کالج کو الوداع کہے ہوئے تقریباً تین سال ہوچکے تھے۔ آج نہ جانے کیوں مجھے اس کے درودیوار کی یاد ستارہی تھی۔ پرانے دوستوں کی محفلیں اور گزرے ایام رہ رہ کر یادآرہے تھے۔ میں نے سوچا کہ چلوں مادرعلمی کی زیارت کرآؤں۔ مشفق اساتذہ سے ملاقات ہوجائے گی اور کچھ دوست واحباب بھی مل جائیں گے۔
میں تیار ہوکر شہر کی جانب نکلا۔ راستے میں ایام طالب علمی کی محفلیں اور بیتی یادیں ذہن ودماغ میں ہلچل مچارہی تھیں۔ جیسے جیسے کالج قریب ہورہا تھا شوق نظارہ دوچند ہوتا جارہاتھا۔ دوستوں کی بیتی محفلوں کے شور سے کان بجنے لگے تھے۔ گریجویشن کاپہلا، دوسرا اور پھر تیسرا سال، پھر پی جی کے دوسال، سارے واقعات ایک ایک کرکے ذہن ودماغ میں اُبھرتے اور غائب ہوجاتے۔
بالآخر میں کالج کے سامنے تھا۔ جی چاہا کہ اڑ کر اپنے شعبہ تک پہنچ جاؤں لیکن قدرت نے تو صرف ہمارے جذبات وخیالات کو قوت پر واز عطا کی ہے۔ میں اپنے شعبہ کے پاس پہنچا۔ سامنے ایک خوبصورت چہرہ نظر آیا جسے میں پہچان نہ سکا، لیکن جب اس لڑکی کی نگاہ مجھ سے ٹکرائی تو اس کے چہرے پر شناسائی اور اطمینان کے آثار ظاہر ہوئے۔ اس نے میری جانب قدم بڑھانا شروع کیا۔ میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ یادداشت کے گھوڑے برق رفتاری سے دشتِ ماضی میں دوڑنے لگے لیکن وہ منزل تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ آخر وہ میرے قریب آگئی اور آتے ہی گویا ہوئی۔
’’سلیم ، تم نے مجھے نہیں پہچانا؟‘‘
اجنبی لبوں پر اپنا نام سن کر مزید تعجب ہوا۔
’’معاف کیجئے گا۔ میں نے واقعی نہیںپہچانا۔‘‘
’’ارے سلیم، میں عذرا ہوں‘‘ اس نے مسکراکر کہا۔
عذرا… ! ایک شناسا نام، پانچ سالوں تک ساتھ دینے والا، لیکن فقط نام، وہ خوبصورت چہرہ نہیں جو میرے روبرو ہے۔ عذرا نے ماضی کے سمندر میں مدوجزر پیدا کردیا۔ ایک ذہین وفہیم کلاس فیلو، ایک بلند اخلاق اور باکردار نام ، پانچ سالوں کی رفاقت کے باوجود ہم نے جس کا چہرہ نہیں دیکھا لاکھ کوشش اورشرارت کے باوجود ہم مہ تاباں کے دیدار سے محروم رہے، آج نہ جانے کیوں وہ بذات خود سامنے روشن ہے۔
سلیم کہاں کھو گئے؟
’’نہیں عذرا، کہیں نہیں! تم کیا کررہی ہو آج کل؟ ریسرچ کررہی ہو؟‘‘
’’ہاں، پہلے اپنے متعلق تو بتاؤ ، کہاں ہو؟ کیسے ہو؟‘‘
’’میں تو بخیر ہوں، لیکن عذرا تم…!‘‘
عذرا نے میری وجہ حیرت کو بھانپ لیا تھا، اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’اور گھر پر کیاحالات ہیں؟‘‘
’’عذرا، میں تمہاری ذہانت کامعترف ہوں، لیکن تمہیں تو بتانا ہوگا کہ اپنا نقاب کہاں چھوڑ دیا؟ میں نے چٹکی لی۔
اچانک اس کا چہرہ متغیر ہوگیا، آنکھیں سونی ہوگئیں، حسرت ومایوسی کے ان خطوط کا میں مشاہدہ کررہاہوں جسے وہ باوجود کوشش کے پوشیدہ نہ رکھ سکی۔ چاند کے گہنا جانے کی وجہ میرے سمجھ سے بالا تر تھی۔ اپنے سوال پر مجھے خود افسوس ہورہا تھا۔
’’سلیم دنیا کتنی ظالم ہے!‘‘
’’کیاہوا؟‘‘ میری آواز شاید مجھ سے آگے نہ بڑھ سکی۔
’’میں ایک متوسط گھرانے کی لڑکی ہوں، میرے بعد میری دوجوان بہنیں ہیں، لیکن میرے والد کے پاس اتنی دولت نہیں کہ وہ ڈھیرسارا جہیز دے کر ہمارے ہاتھ پیلے کر سکیں۔ میری بھی آرزو تھی کہ باعزت طریقے سے کسی کی ہمیشہ کے لئے ہوجاؤں، لیکن ظالم رسم ورواج کا طوفان ہمارے پاکیزہ خواہشات وجذبات کے چمن کو اُجاڑنے پر تلا ہے، والدین ہماری درازی عمر کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں۔ میں سرجھکائے اس کی باتیں سنتا رہا۔
’’سلیم ! میں چاہتی ہوں کہ جلد ا ز جلد کہیں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوکر والدین کے بوجھ کو ہلکا کرسکوں، میرے سامنے کوئی راستہ نہیں تھا، میں نے مجبوراً نقاب اتاردیا اس امید میں کہ شاید…‘‘
عذرا خاموش ہوگئی، درد کی تیز ہوائیں رُک گئیں۔ میں نے سراٹھایا، عذرا کی آنکھوں میں بادل اُمڈآئے۔ لیکن فقط دوقطرے بارش ہوئی، باقی بن برسے آہ بن کر اڑگئے۔
اب عذرا سرجھکائے ہوئے ہے۔ میں تسلی کے دولفظ تلاش کرنے کی ناکام کوشش کررہا ہوں۔