کا استعمال کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جسمانی ورزش کے باعث انسان کی ذہنی صلاحیتوں پر کیا مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ قول دراصل ایک رومن مزاح نگار جووینال نے دوسری صدی عیسوی میں کہا تھا کہ یہی دعا کرنی چاہیے کہ صحت مند جسم میں ایک صحت مند روح بھی ہو۔ تاہم کیا یہ درست ہے کہ جسم کو صحت مند، متوازن رکھنے اور ورزش کرتے رہنے سے ہمارے دماغ کی ذہنی صلاحیتیں بھی بر قرار رکھنے میں مدد مل سکتی ہے؟
یہ بات درست بھی ہے اور اس حوالے سے سائنسی شواہد بھی موجود ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں اور عمر میں اضافے پر بھی اس کا نمایاں اثر پڑتا ہے۔
’عمر میں اضافے کے ساتھ دماغ سکڑ جاتا ہے‘
جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے ہمارے جسم میں ٹشوز اور اعضا کی صلاحیت کم ہو نا شروع ہو جاتی ہے۔ خلیوں کے کام کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹشوز بھی کم ہونے لگتے ہیں۔ ہمارے دماغ کی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے، کیونکہ وقت کے ساتھ ہمارے اعصاب بھی کمزور ہوتے ہیں اور نیورونز کا نقصان ہوتا ہے۔ چاہے وہ الزائمر کی بیماری ہو یا حرکت کی صلاحیت میں کمی ہو، عمر کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیت میں کمی واقع ہونے لگتی ہے اور دماغ میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جو دیگر جسمانی صلاحیتوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔
ان تبدیلیوں میں دماغ کے کور ٹیکل ایریا کا سکڑنا، سرمئی نیورونل باڈیز اور اعصابی ترسیل سے متعلق ٹشوز کا نقصان، وینٹریکلز کے حجم میں اضافہ اور نیورونز کی کمی شامل ہے۔ کئی برسوں تک ہونے والی ایک تحقیق، جس میں رضا کارانہ طور پر سینکڑوں افراد نے شرکت کی، میں علم ہوا کہ عمر کے ساتھ اعضا کی صلاحیت میں کمی کی ایک وجہ سیریبرل وینٹریکل کے حجم میں اضافہ ہے۔ اسے دماغ کا ’خالی‘ حصہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے باعث دماغ کی نیوروڈی جنریشن اور کمزوری بھی بڑھ جاتی ہے۔
’زیادہ ورزش بہتر یاد داشت‘
اگر اعضا کی صلاحیت میں کمی کا مطلب دماغ کے حجم میں کمی واقع ہونا ہے تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جسمانی توانائی کا ورزش کے ذریعے بہتر استعمال ہمارے دماغ میں ٹشوز کے نقصان کی رفتار کو کم کر سکتا ہے۔ اس کا جواب دینا آسان نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دماغ کی صلاحیت بہتر کرنے کے لیے استعمال ہونے والے کسی بھی طریقے کو پر کھنا اس لیے مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس کے نتائج کا فوری اند ازہ لگانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
انسانی دماغ خون یا پٹھوں جیسا نہیں ہوتا کہ اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی فوری طور پر واضح ہو جائے یا اس کو ناپنے کا کوئی واضح طریقہ موجود ہو۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ موجودہ دور میں ایمجنگ کے بہترین طریقوں کے باعث اب دماغ کے کچھ حصوں میں تبدیلی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
ہمارے پاس اس بارے میں پہلے سے شواہد موجود ہیں کہ ایک لمبے عرصے تک جسمانی ورزش کرنے سے ذہنی صلاحیت بہتر ہوتی ہے اور اس سے دماغ کے کچھ حصوں کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر 2011 میں امریکہ کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے پیپر (پی این اے ایس) میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ ورزش کے باعث دماغ کے اس حصے کا حجم بڑھتا ہے جو یادداشت کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔
ضعیف افراد میں ہونے والی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جسمانی ورزش کے باعث دماغ کے اس حصے کا حجم کم ہونے سے بھی روکا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، ایک ایسی ہی تحقیق میں ضعیف العمر افراد کے دماغ پر جسمانی ورزش کے اثرات جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جسمانی ورزش کرنے والے افراد عام طور پر عمر بڑھنے کے ساتھ جس ڈی جنریشن یا انحطاط کا شکار ہوتے ہیں اس سے محفوظ رہتے ہیں۔
ہم جب اپنے جسم کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ جیسے اس کے مختلف حصے ہیں، اور ہر عضو خود ہی کام کر رہا ہے۔ اگر ہمارے جگر میں کوئی مسئلہ ہے تو ہم اس ہی پر توجہ دیتے ہیں، اور اگر ہمارے گردے میں کوئی مسئلہ ہو تو ہم اس پر توجہ دیتے ہیں۔ تاہم ہمارا جسم ایسے کام نہیں کرتا، بلکہ اس میں موجود تمام اعضا آپس میں جڑے ہیں اور ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے گردے میں مسئلہ ہو تا ہے تو اس سے دل کا عارضہ شدت اختیار کر جاتا ہے۔عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ جسم کے پیچیدہ نظام کی صور تحال خاصی نازک ہوجاتی ہے۔
جب ہم ورزش کرتے ہیں تو ہم اپنے جسم کو درمیانے درجے کے دباؤ میں ڈالتے ہیں تاکہ ہم ان خلیوں کو زیادہ توانائی پیدا کر نے پر مجبور کر سکیں۔ اس کا مطلب ہے کہ غذائی اجزا کو اسٹور سے پھٹوں تک پہنچانا۔ اس دباؤ سے نبرد آزما ہونے کے لیے جو جسمانی تبدیلیاں ضروری ہوتی ہیں انھیں ہور میسر کہا جاتا ہے۔
ہور میسر کے مراحل میں پٹھے ایسا مادہ خارج کرتے ہیں جو دوسرے اعضا کو یہ اطلاع دینے کا طریقہ ہے کہ توانائی کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس مادے کو مائیو کینز کہا جاتا ہے اور یہ ہمارے خون میں خارج ہوتے ہیں جہاں سے اسے دیگر اعضا تک پہنچایا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ مائیو کینز دماغ تک پہنچ جاتے ہیں جہاں یہ نیورونز کی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں کہ وہ نئے رابطے قائم کر سکیں یا پہلے سے قائم رابطوں کو مزید مضبوط کر سکیں۔ان میں سے ایک مائیو کینز بی ڈی این ایف کہلاتا ہے جو نیورونز کے لیے رابطہ قائم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہوتا ہے اور انھیں چست رکھتا ہے ۔ یہ ایک بہت سادہ سی مثال ہے جس کے ذریعے ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ جسمانی ورزش کےذریعے دماغ کا حجم کیسے بر قرار رکھا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب، جسمانی ورزش کے ذریعے خون کا بہاؤ بھی بہتر ہوتا ہے اور جسم کو ملنے والی آکسیجن میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے دماغی صلاحیت پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ متوازن ورزش کے باعث سوزش کش اثرات ہوتے ہیں جن کے دماغ پر اثرات ہو سکتے ہیں مثال کے طور پر الزائمر زیا ڈمینشیاسست ہو جاتی ہے۔
براہِ راست اور بالواسطہ سائنسی شواہد یہ بات واضح کرتے ہیں کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ورزش کرنے کے باعث طویل عمر کے منفی اثرات سے بچا جاسکتا ہے۔ll
(بہ شکریہ بی بی سی)