جدید سائنس مسلسل ترقی کررہی ہے۔نئی نئی تحقیقات ہوتی ہیں جو کائنات کے مختلف اور منفرد پہلوؤں کو سامنے لاتی ہیں۔ سائنسدان کسی چیز کو تحقیق سے نظر انداز نہیںکرتے، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے بے شمار سائنسدانوں نے قرآن پاک کو پڑھا ہے، اور سائنسی طور پر بے شمار اُن چیزوں کی تصدیق کی ہے، جن کا ذکر اس عظیم کتاب میں ۱۴۰۰سال قبل کردیا گیا تھا۔ مسلمانو ںکو دیے جانے والے بے پناہ ایسے احکام ہیں جو سائنسی طور پر بنی نوع انسان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوچکے ہیں۔
ان ہی میں سے ایک عمل وضو بھی ہے۔ مسلمان دن میں پانچ بار نماز ادا کرنے سے پہلے وضو کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن پاک کی تلاوت سے قبل بھی وضو کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی مسلمان دن بھر باوضو رہے تو وہ اللہ کی رحمتوں کے سائے میں رہتا ہے اور گناہو ںسے بھی بچا رہتا ہے۔ سائنس نے تحقیق کے بعد یہ واضح کیا ہے کہ وضو کی ہر حرکت میں انسانی صحت کے لیے فائدے موجود ہیں، اور ان فوائد کو وضو کے آغاز سے لے کر انتہا تک بیان کیا گیا ہے۔
وضو کے آغاز سے قبل ہم بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے ہیں جو کہ ہر کام سے پہلے پڑھنا چاہیے۔ اس کی برکت سے ہمارا ہر کام آسان ہوجاتا ہے۔ اس طرح وضو میں بھی اللہ اپنی برکات ڈال دیتے ہیں اور ہمارا خشوع و خضوع بڑھ جاتا ہے۔
وضو کرتے وقت جب ہم ہاتھ دھوتے ہیں تو ہماری انگلیوں کے پوروں سے دائروں کی شکل میں شعاعیں نکلتی ہیں جن سے ہمارے جسم کی برقی توانائی کے بہاؤ میں تیزی پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر صحیح طریقے سے وضو کیا جائے تو ہمارے ہاتھوں کی انگلیوں میں ایک خاص لچک پیدا ہوجاتی ہے جو ہمارے اندر موجود آرٹ کی صلاحیتوں کو ابھارتی ہے۔
ہاتھ دھونے کے بعد ہم کلیاں کرتے ہیں، جس سے ہمارے منہ کی صفائی ہوتی ہے اور ہمارے دانت مختلف قسم کی بیماریوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔ دورانِ وضو کلیاں کرنے سے نہ صرف دانتوں کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں بلکہ دانت چمکدار بھی ہوجاتے ہیں۔ اس سے ہماری قوتِ ذائقہ مزید مضبوط ہوجاتی ہے اور یہ عمل گلے کی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔
کلیاں کرنے کے بعد ہم تین بار ناک میں پانی ڈالتے ہیں۔ ناک انسانی جسم کا اہم ترین عضو ہے۔ ناک کا سب سے اہم کام انسانی آواز کو خوشگوار اور دلکش بنانا ہے۔ اگر ہم ناک بند کرکے بولنے کی کوشش کرتے ہیں تو فرق واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ناک کے پردے ہماری آواز کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ناک باہر کی ہوا کو پھیپھڑوں کی مناسبت سے گرم، نم اور صاف ستھرا کرتی ہے۔ ہر انسان ناک کے ذریعے دن بھر میں ۵۰۰؍کیوبک فٹ ہوا اندرلیتا ہے۔ پھیپھڑوں کو وہ ہوا درکار ہوتی ہے جو جراثیم، گرد اور آلودگی سے پاک ہو اور اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ناک کی صورت میں ایک چھوٹا سا فلٹر ہمیں عطا کیا ہے۔
وضو کے دوران ناک میں جانے والا پانی ناک میں موجود نظر نہ آنے والے فائبرز کی صفائی کرتا ہے جس سے ان کی کارکردگی میں بہتری آتی ہے اور پھیپھڑوں کو صاف ہوا میسر آتی ہے اور انسان بہت سی بیماریوں سے بچ جاتا ہے۔
وضو کے دوران چہرے کو تین بار دھونے میں بھی فائدے پنہاں ہیں۔ اس سے چہرے کی جلد نرم اور ہموار ہوتی ہے۔ وہ مسام جو گرد اور آلودگی سے بند ہوجاتے ہیں، وضو کرنے سے کھل جاتے ہیں، چہرہ پرکشش اور خوب صورت دکھنے لگتا ہے۔ اگر خون کا دباؤ بہت تیز یا بہت آہستہ ہے تو وہ بھی معقول رفتار پر آجاتا ہے۔ چہرہ دھونے کے دوران جب پانی آنکھوں میں داخل ہوتا ہے تو وہ آنکھ کے پٹھوں کو مضبوطی عطا کرتا ہے۔ آنکھوں کی سفیدی بڑھ جاتی ہے اور پتلیاں چمکدار ہوجاتی ہیں۔ جو لوگ باقاعدگی سے وضو کرتے ہیں ان کی آنکھیں خوب صورت اور پرکشش ہوتی ہیں۔ کہنیوں تک ہاتھ دھونے سے ہاتھوں او رکلائیوں میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے اور ہاتھوں کی جلد نرم ہوجاتی ہے۔
