وعدہ

شمیم ادھیکاری، پنویل

یہ میری دلی تمناتھی کہ جب میں سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوجاؤں گا تو اپنی زندگی بھر کی کمائی کا کچھ حصہ ایک چھوٹے سے خوبصورت بنگلے کو حاصل کرنے میں خرچ کردوں گا۔ اللہ شکرخورے کو شکر سے ضرور نوازتا ہے۔ بس میرے ساتھ یہی ہوا۔ شہر سے دور ایک خوبصورت دیہات جو پہاڑیوں سے گھرا ہوا، ندی کنارے، سرسبز وشاداب علاقے میں جہاں آم، چیکو، امرود وغیرہ کے باغات تھے، ایک پلاٹ سستے داموں میں خرید کر اپنے دوست آرکٹکٹ حسین کے تعاون سے پلان تیار کروا کر چار ماہ کے مختصر سے عرصے میں بنگلے کی عمارت تیار کردی۔ بنگلہ تین کشادہ کمروں، ایک بڑے ہال، باتھ روم، کچن، ٹائلیٹ پر مشتمل اور جدید طرز کی تمام تر سہولیات سے مزین تھا۔ بیرونی حصہ خالی پڑا تھا اسے بھی باغیچے میں تبدیل کردیا گیا۔ آنگن ہر قسم کے پھولوں اور پودوں سے بھرا پڑا تھا۔ ندی کے اُس پار پہاڑی سے لگ کر ایک بائی پاس سڑک تھی جو دوسرے کئی شہروں کو ممبئی سے جوڑتی تھی۔ اس سڑک سے زیادہ تر وزنی مال بردار اور آئیل ٹینکر گزرا کرتے۔
ملازمت سے سبکدوشی کے بعد سرکاری رہائش گاہ سے منتقل ہوکر میں اسی بنگلے میں آکر بس گیا تھا۔ میں، میری بیگم اور دوبچے، ایک فرزند اور ایک دختر۔ دونوں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے تھے اور شہر میں ہاسٹل میں قیام پذیر تھے۔ کبھی کبھار وہ چھٹیاں گزارنے بنگلے پر آجاتے تو ہماری خوشیاں دوبالا ہوجاتیں اور عید کا سا سماں بندھ جاتا۔
شام کے وقت میں اپنی شریکِ حیات کے ہمراہ باغیچے میں آرام کرسی پر دراز ہوکر قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ ہماری ازدواجی زندگی کے پینتیس سال گزرچکے، آج بھی ہم ایک دوسرے سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ اکثر ہم بیتے دنوں کی یادیں تازہ کرتے ہیں۔ ہماری ازدواجی زندگی کئی مرحلوں سے گزری تھی۔ کبھی دھوپ، کبھی چھاؤں، کبھی تکالیف تو کبھی آسائش، اپنوں کی محبتیں، اپنوں کاخلوص، کبھی کبھی اپنوں کا روکھا پن۔ بہت ساری یادیں تھیں، کچھ تلخ اور کچھ شیریں یادیں۔
ایک شام ہم دونوں آنگن میں جھولے پر بیٹھے جھول رہے تھے کہ اچانک بیگم صاحبہ جھولے سے اٹھ کر بنگلے میں چلی گئیں۔ تھوڑی دیر پہلے وہ مجھے افسردہ سی نظر آئی تھیں۔ اُن کی یہ کیفیت دیکھ کر مجھے تشویش ہوئی۔ میں بھی اُن کے پیچھے ہولیا۔ میں نے دیکھا وہ بیڈ روم میں اوندھے منہ پلنگ پر لیٹی ہیں۔ قریب جاکر جسم کو چھوا تو وہ پلٹیں۔ میں نے دیکھا آن کی آنکھیں نم تھیں۔ میں نے بے چینی سے پوچھا: ’’کیا ہوا بیگم… طبیعت تو ٹھیک ہے نا، تم کیوں اچانک یہاں اُٹھ آئیں؟‘‘ بیگم نے لرزتی آواز میں کہا: ’’بائی پاس سڑک پرگزرتا ہوا آئیل ٹینکر دیکھ کر مجھے رمضوؔ کی یاد آگئی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ سسکنے لگیں۔ ان کی اس کیفیت کو میں سمجھ گیا۔ قریب ہی رکھے ہوئے کوزے سے ایک گلاس پانی بھر کر بیگم کو پیش کیا۔ انھوں نے دو گھونٹ گلے سے اتارے۔ انہیں آرام کرنے کا مشورہ دے کر باغیچے میں آکر میں آرام کرسی میں دھنس گیا۔ بیگم کی اس کیفیت نے مجھے ماضی کی یادوں میں ڈھکیل دیا۔
