یہ وہ سرمایہ ہے جو ہر شخص کو قدرت کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ جو لوگ اس سرمایہ کا بہتر استعمال کرتے ہیں وہی مادی منفعت کے ساتھ ساتھ روحانی مسرت بھی حاصل کرتے ہیں۔ اطمینان، خوشی اور آرام انسان کو اس وقت تک میسر نہیں ہوتا، جب تک وہ مناسب طریقے سے صرف اوقات نہیں کرتا۔ وقت بے شک ایک دولت ہے جو کوئی اس دولت کو بے اندازہ اور بے حساب خرچ کرتا ہے وہ سب سے بڑا مفلس ہے۔ سچ یہ ہے کہ وقت ضائع کرنا بھی ایک طرح کی خود کشی ہے ۔ فراق اتنا ہے کہ خود کشی ہمیشہ کے لیے زندگی سے محروم کردیتی ہے، جبکہ یہ منٹ گھنٹے اور دن جو غفلت اور بیکاری میں گزرجاتے ہیں۔ اگر انسان حساب کرے تو ان کی مقدار مہینوں بلکہ برسوں تک پہنچتی ہے۔ اگر اس سے کہا جاتا کہ تیری عمر سے دس پانچ برس کم کردیے گئے تو یقینا اس کو سخت صدمہ ہوتا۔ لیکن وہ خود کاہل بیٹھا ہوا اپنی عمر عزیز کو برباد کررہا ہے۔وقت کے زوال پر کچھ افسوس نہیں کرتا۔حقیقت یہ ہے کہ انسان کی زندگی نہایت بامقصد ہے اور اسے دنیا میں کچھ کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ جو لوگ وقت برباد کرتے ہیں وہ گویا مقصدِ زندگی ہی کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
اگر آدمی زندگی میں کچھ کرنا چاہتا ہے تو سب سے اہم امر یہ ہے کہ وہ اپنے وقت کی قدر کرے۔ ایک لمحہ فضول نہ کھوئے۔ ہر کام کے لیے ایک وقت اور ہر وقت کے لیے ایک کام مقرر کرے جو لوگ وقت کے پابند ہوتے ہیں وہ اپنے کام کو بہتر طریقے سے انجام دیتے ہیں۔ کسی دوسرے کے تقاضے، تاکید اور یاددہانی کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ خود ان کی طبیعت اُن کو مجبور کرتی ہے کہ وہ متعین وقت پر اور مقرر مہلت کے اندر کام سے فراغت حاصل کرلیں۔ یہ چستی ان کی خصلت اور عادت بن جاتی ہے وہ زندگی کے ہر مرحلے میں کامیاب رہتے ہیں۔ جب وقت پر کام کرلینے کی عادت پڑجاتی ہے تو وقت میں بڑی وسعت و برکت معلوم ہوتی ہے۔ اور ایک کام کے بعد دوسرا کام کرنے کی رغبت پیدا ہوتی ہے اور اس طرح انسان اپنے وقت کے صحیح استعمال پر قادر ہوجاتا ہے۔
لوگ وقت کے پابند نہیں ہوتے اور زندگی میں سستی اور کاہلی کا شکار رہتے ہیں۔ ان کی زندگی معطل اور بے کاررہتی ہے۔ اور وہ خوشحالی، عزت اور زندگی کی لذت سے محروم رہتے ہیں۔
اب ذرا بے کار اور کاہل افراد کے حالات پر غورکرو تو صاف نظر آئے گا۔ کہ وہ نہ اپنے وقت کی قدر کرتے ہیں، نہ دوسروں کے وقت کی۔ اُن کے نزدیک وقت پر کام کرنا، یا وعدہ وفا کرنا کوئی چیز نہیں۔ ایسے انسان نہ اپنے ہی لیے کچھ کرپاتے ہیں نہ دنیا ہی کو کچھ دے پاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ بڑے نقصان میں رہنے والے ہیں۔ ہوسکتا ہے اس مختصر سی زندگی میں انہیں اس کا اندازہ نہ ہوسکے مگر جب موت انہیں اپنی گرفت میں لے گی اس وقت وہ پچھتاوے کے علاوہ اور کیا کرسکیں گے۔
——