اگر ہمیں کہیں درس قرآن یا کسی دینی اجتماع کی دعوت ملے تو ہم کہتے ہیں ’’وقت نہیں ہے‘‘ مگر کسی شادی یا کھانے کی دعوت ہو تو وقت مل جاتا ہے! یہ وقت کہاں سے آتا ہے؟ اگر ہمیں کسی بیمار کی عیادت کا خیال آئے تو ہم سوچتے ہیں پھر کبھی سہی ابھی تو وقت نہیں ہے اور اگر کسی سے ملنے کی ذاتی ضرورت درپیش ہو تو وقت مل جاتا ہے! یہ وقت کہاں سے آتا ہے؟
اگر ہمیں کوئی اچھی کتب کے مطالعہ کے لیے کہتا ہے یا کوئی اچھی کتاب پڑھنے کے لیے پیش کرتا ہے تو ہم جواب دیتے ہیں ’’بھئی مطالعہ کے لیے وقت ہی نہیں ملتا‘‘ لیکن اگر کوئی بے ہودہ سا فیشن میگزین نظر آجائے تو اس کی ورق گردانی فوراً ہی شروع کردیتے ہیں یا کوئی رومانوی یا جاسوسی کہانی مل جائے یا حسن و عشق کی کوئی فضول داستان تو اسے پڑھنے میں اپنے قیمتی گھنٹے بے دریغ ضائع کردیتے ہیں۔ تب وہ وقت کہاں سے آتا ہے؟ اگر ہمیں کوئی یہ سمجھائے کہ قرآن کو ترجمہ سے سیکھنا چاہیے، فقہ و حدیث کا علم حاصل کرنا چاہیے تو ہم کہتے ہیں ’’کیا کریں وقت نہیں ملتا‘‘ ہم باقاعدگی سے اس کے لیے ۱۵ منٹ نہیں نکالتے مگر سلائی کڑھائی سیکھنے، نئے نئے پکوان تیار کرنے، نئی تراکیب آزمانے اور حسن و رعنائی بڑھانے کے نسخے استعمال کرنے کا وقت ہم کہاں سے ڈھونڈ لاتے ہیں… یہ وقت کہاں سے آتا ہے؟
شیطان نے موجودہ دور کے انسان کو ’’وقت نہیں ہے‘‘ کا بہانہ دیا ہے، ہر نیک اور اچھے کام کے لیے وقت نہیں ہوتا مگر ہر فضول لایعنی اور لاحاصل کام کے لیے وقت مل ہی جاتا ہے۔
وقت دراصل ہماری طلب پر ہمیں ملتا ہے ہم چونکہ اپنے وقت کا استعمال غلط کاموں کے لیے کرتے ہیں اس لیے اچھے کاموں کے لیے وقت نہیں ملتا۔ جو چیز ہم ضروری سمجھتے ہوں اس کے لیے ہم وقت نکال ہی لیتے ہیں۔ کبھی کوئی یہ نہیں کہتا کہ کھانے کے لیے وقت نہیں، سونے کے لیے وقت نہیں، شاپنگ کرنے اور سیر کرنے کے لیے وقت نہیں۔
ہم نے اپنی ترجیحات کو الٹ دیا ہے۔ جو کام کرنے کے ہیں انھیں فرصت یا اس وقت کے لیے ملتوی کردیا ہے جو کبھی نہیں آئے گا اور جن کاموں کے بغیر بھی گزارہ ہوسکتا ہے یا جن کو ملتوی کیا جاسکتا ہے انھیں فوراً شروع کردیتے ہیں۔ نتیجتاً سب ضروری کام رہ جاتے ہیں۔ … نہ ’’علم‘‘ حاصل کرنے کی فکر، نہ نوافل و اذکار کی طرف توجہ، نہ دوسروں کے لیے ایثار، نہ مطالعہ قرآن و حدیث کا اہتمام خاص، اور نہ دعاؤں کا التزام۔ ہاں البتہ ہر اس کام کے لیے وقت ہے جس سے یا تو ہمیں معاشی فائدہ ہوتا ہے یا دنیاوی اور ظاہری فائدہ۔
کاش ہم زندگی کو ایک امانت سمجھ کر گزاریں جس طرح صلحائے امت نے گزاری۔ جس طرح صحابہ کرام نے گزاری جن کے پاس دعوت دین کے لیے وقت تھا، مطالعہ و عبادت کے لیے وقت تھا دوسروں کی خبر گیری کرنے اور محبت و شفقت کے لیے وقت تھا مگر معاش کمانے اور دنیا بنانے کے لیے وقت نہ تھا۔
کاش ہمارے اندر یہ احساس شدت سے جڑ پکڑلے کہ ہم وقت جیسی انمول دولت ضائع کررہے ہیں جسے کوئی بھی کسی بھی قیمت پر واپس لاکر نہیں دے سکتا۔ مگر ابھی ایک موقع اور ہے۔ ابھی وقت کا وہ لمحہ ہمارے ہاتھ میں ہے جس میں ہم کچھ کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ ابھی مہلت عمل باقی ہے آئیے اب اس مہلت عمل سے حقیقی فائدہ سمیٹنے کی کوشش کریں۔ کیوں نہ اب شعور کے ساتھ اپنے شب و روز کا ہر لمحہ گزارنے کی پلاننگ کرلی جائے۔