رمضان علی جسے لوگ رمضوؔ کہا کرتے تھے، پیشے کے اعتبار سے ایک معمولی ڈرائیور تھا۔ میں جس تیل کمپنی میں افسر کے عہدے پر فائز تھا وہیں رمضو اپنا ٹینکر پٹرول یا ڈیزل بھروائی کے لیے لایا کرتا۔ آئیل ٹرمنل شاہراہ سے قریباً دو کلو میٹر اندر ویران جگہ پر آباد تھا، رات کے نو بجے کے بعد اس جگہ پر مکمل سناٹا چھا جاتا۔ سڑک سنسان ہوجاتی اور ٹرمنل سے باہر جانے کے لیے کوئی سواری مہیا نہیں ہوتی تھی۔ ہاں اسٹاف بس آتی اور اسٹاف کو لے کر چلی جاتی۔ شفٹ انچارج ہونے کے ناطے مجھے پورا کام کاج نمٹاکر ہی ٹرمنل سے باہر نکلنا پڑتا۔ یہی وجہ تھی کہ اکثر و بیشتر میں رمضوؔ سے ٹھہرنے کی درخواست کرتا۔ بے چارہ اپنا ٹینکر بھروانے کے بعد گھنٹہ دو گھنٹہ میرا انتظار کرتا اور مجھے لفٹ دے کر میری منزل تک پہنچاتا پھر وہ اپنی منزل کی طرف آگے بڑھتا۔ شاید ایک افسر کو یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ ایک لاری ڈرائیور کے بازو میں بیٹھ کر سواری کرے، مگر یہ میری مجبوری تھی۔ اس طرح ایک گھنٹے کا سفر رمضوؔ کے ساتھ گزرجاتا۔ رمضو کی عمر کوئی اٹھائیس سال ہوگی۔ صحت مند، بدن کسا ہوا، چہرے پر داڑھی بڑھی ہوئی، خوبرو جوان تھا۔ پان چبانے اور سگریٹ نوشی کا عادی۔ اکثر وہ مجھے اپنی زبان میں کہتا : ’’صاب میں آپ کی بہوت عجِت کرتا ہوں۔ آپ دوسرے صاب لوگ کی طرا نئی ہے۔ دوسرا صاب لوگ بڑا چالو ہے۔ آپ کے سامنے سگریٹ پینا ٹھیک نہیں سمجھتا مگر کیا کروں عادت سے مجبور ہوں، رہا نئی جاتا… ‘‘
مجھے یاد ہے وہ برسات کی طوفانی رات تھی۔ موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔ کبھی کبھی بجلی چمکتی اور دن کا سا سماں پیش کرتی۔ حسبِ معمول میںآج بھی رمضوؔ کا ہم سفر تھا۔ پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ رمضو آج اداس ہے۔ دورانِ سفر ہمیشہ چہکنے والا رمضوؔ آج خاموش تھا۔ وہ سڑک کی سیدھ میں دیکھتے ہوئے ڈرائیونگ کررہا تھا۔ بارش کے پانی کو اسکرین سے صاف کرنے کے لیے کبھی کبھی وہ وائپر کا سوئچ آن کرتا کبھی بند کرتا۔ اس کی خاموشی مجھ سے برداشت نہیں ہوئی۔ آخر مجھ سے رہا نہیں گیا تو میں نے خاموشی کے پردے کو چاک کیا۔ ’’کیا بات ہے رمضو؟ تم کچھ بول نہیں رہے ہو۔ آج زیادہ دیر ہوگئی اس لیے تم مجھ سے ناراض ہو؟‘‘ وہ فوراً بول اٹھا: ’’نہیں صاب نہیں۔ آپ سے ناراض ہوکر میں کہاں جاؤں گا۔‘‘ اس نے اپنے لہجے کو بدلتے ہوئے مہذب انداز میںکہنا جاری رکھا۔ ’’صاحب، میں جانتا ہوں کہ آپ جس کرسی پر براجمان ہیں وہاں بیٹھ کر سبھی ڈرائیوروں کی نقل و حرکت سے واقف ہیں۔ ڈرائیوروں کے تعلق سے جو کچھ وہ لوگ ٹرمنل کے باہر کرتے ہیں اُن کی سب رپورٹ ہمارے ڈرائیور بھائی ہی آپ تک پہنچاتے ہیں۔ آپ نے مجھے بھی اشارتاً کہا تھا کہ رمضو حلال کی کمائی میں برکت ہوتی ہے۔ صاحب، یہ میں بھی جانتا ہوں۔ مگر یہ سماج، یہ معاشرہ، یہ سوسائٹی ہی ہمیں حرام کام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ہر ڈرائیور ہر ٹرپ میں، ہر پھیرے میں کم از کم دو ڈبے نکال کر بیچتا ہے۔ اور وہ پیسے اس کی اپنی جیب میں جاتے ہیں۔ صاحب آپ نے میری خاموشی توڑی ہے تو میں آج آپ کے سامنے وہ سب بیان کردوں گا جو ایک سچائی ہے، حقیقت ہے، ہوسکتا ہے کہ آپ کو اس پر یقین نہ آئے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے رمضو نے ٹینکر کو سڑک کے کنارے پارک کیا۔ کیبن کی لائٹ آن کی۔ سگریٹ سلگائی ، دوچار گہرے کش لیے پھر چمڑے کے بیگ میں سے ایک کاغذ نکال کر میرے ہاتھ میں تھمادیا۔ ابھی کاغذ پر نظر ڈالی ہی تھی کہ رمضو نے انگلش زبان میں کہنا شروع کیا: ’’سر آئی ایم اے کامرس گریجویٹ فرام بامبے یونیورسٹی۔ انفارچیونیٹلی آئی ایم اِن ڈرائیورس سیٹ‘‘ پھر اس نے اردو زبان میںکہنا شروع کیا: ’’والد صاحب نے کڑی محنت کرکے مجھے ایک تعلیم یافتہ انسان بنایا۔ اُن کی جدوجہد کو میں زندگی بھر فراموش نہیں کرسکتا۔ وہ ان پڑھ تھے لیکن اپنے بیٹے کو علم کے زیور سے آراستہ کیا۔ بی کام کا رزلٹ آنے پر والد صاحب کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ بی کام کی ڈگری حاصل کرنے پر مجھے امید تھی کہ کہیں نہ کہیں نوکری آسانی سے مل جائے گی۔ ملازمت کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھائیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری محکموں میں کئی انٹرویو دیے۔ ہر انٹرویو میں کامیاب رہا مگر افسوس انٹرویو کے بعد افسران سپاہی یا چپراسی سے ملنے کو کہتے۔ وہ انٹرویو میں کامیابی کی خوشخبری دیتا اور ساتھ ہی گھوس یا رشوت ادا کرنے کا اشارہ دیتا۔ رشوت کی رقم دس سے پندرہ ہزار ہوتی۔ والد صاحب نے حسین سپنے دیکھے تھے وہ سب بکھرتے نظر آئے۔ ویسے ہی مجھے زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے میں والد صاحب کی کمر ٹوٹ گئی تھی اب رشوت کے لیے مزید پیسے کہاں سے لاتے۔ دو لڑکیوں کی شادی کی فکر بھی انھیں ستائے جارہی تھی۔ اسی فکر میں والد صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے حسین سپنے ادھورے رہ گئے۔ اب بہنوں کی ذمے داری میرے سر آگئی۔ میں نے ڈرائیونگ سیکھ لی۔ اور پھر اس پیشے کو اپنا لیا۔ میں اس پیشے سے مطمئن ہوں۔ ایک بہن کی شادی کرچکا ہوں۔ جہیز میں پچاس ہزار روپئے ادا کرچکا ہوں۔ اب دوسری بہن کی شادی درپیش ہے۔ دولہے والے ایک بڑی رقم مانگ رہے ہیں۔ بس دوچار پھیرے مارلوں گا تو جہیز کی رقم ادا کرنے کے قابل ہوجاؤں گا۔ لوگ کم سے کم وقت میں امیر بننا چاہتے ہیں اس کے لیے وہ کوئی بھی ناجائز کام کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ میں تو جہیز کی مانگ پوری کرنے کے لیے یہ کام کرتا ہوں۔ سماج میں پھیلی ہوئی جہیز کی لعنت نے ناسور کی شکل اختیار کرلی ہے۔ غریب گھرانے کی لڑکیاں خود کشی کرنے پر آمادہ ہیں۔ صاحب، میں نہیں چاہتا کے میری بہن جہیز کی خاطر خود کشی کرے۔ میں اپنی جوان بہن کو مرتا نہیں دیکھ سکتا۔ صاحب میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ بہن کی شادی ہونے پر میں یہ کام چھوڑ دوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر رمضو دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ میں سوچنے لگا اس کی خاموشی، خاموشی ہی رہتی تو بہتر تھا۔ اس خاموشی کے پیچھے ایک عظیم طوفان ہوگا مجھے معلوم نہ تھا۔ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے بی کام کا سرٹیفیکٹ واپس کردیا۔ اس نے مجھے میری منزل پر چھوڑ دیا اور اپنی منزل کی جانب آگے بڑھ گیا۔
اس رات مجھے دیر تک نیند نہیں آئی۔ بیگم کے اصرار پر اسے سارا ماجرا سنایا۔ بیگم کی آنکھوں سے بھی نیند اوجھل ہوچکی تھی۔دوسرے روز صبح مجھے پہلی شفٹ میں ڈیوٹی پر حاضر ہونا تھا۔ ابھی میں ٹرمنل کے گیٹ پر پہنچا تھا کہ ایک مجمع سا نظر آیا۔ مجمع میں شامل ڈرائیورس اور کلینرس کے افسردہ چہرے دکھائی دیے۔ واچ مین نے ہاتھ اٹھا کر مجھے سلام کیاپھر رندھی ہوئی آواز میںکہا’’صاحب کل رات کھنڈالہ گھاٹ پر ایکسیڈنٹ میں رمضو کی موت ہوگئی۔‘‘
جیسے میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ہو۔ رمضو اپنا وعدہ پورا کرنے سے پہلے ہی اللہ کو پیارا ہوگیا تھا۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146