انسان کا سب سے بیش قیمت سرمایہ وقت ہے۔ وقت ایک ایسی دولت ہے کہ جس سے اگرادنیٰ سی غفلت بھی برتی جائے تو پھر اس کے نتیجے میں جو نقصان ہوتا ہے اس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی ہے۔
ہماری زندگی بھی وقت کے دھارے کے ساتھ رواں دواں ہے لیکن یہ دھارا گزرتا ہی جاتا ہے واپس نہیں ہوتا۔ پھر ایسی حالت میں وقت کا جو حصہ بھی ہم ضائع کرتے ہیں۔ اس کے واپس ملنے کی کوئی توقع نہیں ہوتی۔ ہر کھوئی چیز مل سکتی ہے لیکن جو وقت چلا جاتا ہے وہ واپس نہیں آتا۔
اس لیے جو لوگ وقت کی اس اہمیت سے آگاہ ہیں وہ ایک ایک پل کی قدر کرتے ہیں اور زندگی کا کوئی نہ کوئی کام اس سے وابستہ رکھتے ہیں۔
دنیا میں جتنے بڑے لوگ ہوئے ہیں ان کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ انھوں نے وقت کی صحیح قدر کی۔ اسلام نے بھی ہمیں یہ بتلایا ہے کہ زندگی کی یہ مہلت جو وقت کی شکل میں ہمیں ملی ہوئی ہے۔ ہر شخص کو اس کا حساب دینا ہوگا۔ وقت کی یہی اہمیت ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ اس سے نہ صرف بھرپور فائدہ اٹھایا جائے بلکہ انسان کو ایسا کام کرنا چاہیے جس سے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں پورے انسانی سماج کو سکھ اور چین نصیب ہو۔
جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے وہ صرف اپنا ہی وقت ضائع نہیں کرتے بلکہ اپنے سماج کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ وقت کی کوتاہیوں سے جو نتائج تاریخ میں برآمد ہوئے ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہ بات کافی ہے بقول مورخین:
’’آخری معرکہ میں نیپولین اس لیے شکست کھا گیا کہ انتہائی نازک محاذ پر اس کی فوجیں ایک منٹ بعد میں پہنچیںایک منٹ کی تاخیر نے نیپولین کو آسمان سے زمین پر گرادیا۔‘‘
ہمیں پانچ وقت کی نمازوں سے، رمضان کے روزے سے اور حج کی عبادت سے اجتماعی زندگی ہی کا شعور ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ وقت کی پابندی کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو کام جس وقت کرنا چاہیے اگر اس وقت نہ کیا جائے اور دوسرے وقت پر ٹال دیا جائے تو کام کی تکمیل کے باوجود بھی اس سے بھر پور فائدہ نہیں ہوتا۔
اس بات کو واضح طور پر یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ربیع کی کاشت کے لیے جو وقت سازگار ہوتا ہے اگر اس وقت کو گنوادیا جائے تو لاکھ کوشش کے باوجود بھی ربیع کی بھرپور پیداوار حاصل نہیں ہوسکتی۔
قدرت کی جس چیز پر بھی نگاہ ڈالیے تو پتہ چلے گا کہ ہر چیز کا ظہور وقت کی پابندی سے ہورہا ہے۔ سورج کا طلوع و غروب، موسموں کا الٹ پھیر پھولوں اور پھلوں کا ظہور ان میں سے کون سی چیز ایسی ہے جو وقت کی پابندی سے آزاد ہو۔ کیا فطرت کے یہ اشارے یہ سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہیں کہ ہمیں بھی وقت کی قدر کرنی چاہیے۔ اس لیے جو وقت چلا جاتا ہے وہ ہاتھ نہیں آسکتا اور نہ اس سے دوبارہ فائدہ اٹھانے کے لیے مہلت مل سکتی ہے۔
وقت کا دھارا ایک رواں دریا ہے۔ ہمارے لیے اس کی روانی رک نہیں سکتی۔ ہمیں زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے وقت کی پوری قدر کرنی ہوگی ورنہ وقت کی بے قدری کے رویے، اچھی تمناؤں اور آرزوؤں سے زندگی کو باغ و بہار نہیں بناسکتے۔
زندگی جو خوشگوار بنانے کے لیے، سماج کو اوپر اٹھانے کے لیے، انسانیت کو سکھ پہنچانے کے لیے، تاریک جگہوں میں علم و ہنر کا اجالا پھیلانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے اندر وقت کی قدروقیمت کا احساس ہو۔
یہی احساس ہمیں آمادہ کرتا ہے کہ وقت کو ضائع نہ کیا جائے اور اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا جائے۔