ہمارے سر پر موجود بال ہمارے لیے اینٹینا کا کام انجام دیتے ہیں۔ انسان جب تک دماغ سے کسی کام کے لیے ہدایت حاصل نہیں کرتا وہ کوئی کام نہیں کرسکتا۔ جب تک اسے بھوک محسوس نہیں ہوتی وہ کچھ کھاتا نہیں ہے، بستر پر تب ہی لیٹتا ہے جب اسے نیند آتی ہے۔ اس طرح خوشی، غم اور دیگر جذبات ہم تب ہی محسوس کرتے ہیں جب دماغ ان کے بارے میں ہدایات دیتا ہے۔
اچھی طرح جب ہم وضو کا ارادہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم یہ کام اللہ کے لیے کررہے ہیں۔ جب ہم وضو کے تمام ارکان پورے کرنے کے بعد سرکا مسح کرتے ہیں تو ہمارا دماغ اللہ کے حضور حاضر ہوجاتا ہے، جب ہم سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں تو لاشعوری طور پر غم،منافقت اور وہ تمام اعمال و احساسات جو ہمیں اللہ تعالیٰ سے دور کرتے ہیں ان سے بے پروا ہوجاتے ہیں۔ ہمارا دماغ ان ہدایات پر غور کرنے لگتا ہے جو ہمیں اللہ سے قریب کردیتی ہیں۔
انسانی جسم کا ایک اہم عضو شہ رگ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’میں تم سے تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔‘‘ زندگی کی یہ رگ ہمارے سر اور گردن کے درمیان موجود ہے۔ گردن کا مسح کرنے سے ہمارے جسم کو ایک خاص قسم کی توانائی ملتی ہے جس کا تعلق ہماری ریڑھ کی ہڈیاں اور جوڑوں سے ہے۔ مسح کے دوران یہ توانائی ہمارے ہاتھوں سے اس شہ رگ میں داخل ہوتی ہے اور ریڑھ کی ہڈی سے گزر کر پورے اعصابی نظام میں پھیل جاتی ہے۔
قدرت کا نظام ہے کہ چاہے پانی ہو یا توانائی، اس کا بہاؤ ضروری ہوتا ہے۔ وضو کے آخر میں پیروں کو دھونے سے وہ توانائی جو ہمارے جسم کے اندر دورانِ وضو جمع ہوجاتی ہے، اس کا اضافی حصہ جو کہ انسانی جسم کے لیے خطرناک ہوتا ہے ہمارے پیروں کے ذریعے زمین میں منتقل ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارا جسم برقی خطرات سے محفوظ ہوجاتا ہے۔
زندگی کے دورانیے میں انسان بہت سے لطیف اور تکلیف دہ مراحل اور احساسات کا سامنا کرتا ہے۔ لوگو ںکا خیال ہے کہ انسانی زندگی زیادہ تر تلخ حالات پر مبنی ہے اور انسان کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خوش رہنا ایک فن ہے جس میں مہارت حاصل کرنے کا واحد ذریعہ روز مرہ چیزوں کو مختلف زاویے سے دیکھنا ہے۔
مغربی دنیا میں نفسیات پر ہونے والے تجزیوں نے اس کائنات کی ایک حیرت انگیز حقیقت پر سے پردہ ہٹایا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسانی ذہن میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ جس چیز کو وہ بہت شدت سے حاصل کرنا چاہتا ہے یا جس چیز کے حاصل ہونے کا اسے پختہ یقین ہو، وہ اسے حاصل کرہی لیتا ہے، یا ایسے راستے بن جاتے ہیں کہ اسے حاصل کرنا نسبتاً آسان ہوجاتا ہے۔
کائنات کے اسی اصول کے مطابق ہونے والے ایک تجربے میں امریکہ میں چند سال قبل جوڑوں کے درد کے دو مریضوں کا آپریشن کیا گیا، فرق صرف اتنا تھا کہ ایک مریض کا گھٹنا،کھول کر اصل آپریشن کیا گیا جبکہ دوسرے پر ڈاکٹروں نے سرجھکا کر آپریشن کرنے کی اداکاری کی۔ حیران کن حد تک دونوں مریضوں نے تکلیف میں ۸۰ فیصد کمی کا اظہار کیا۔ اس نوعیت کے بیشتر تجربوں نے ثابت کیا ہے کہ اگر انسان کے دماغ کو کسی بھی چیز پر مکمل یقین دلوایا جاسکے تو اس سے آنے والے نتائج کا بھر پور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیاکے تقریباً تمام کامیاب لوگوں نے اسی ذہنی قابلیت کو استعمال کرتے ہوئے اپنی زندگی کا رخ موڑا ہے۔ البتہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جو لوگ اپنے دل میں کسی نہ کسی بری چیز یا حالات کے ہونے کا یقین کی حد تک خوف رکھتے ہیں ان میں سے ۹۰ فیصد لوگ ان ہی تمام مصیبتوں میں گرفتار بھی ہوجاتے ہیں۔
اسی لیے بے حد ضروری ہے کہ زندگی کو مثبت سوچ سے آراستہ کیا جائے اور ہمیشہ خوش آئند حالات کے بارے میں پرامید رہا جائے، کیوں کہ یاد رکھئے! آج آپ جن حالات کے پیدا ہونے کے منتظر ہیں، کل وہی آپ کے سامنے ہوں گے۔
——